تہی دست

غزالہ محمود

پتھر کے بے جان بت میں جان پڑگئی تھی۔ صفیہ نے اپنے بیٹے کے لیے جیٹھ کی بیٹی کا رشتہ قبول کرنے سے انکارکردیا تھا۔ ساس سانپ کی طرح بل کھا رہی تھی۔
’’میں جانتی ہوں یہ کن چکروں میں ہے۔ اس کی بھاوج ڈورے ڈال رہی ہے۔ پڑھا لکھا کماؤ لڑکا دیکھ کر رال ٹپک پڑی ہے اس کی۔ کیا سمجھتی ہے یہ اپنے آپ کو! پوتا تو میرا ہے نا! یہ کیا میکے سے لے کر آئی ہے؟‘‘ ساس کی زبان شعلے اگل رہی تھی۔
انصار صاحب الگ منہ پھلائے پھر رہے تھے۔ ادھر ماں ناراض تھی، ادھر بھائی کا گھر چھوٹا جارہا تھا۔ صفیہ کی بیاہی بیٹی سمیعہ کبھی ماں کی منت سماجت کرتی اور کبھی باپ کو سمجھاتی لیکن اصلہ مسئلہ ہاجرہ بیگم کا تھا۔ وہ ایک انچ اپنے موقع سے ہٹنے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ ان کی فطرت ہی ایسی تھی۔ ان سے کسی لچک دار رویے کی توقع نہیں رکھی جاسکتی تھی۔ لیکن صفیہ جو آج سے قبل مری مٹی کی طرح تھی، اب ایک چٹان کی طرح مضبوط اور غیر متزلزل تھی۔ اگر ہاجرہ بیگم کو اپنے بیٹے کی اطاعت گزاری پر مان تھا تو صفیہ کو بھی اطمینان تھا کہ مختار کبھی ماں کی مرضی کے خلاف شادی نہیں کرے گا۔
آخر صفیہ نے بیٹے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر یہ پل صراط طے کرہی لیا۔ مختار نے باپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فیصلہ سنادیا۔ باپ اور دادی اپنا سا منہ لے کر رہ گئے اور صفیہ سرخرو ہوگئی۔ اس نے فخر سے سر اونچا کرکے کہا: ’’بیٹی تو میں نے نند پر قربان کردی تھی مگر بیٹے کو تر نوالہ کبھی نہ بننے دوں گی۔ ساری عمر خود عذاب بھگتا اور پھر بیٹی کو بھی اسی دوزخ میں جھونک ڈالا۔ اب اکلوتے بیٹے پر پورا حق ہے میرا۔‘‘
دنیا جانتی تھی کہ صفیہ نے ساری عمر ایک زبان جانور کی طرح گزاری تھی۔ بیاہ کر آئی تو میاں نے گھونگھٹ الٹتے ہی ایسا لیکچر پلایا کہ سہم کر رہ گئی۔ اس کے شوہر انصار احمد اکلوتے ہونے کے ناطے ماں کے بہت لاڈلے تھے، بے حد سعادت مند اور فرمانبردار۔
ہاجرہ بیگم بہت جابر، ضدی اور خود پسند عورت تھیں۔ صفیہ بیاہ کر آئی تو انصار احمد نے شبِ زفاف کی سحر ہونے تک یہی بات ہیر پھیر کر دہرائی: ’’دیکھنا، اماں کی شان میں کبھی گستاخی نہ کرنا۔ وہ خواہ تم کو ذبح کرڈالیں مگر تمہیں جواب دینے کا اختیار نہیں ہوگا۔ اگر وہ تم سے خوش ہوں گی تو میری چاہت بھی تمہارے لیے وقف ہوگی۔ اگر وہ ناراض ہوگئیں تو میں یہ برداشت نہ کرپاؤں گا۔‘‘
