سونے کے کنگن

مہر رحمن، ایوت محل

نائلہ نے آج پھر ابو سے فرمائش کی ’’ابو آج لائیں گے نا آپ ہمارے لیے سونے کے کنگن۔‘‘
اور جاوید کے دل میں ایک ہوک سے اٹھی۔ نزدیک ہی بیگم کھڑی تھیں۔ دونوں نے اداس نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا۔ جاوید ’’ہاں بیٹی! آج انشاء اللہ ضرور لائیں گے۔‘‘ کہتے ہوئے بیٹی سے نظریں ملائے بغیر ہی تیز قدموں سے باہر نکل گئے۔
نائلہ خوش خوش امی کے ساتھ گھر میں چلی گئی اور روز کی طرح ابو کے آنے تک کنگنوں کے خیال میں ڈوبی رہی۔ شام میں ابو کو اداس چہرے اور تھکے قدموں سے داخل ہوتے دیکھ کر اداس ہوگئی۔ اتنی سمجھ تو اسے بھی تھی کہ چہرے سے ان کے جذبات سمجھ جاتی۔ روز یہی ہوتا۔ روزانہ سونے سے پہلے ابو کا اداس چہرہ یاد کرکے وہ یہ سوچتی ہوئی سوجاتی کہ اب ابو سے ضد نہیں کروں گی۔ لیکن دوسرے دن سونے کے کنگن کا تصور معصوم بچی کو اس طرح اپنے حلقے میں جکڑ لیتا کہ اس کا دم گھٹنے لگتا اور وہ بے اختیار ابو سے کہہ اٹھتی۔ ’’ابو ! آج لائیں گے نا ہمارے لیے کنگن۔‘‘
ایک رات اس نے امی ابو کی باتیں سنیں۔ ’’نہ جانے اس کے دماغ میں کہاں سے بس گئے ہیں یہ کنگن؟ بھلا ہم اس کی خواہش کیسے پوری کرسکتے ہیں۔‘‘ اس کے ابو کہہ رہے تھے ’’بیگم تم اتنا پریشان کیوں ہو، بچی ہی تو ہے کسی کے پاس دیکھ لیے ہوں گے۔ تم پریشان نہ ہو۔ حالات کچھ ٹھیک ہوتے ہی ہم اپنی بیٹی کے لیے بہت خوبصورت سے کنگن بنوائیں گے انشاء اللہ۔ ‘‘ دونوں نے ہی ٹھنڈی سانس لی۔
صبح اس نے امی ابو کے خوشی سے دمکتے چہرے دیکھے۔ اس کے ننھے سے دل نے سرگوشی کی ’’آج دونوں خوش ہیں ضرور تمہارے لیے کنگن لائیں گے آج ابو۔‘‘ اور وہ بے اختیار بول اٹھی ’’ابو! آج لائیں گے نا آپ ہمارے لیے کنگن۔‘‘ آج صبح ہی یہ جملہ سن کر دونوں ہی چونک پڑے۔ کتنی ہوشیار ہے ان کی بیٹی چہروں پر خوشی دیکھ کر والدین کی خوشی سمجھنے لگی ہے۔ اور امی نے پیار سے کہا : ’’نائلہ! آج تمہارے ابو تمہارے لیے کنگن سے بھی زیادہ خوبصورت اور قیمتی چیز لانے جارہے ہیں۔‘‘
’’بھلا کنگن سے بھی زیادہ قیمتی اور خوبصورت چیز کوئی ہوسکتی ہے۔ امی؟‘‘
امی ابو ایک ساتھ بول پڑے : ’’ہاں بیٹے! تمہادی دادی اماں۔‘‘ نائلہ نے کہا: ’’ہاں دادی امی تو سچ میں بہت اچھی ہیں وہ مجھے مزیدار کہانیاں جو سناتی ہیں … لیکن کنگن ان سے بھی اچھے لگتے ہیں مجھے۔‘‘
دونوں پھر اداس ہوگئے۔ جہاں ایک بزرگ ہستی کیآمد کا سوچ کر چہرے کھلے پڑ رہے تھے وہیں بیٹی کی خواہش … دونوں چہرے ایک دم کمھلاگئے۔ جاوید دادای کو لانے کے لیے اسٹیشن روانہ ہوگئے۔
دادی ماں آئیں اور نائلہ دادی کے آگے پیچھے اچھلتی کودتی رہی۔ دادی اماں بیٹے بہو اور پوتی کو خوش دیکھ کر نہال ہوئی جاتیں۔ لیکن تجربہ کار آنکھوں سے نہ چھپ سکا کہ بیٹے بہو اچانک اداس ہوجاتے ہیں۔ اور جب نائلہ نے ابو سے جاتے جاتے پھر یہ جملہ کہا : ’’ابو! آج لائیں گے نا آپ ہمارے لیے کنگن۔ بہت پیارے سے سونے کے کنگن؟‘‘ ’’سونے کے کنگن!‘‘ دادی اماں چونک پڑیں۔ ’’ارے! دلہن یہ کیا کہہ رہی ہے کیا اس کے لیے بنوائے ہیں سونے کے کنگن تم نے؟‘‘
امی نے اداس چہرہ سے ٹھنڈی سانس لے کر کہا ’’کیا بتاؤں امی نہ جانے کہاں دیکھ آئی ہے۔ بس روزانہ رٹ لگائے ہوئے ہے کہ اسے بھی سونے کے کنگن لاکر دیں۔‘‘ اب آپ تو جانتی ہیں۔