صفیہ نے فرمانبرداری کا یہ بوجھ لاد کر گردن جھکا دی اور جلد ہی یہ حقیقت اس پر پوری طرح واضح ہوگئی کہ اسے شوہر سے زیادہ ساس کے زیر نگیں رہنا ہوگا۔
نئی نویلی دلہن صفیہ کمرے میں اکیل پڑی سلگتی رہتی اور انصار رات کے بارہ بجے تک اماں کے سرہانے بیٹھے رہتے۔ جب اماں کے خراٹے بلند ہونے لگتے تو وہ چوروں کی طرح کمرے میں آتے۔
صفیہ غریب تھک ہار کر سوجاتی۔ اگر کبھی میاں اسے جگاتے تو وہ غصے سے بھنا جاتی۔ ذرا غصہ جتاتی تو انصار احمد بھڑک اٹھتے: ’’تمہارا مطلب ہے کہ میں اپنی بوڑھی ماں کو چھوڑ کر حجلہ عروسی میں گھس جایا کروں؟ کیا حماقت کی بات کرتی ہو تم؟‘‘
صفیہ کے منہ ہی میں بات اٹک کر رہ جاتی: ’’آخر میں بھی تو انسان ہوں انصار!‘‘
روز کا معمول یہی تھا۔ رات ایک بجے سوتی اور صبح پانچ بجے اٹھ جاتی۔ سارا دن کولہو کے بیل کی طرح جتی رہتی۔ غریب، نیند کے لیے تر س کر رہ گئی تھی۔ ولیمے کے روز ہی سے یہ دستور لاگو ہوگیا تھا کہ اسے صبح صبح ساس کے کمرے میں جاکر فرشی سلام کرنا پڑتا۔ ولیمے والے دن اسے صبح ہی صبح تیار کرکے ساس کے کمرے میں لے جایا گیا۔ دونوںنندوں نے اسے بازوؤں سے تھاما ہوا تھا۔ ادھر ادھر سے سرگوشیاں جاری تھیں:
’’اماں کو جھک کر سلام کرنا۔‘‘
’’صبح صبح اماں کا موڈ بہت خراب ہوتا ہے۔‘‘
صفیہ نے کمرے میں داخل ہوتے ہی نظریں ذرا اٹھا کر اوپر دیکھا۔ ہاجرہ بیگم بستر میں بیٹھی چائے پی رہی تھیں اور انصار احمد پلنگ کے پاس کرسی پر بیٹھے تھے۔ صفیہ نے فوراً ہی نظریں جھکا لیں اور سلام کرنے کے لیے اتنا جھکی کہ کمر دوہری ہوگئی۔
مہمانوں سے گھر بھرا پڑا تھا اور ساس کو ادب آداب کی فکر تھی۔
صفیہ کی یہ جھکی ہوئی نظریں پھر کبھی نہ اٹھ سکیں۔ گھر کا نظام لگے بندھے اصولوں کے تحت چل رہا تھا اور یہ اصول ہاجرہ بیگم کے وضع کردہ تھے۔ صفیہ کی آمد اس گھر کے معمولات میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کرسکی تھی۔ صفیہ اس نظام کا ایک بے ضرر سا حصہ تھی۔ وہ اپنے فرائض بڑی خوش اسلوبی سے ادا کرتی لیکن اس میں اپنے حقوق طلب کرنے کی جرأت نہیں تھی۔ صبح اٹھ کر بڑی باقاعدگی سے ساس کے کمرے میں جاکر سلام کرتی اور پھر جھکی جھکی نظریں لیے کام میں مصروف ہوجاتی۔ رات کو شوہر کا انتظار کرتے کرتے سوجاتی۔
انصار احمد کا ذاتی کاروبار تھا۔ زمینوں سے بھی آمدنی ہوتی تھی۔ ساری آمدنی کلی طور پر ہاجرہ بیگم کے ہاتھ میں تھی۔ صفیہ کو بھی روپیے پیسے کی کوئی تکلیف نہیں تھی۔ ہر ماہ ہاجرہ بیگم ذاتی اخراجات کے لیے مناسب رقم بہو کو دے دیا کرتی تھیں۔ موسم کے مطابق کپڑے وہ خود لے لیتی۔ اگر کبھی میکے جانا ہوتا یا کسی وجہ سے خرچ بڑھ جاتا تو ساس ذرا سی پس و پیش کے بعد مزید رقم دے دیا کرتیں۔
ماہانہ ضرورت کی ہر چیز ہاجرہ بیگم خود منگواتیں۔ گھر میں کیا پکنا ہے، کتنے نوکر رکھنے ہیں، انہیں کیا تنخواہ دینی ہے، مہمانوں کی تواضع، برادری میں لین دین، مکان کی آرائش و مرمت، یہ تمام معاملات ہاجرہ بیگم کے ہاتھ میں تھے اور صفیہ کا اختیار صرف اپنے کمرے تک محدود تھا۔
قدرت نے اولاد کے معاملے میں بھی اتنی فراخدلی نہیں دکھائی تھی۔ مختار اور سمیعہ صرف دو ہی پھول اس گلشن میں کھلے۔ اس کے بعد صفیہ کی کوکھ میں کوئی پھول نہ آسکا۔ اس کی کل کائنات یہی دو بچے تھے۔ وہ جی جان سے ان کی پرورش میں مگن ہوگئی۔ خاندان کے سب لوگ صفیہ کو اللہ میاں کی گائے سمجھتے تھے۔ اس کی بے زبانی اور اطاعت گزاری کو حماقت کا نام دیا گیا۔ خاندان میں اس پر فقرے اچھالے جاتے:
’’بھئی صفیہ نری گنوار ہے۔ اگر ہاجرہ بیگم نہ سنبھالیں تو گھر کا گھر برباد ہوجائے۔ صفیہ تو دو روز میں گھر چوپٹ کرکے رکھ دے گی۔‘‘
یوںصفیہ، جسے میکے میں سات پردوں میں پالا گیا، سسرال میں اس کی ہنر مندی اور دانشمندی ساس کی آہنی شخصیت کے نیچے پس کر رہ گئی اور وہ ایک مشینی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئی۔
سمیعہ نے سر نکالا تو صفیہ کی سوچیں نیا رخ اختیار کرگئیں۔ انصار احمد کی بہن فریدہ کی عرصے سے بھتیجی پر نظر تھی۔ وہ جھولی پھیلائے آگئی۔
سمیعہ خوبصورت تھی اور معقول رشتے بھی موجود تھے مگر ہاجرہ بیگم نے فیصلہ صادر کردیا: ’’سمیعہ ، فریدہ کی بہو بنے گی۔‘‘
صفیہ تلملا اٹھی۔ رشتے ملحوظ خاطر رکھنا ہی لازمی تھا تو صفیہ کی اپنی بہن حلیمہ کا گھرانا بہت اچھا تھا۔ حلیمہ شدت سے خواہشمند بھی تھی۔
ہاجرہ بیگم کا فیصلہ بجلی بن کر صفیہ پر گرا۔ فریدہ کی طبیعت سے وہ خوب واقف تھی۔ وہی ماں کا تکبر، بڑائی اور وہی تحکمانہ انداز! دوسری طرف ہاجرہ بیگم کا فیصلہ اٹل تھا۔ ان کے پاس مضبوط دلائل تھے۔ فریدہ مالی طور پر مستحکم تھی۔ اس کا بیٹا پڑھا لکھا اور معقول عہدے پر فائز تھا۔ شکل و صورت بھی مناسب تھی۔ لیکن صفیہ کو فریدہ کی شکل میں وہی جہنم دہکتا نظر آرہا تھا جس میں وہ خود جل رہی تھی۔ انصار احمد کے سامنے اس نے احتجاج کیا: ’’فریدہ کی طبیعت بہت سخت انصار! جب پھوپھی کا رشتہ ساس کے رشتے میں تبدیل ہوگا تو صورتحال بدل جائے گی۔ میرا دل نہیں مانتا۔‘‘
انصار تلملا اٹھے: ’’ہونہہ، وہی عورتوں کی نرالی منطق! شکر کرو بیٹی کو ایساگھر مل رہا ہے۔ باہر رشتہ دینے میں کیا ضمانت ہے کہ ساس اچھی ہوگی۔ فریدہ، سمیعہ کو بہت چاہتی ہے۔ اپنا خون پھر اپنا خون ہے۔‘‘
صفیہ بے اختیار بول اٹھی: ’’خالہ بھی تو اپنا خون ہے۔ حلیمہ مدتوں سے آس لگائے بیٹھی ہے۔‘‘
انصار جلال میں آگئے: ’’اب میں سمجھا کہ میری بہن کی اتنی مخالفت کیوں ہورہی ہے۔ اولاد میری ہے اور فیصلہ میری ماں نے کیا ہے جو میرے لیے تمام دنیا سے بڑھ کر ہے۔ میں اس فیصلے کے خلاف ایک لفظ نہیں سنوں گا۔‘‘
صفیہ خاموش ہوگئی اور بیٹی کو تقدیر کے سپرد کردیا۔
سمیعہ کی قسمت ماں سے چنداں مختلف نہیں تھی۔ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی تھی۔ اور وہ کھلی کھلی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہی تھی۔
لیکن جب بیٹے کو رشتوں کی صلیب پر چڑھانے کا مسئلہ آیا تو وہ چیخ اٹھی۔ بیٹا ماں کا فرمانبردار تھا۔ اسے پورا اعتماد تھا۔
بیٹی کا معاملہ مختلف تھا اور بیٹی کو زبان کھولنے کی اجازت نہیں دینا چاہیے تھی۔ اب معاملہ بیٹے کا تھا اور وہ بیٹے کو قربانی کا بکرا بنانے کے لیے ہرگز تیار نہیں تھی۔
ادھر ہاجرہ بیگم نے پوتے کو بڑے بیٹے کے گھر بیاہنے کا فیصلہ صادر کردیا۔ صفیہ کے احتجاج کو کون خاطر میں لاتا! لیکن جب مختار نے سینہ ٹھونک کر کہاکہ وہ تایا کے گھر شادی نہیں کرے گا تو اٹھتے ہوئے سر جھک کر رہ گئے۔ ہاجرہ بیگم کا رعب اور دبدبہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ انھوں نے ساری عمر بیٹے پر حکومت کی تھی اور بہو کو ایک حقیر شے سے زیادہ نہیں جانا تھا۔ لیکن صفیہ بھی اب جوان بیٹے کی ماں تھی۔
انکار کا مرحلہ طے ہوا تو اقرار کا مرحلہ آیا۔ صفیہ کی جرأت بڑھ چکی تھی۔ اس نے برملا کہا: ’’میں اپنے بھائی کے گھر مختار کو بیاہوں گی۔‘‘
ہاجرہ بیگم ناراض تھیں مگر خاموش رہیں۔ لڑکی متناسب تھی، اعتراض کون کرتا؟ انصار احمد بھی خاموش ہوگئے۔
مختار تعلیم مکمل کرکے بینک کی ملازمت کررہا تھا۔ شادی بھی جلد ہی طے ہوگئی۔
آسیہ خوش شکل، پڑھی لکھی اور ہنر مند تھی۔ اس کی ماں رابعہ اپنی زمانے میں خاصی تیز طرار اور زبان دراز تھی، لیکن آسیہ میں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ صفیہ جب بھی بھائی کے گھر جاتی، آسیہ اسے باروچی خانے میں مصروف یا کتابوں پر جھکی ہوئی نظر آتی۔ شادی کی تاریخ مقر رہونے کے بعد صفیہ بری کی تیاریوں میں مگن ہوگئی۔ اس نے خوب دل کے ارمان نکالے۔ رات کروشیے کی شال بنتے بنتے اس کی آنکھیں دکھنے لگتیں۔ مگر خوشی کے سامنے یہ سب تکلیفیں ہیچ تھیں۔ وہ اتنی خوش تھی گویا اسے ہفت اقلیم کی دولت ملنے والی ہو۔
جس روز مختار نے سہرا باندھا، صفیہ ایک دلہن کی طرح جگمگارہی تھی۔
آسیہ دلہن بن کی صفیہ کے آنگن میں اترآئی۔ وہ خاص قیمتی جہیز لائی تھی اور صفیہ کو بھاوج نے سونے کے کڑے بھی پہنائے تھے۔ صفیہ کی ناک برادری میںاونچی ہوگئی تھی۔ ہاجرہ بیگم نے چپ سادھ لی تھی۔ مختار کی شادی کے دو ماہ بعد ہاجرہ بیگم پر فالج گرا اور وہ پلنگ سے لگ کر رہ گئیں۔
اب گھر کی مختار کل صفیہ تھی۔ جس گھر میں اس نے ایک بے بس قیدی کی طرح زندگی گزاری تھی، قدرت نے آج اس کے ہاتھوں میں اس گھر کی حکمرانی سونپ دی تھی۔ مختار ماں کا فرمانبردار تھا۔
آسیہ پھوپھی کی تابع فرمان تھی۔ لیکن گھونگھٹ الٹتے ہی اس کے تیور بدلنے لگے۔ پہلے دو ماہ تو میکے اور سسرال کے پھیروں میں گزر گئے اور جب دلہاپا اترا تو خلوص کے کچے رنگ بھی اترنے لگے۔ وہ صفیہ سے چڑنے لگی۔
انصار احمد اب ریٹائر ہوکر زمینوں پر چلے گئے تھے۔ زیادہ آمدن حاصل کرنے کے لیے زمینوں کی خود نگرانی کرنا ضروری تھا، اس لیے اس عمر میں بیوی کو تنہائی کاعذاب سونپ کر وہ زمینوں پر جابسے۔
مختار صفیہ کا حد درجہ ادب کرتا تھا مگر صفیہ اپین ساس کی روایت کو دہرانا نہیں چاہتی تھی۔ وہ ہر معاملے میں بہو کی رائے اور پسند کا احترام کرنا اپنا فرض سمجھتی۔ آسیہ کی خوشی اسے ہر شے پر مقدم معلوم ہوتی۔
صفیہ کی ہدایت کے مطابق مختار اپنی تنخواہ کا نصف حصہ بیوی کو دیا کرتا۔ آسیہ کو ہر جگہ آنے جانے کی آزادی تھی، کوئی روک ٹوک یا پابندی نہیں تھی۔ صفیہ بہو سے بہت پیار محبت سے پیش آتی لیکن جانے کیوں آسیہ کا موڈ خراب رہتا تھا۔
مختار کی، ماں سے محبت اسے کسی طور گوارا نہیں تھی۔ پہلے تو دبی زبان سے بات کرتی تھی لیکن آہستہ آہستہ اس کے جوہر کھلتے گئے۔ مختار رات کے کھانے کے بعد ایک آدھ گھنٹہ ماں کے پاس ضرور بیٹھتا۔ پھر بھی صفیہ اسے جلداز جلد کمرے میں بھجوادیتی۔
آسیہ بھوکی شیرنی کی طرح دہاڑتی: ’’کیا ضرورت تھی یہاں آنے کی؟ جاؤ جاکر اماں کا دل بہلاؤ۔ تم جیسے ماں کی انگلی پکڑنے والے آدمیوں کو شادی کرنی ہی نہیں چاہیے۔‘‘ وہ اتنی زور زور سے بولتی کہ صفیہ اپنے کمرے میں صاف سن لیتی۔
صفیہ کو اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ یاد آجاتا۔ وہ بے بسی، وہ بے زبانی اسے رہ رہ کر جلاتی۔ مختار بھی تو آخر اسی باپ کا بیٹا تھا لیکن وہ تو بیوی کے سامنے بھیگی بلی بنا رہتا۔ بہو اس کے حواسوں پر چھا کر رہ گئی تھی۔
آسیہ صبح نو بجے سوکر اٹھتی اور تیار ہوکر میکے چلی جاتی۔ دوپہر کو وہاں سے تیوری چڑھائے واپس آتی اور کمرے میں گھس جاتی۔ مختار کے آنے سے پہلے تیارہوکر میز لگا کر بیٹھ جاتی۔ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد دونوں آرام کرتے اور شام کو سیر کرنے نکل جاتے۔ صفیہ رات کو انتظار کرتی رہتی۔
اکثر وہ رات کا کھانا باہر سے کھا کر آتے اور صفیہ ٹھنڈی روٹی کے نوالے حلق سے اتار کر سو رہتی۔ ادھر آسیہ کی ماں رابعہ جگہ جگہ کہتی پھر رہی تھی: ’’توبہ! ہمیں کیا پتہ تھا کہ ہماری بیٹی کی یہ اوقات ہوگی۔ ہر چیز صفیہ کے ہاتھ میں ہے اور میری بیٹی دو نوالوں کی محتاج بنی بیٹھی ہے۔‘‘
’’ساری عمر تو صفیہ کو گھر چلانے کا ڈھنگ نہ آیا۔ اب آرام سے بیٹھ کر اللہ اللہ کرے، آخر بہو کس لیے لائی ہے؟‘‘
جب لوٹنے والا اپنا ہو تو پھر فریاد کا یارا بھی نہیں رہتا۔ صفیہ نے سنے پر پتھر کی سل رکھ لی۔ آسیہ بادِ سموم کا ایسا جھونکا تھی جس نے صفیہ کو مرجھا کر رکھ دیا۔ وہ جانتی تھی کہ آسیہ مختار کو کچوکے دیتی رہتی ہے۔ وہ علیحدہ گھر کا مطالبہ کرتی ہے اور یہی اس کی منزل ہے۔
مختار پہلی کو تنخواہ لے کرماں کے پاس آیا۔ صفیہ نے بڑے رسان سے کہا: ’’بیٹا مجھ سے اب گھر داری کا بوجھ نہیں سنبھالا جاتا، یہ رقم آسیہ کو دے دو۔‘‘
’’اماں! میں جانتا ہوں آپ ناراض ہیں۔ آسیہ بے وقوف ہے، جلد سمجھ جائے گی۔‘‘ مختار کا لہجہ گلوگیر تھا۔
’’نہیں مختار! آسیہ بے قصور ہے۔ جب میں بہو تھی تو میری بھی یہی خواہشات تھیں لیکن میں نے حالات سے سمجھوتہ کرلیا تھا اور اب بھی سمجھوتہ کرنے کی باری میری ہے۔‘‘ صفیہ کا لہجہ مضبوط تھا۔
مختار اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ جونہی اس نے خرچ کے پیسے آسیہ کو دیئے، وہ بپھری ہوئی شیرنی کی طرح گرجی اور پیسے کھینچ کر فرش پر دے مارے۔
’’یہ کیا بدتمیزی ہے؟‘‘ شادی کے چھ ماہ میں مختار پہلی بار اس لہجے میں بولا تھا۔
آسیہ چیخی: ’’آگئے ہو اماں سے صلاح مشورہ کرکے؟ میں کیا تمہارے پیسوں کی بھوکی ہوں؟ مجھے فوراً میرے میکے پہنچا دو۔ میں یہاں ایک پل نہیں رکوں گی۔‘‘
مختار پھنکارا ’’ابھی چھوڑ کر آتا ہوں لیکن بات کیا ہے؟ پتہ تو چلے!‘‘
’’پھوپھو کو میرا وجود گوارا نہیں، ہر وقت آپ کو سکھاتی پڑھاتی ہیں، آخر کیوں؟‘‘
’’بکواس بند کرو۔‘‘ مختار گرجا ’’اماں نے آج تک ایک لفظ بھی تمہارے متعلق نہیں کہا۔ وہ بہت حوصلے والی ہیں۔ انھوں نے جس طرح ہماری دادی کے ساتھ وقت گزارا ہے، وہ میں جانتا ہوں۔‘‘
’’ہاں ہاں وہ اعلیٰ ظرف ہیں۔ کمینی تو میں ہی ہوں۔ بہو کو ذلیل کروانا تو خوب آتا ہے انہیں۔‘‘ آسیہ نے ساس کو رگید ڈالا۔ مختار نے اسے ایک تھپڑ رسید کیا۔ آسیہ بلبلانے لگی۔ صفیہ اپنے کمرے سے بھاگ کر آئی۔ مختار کو دھکے دے کر گھر سے باہر نکالا اور بہو کو خاموش کروانے لگی۔
ہاجرہ بیگم اپنے کمرے میں مفلوج پڑی تھی لیکن اندھی تو نہیں تھی، سارا منظر دیکھ رہی تھیں۔
آسیہ بمشکل خاموش ہوئی تھی کہ ہاجرہ بیگم کا بلاوا آگیا۔ صفیہ کمرے میں داخل ہوئی۔
ہاجرہ بیگم کی آنکھوں میں آج بھی وہی جلال اور دبدبہ تھا ’’سناؤ صفیہ کیسی رہی؟ بہت چاؤ تھا بھتیجی لانے کا۔‘‘ ان کی آواز میں تلوار کی کاٹ تھی۔ صفیہ اعصابی طور پر پہلے ہی منتشر تھی۔ اس طعنے نے اسے توڑ کر رکھ دیا۔ اس کا جھکا ہوا سر مزید جھک گیا۔
’’میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ تمہاری اور آسیہ کی لڑائی کیا ہے؟ آخر وہ تمہاری بہو ہے۔ گھر اس کے حوالے کردو۔ دو نوالے کھاؤ اور اللہ اللہ کرو۔ بہو کے ہوتے تمہیں ان بکھیڑوں میں پڑنے کی کیا ضرورت۔‘‘
صفیہ کو جیسے جھٹکا لگا۔ اس نے زخمی نظروں سے دیکھا … اس عورت کے جسم پر تو فالج گرچکا تھا لیکن زبان ویسی ہی خارزار تھی۔
’’ٹھیک ہے اماں! میں صبح گاؤں چلی جاؤں گی۔ میرا اس گھر سے پہلے کبھی کوئی رشتہ تھا نہ آج کوئی ناتا ہے اور نہ آئندہ کبھی ہوگا۔ کل آپ اس گھر کی مالک تھیں اور آج اس گھر کی مالک آسیہ ہے۔ میں پہلے بھی بے دست و پا تھی اور آج بھی اس راجدھانی کا اقتدار میرا حق نہیں۔ پتہ نہیں کل جو کچھ ہوا وہ غلط تھا یا آج جو کچھ ہورہا ہے وہ غلط ہے۔‘‘
ہاجرہ بیگم ٹکر ٹکر صفیہ کا منہ تک رہی تھیں۔ ’’پاگل مت بنو صفیہ! گاؤں جاکر کیسے رہوگی، وہاں بجلی ہے نہ پانی کا معقول انتظام۔ کچا مکان ہے۔ انصار اکثر شکار کھیلنے نکل جاتا ہے۔ تم وہاں کیا کروگی؟‘‘
’’دو نوالے ہی کھانے ہیں مجھے تو اپنے خاوند کے پاس کیوں نہ جاکر رہوں؟ وہی اپنا گھر ہے، وہی میرا اقتدار ہے، وہی میری سلطنت ہے۔ انہی کے قدموں میں میری بادشاہت ہے۔ مجھے جانے دیں۔‘‘
ٹرین تیزی سے چل رہی تھی۔ صفیہ نے کھڑکی سے باہر ہری بھری پگڈنڈیوں کو دیکھتے ہوئے سوچا:
’’بعض لوگ حکومت کرنے کے لیے پیدا ہوتے ہیں اور بعض زیر نگیں رہنے کے لیے جنم لیتے ہیں۔ کچھ لوگ ہرحیثیت میں حکمراں ہوتے ہیں اور کچھ لوگ ہر رشتے میں کچل دیے جاتے ہیں، مسل دیے جاتے ہیں۔ اپنا اپنا مقدر ہے۔‘‘
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146