دادی اماں نے اطمینان کی سانس لی ورنہ وسوسوں اور اندیشوں نے انھیں بے چین کردیا تھا۔ جاوید کی ملازمت میں سونے کے کنگن کی گنجائش…؟ گھر جیسے تیسے چلتا۔ اللہ تعالیٰ عزت سے روٹی کپڑا دے رہا ہے بس۔ لیکن ایسی بے جا خواہشات کا سایہ اگر کہیں گھر پر پڑجائے تو قناعت اور سکون کو رشوت اور بے ایمانی کی دیمک چاٹ جاتی ہے۔ اللہ … کہیں میرا بیٹا … اور …؟
’’نائلہ بیٹی! … ادھر آؤ… دیکھو میں تیرے لیے کیا لائی ہوں۔‘‘ اور وہ سوچنے لگیں… ہمیشہ تو آتے ہی سرہوجاتی ہے دادی امی ہمارے لیے کیا لائیں آپ… نہ دادی کے آرام کا خیال ہوتا نہ جھجک… اس کی بے صبری دیکھتے ہی بنتی تھی … اب کی بار سونے کے کنگن کی خواہش تمام خواہشوں پر چھا گئی تھی۔ کسی اور چیز کا خیال بھی اسے نہ رہا… اللہ یہ کیسے ہوگیا … یہ سب صحبت کا اثر ہے … پڑوسیوں کی فیشن ایبل بیٹیوں کے ساتھ اٹھتی بیٹھتی ہوگی۔ اس کی سہیلیاں تو سب متوسط طبقے کی ہیں۔ ان کے پاس سونے کے کنگن…؟ اللہ ہماری قوم کو نیک توفیق دے۔ اپنی حیثیت سے زیادہ کی چاہ انھیں غلط اعمال پر اکسا رہی ہے۔ بھلا ہم جیسوں کے لیے سونے کے کنگن یوں ہی نہیں آسکتے۔ کس کے پاس دیکھے ہیں آخر اس نے سونے کے کنگن…؟ اس سے آگے وہ سوچ نہ سکیں۔ نائلہ آکر ان سے لپٹی جارہی تھی۔ کیا لائیں ہیں دادی امی آپ ہمارے لیے … بتائیے نا، دیجیے نا جلدی … اور دادی اماں نے اسے پیار کرتے ہوئے کہا نہیں دو ںگی۔ تجھے تو یاد بھی نہ رہا…کتنی بے صبری سے ہمیشہ مانگتی تھی اپنا تحفہ اور آج … آج ابھی تک تجھے آخر خیال کیوں نہیں آیا۔
اور معصوم نائلہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دادی ماں کو دیکھنے لگی۔ کوئی جواب تو تھا ہی نہیں اس کے پاس۔ آخر وہ کیسے بھول گئی۔ اس کا معصوم ذہن اور احساسات یہ اعتراف بھی نہ کرسکے کہ وہ صرف اور صرف سونے کے کنگن کے حسین حلقوں میں قید یہ دن گزار رہی ہے۔ اور دادی اماں نے اسے لپٹاتے ہوئے کہا کوئی بات نہیں بیٹی! تو تو بھولی ہی میں بھی تو بھول گئی آتے ہی تجھے تیرا تحفہ دینا۔ بوڑھی ہوگئی ہوں نا۔ لیکن اب کی بات تو اتنی اچھی چیز لائیں ہوں کہ تو خوشی سے پھولی نہ سمائے گی۔ پتہ ہے میں تیرے لیے بہت خوبصورت چیز لائی ہوں۔
نائلہ خوشی میں اچھلتی ہوئی دادی اماں سے پہلے کمرے میں پہنچ گئی۔ دادی اماں نے نائلہ کو پیار سے گود میں بٹھاتے ہوئے کہا : ’’نائلہ پیاری تم جانتی ہو زیور کیا کیا ہوتے ہیں؟‘‘ اور نائلہ نے دمکتے ہوئے چہرے سے گنانا شروع کیا ہاں دادی اماں گلے میں ہار، ہاتھ میں کنگن، کان میں جھمکے، پیر میں پازیب یہ ہی ہوتے ہیں نا زیور لیکن ہمیں تو کنگن سب سے اچھے لگتے ہیں، ہار اور جھمکے دوپٹے میں چھپ جاتے ہیں۔ پازیب بھی ایک دم نظر نہیں آتی لیکن کنگن… لیکن کیا آپ یہ سب زیور لائی ہیں ہمارے لیے۔ ہمیں تو صرف سونے کے خوبصورت سے کنگن بھی مل جائیں تو ہم دوسرے زیور کے لیے بالکل نہیں کہیں گے۔ دادی اماں نے پیار سے پوتی کو لپٹاتے ہوئے کہا : ’’واہ بھئی! واہ بہت ہوشیار ہوگئی ہے ہماری بیٹی۔ اسے تو سب زیور یاد ہیں۔ ‘‘ اور معصوم نائلہ بول پڑی :’’اور کیا اب ہم پانچویں میں ہیں نا۔‘‘
دادی اماں دل ہی دل میں زمانے پر لعنت بھیجنے لگی۔ دس گیارہ سال کی معصوم جس کی ابھی کلمے یاد کرنے کی عمر ہے وہ زیور کو اتنی اہمیت دے رہی ہے۔ اسے صرف ظاہری خوبصورتی کا احساس ہوا ہے۔ باطنی خوبصورتی کیا ہوتی ہے اسے آج تک کسی نے بتایا ہی نہیں۔ اللہ کیا تھا ہمارا زمانہ … اس عمر میں انھیں صرف یہ معلوم تھا کہ عورت گھر کی روشنی ہوتی ہے۔ وہ بچی جو بیٹی بن کر گھر کو رحمت اور خوشیوں سے روشن کرتی ہے۔ ماں اور بیوی بن کر قوم کے لیے مشعلِ راہ بن جاتی ہے۔ قوم کے مستقبل کو روشن کرنے والی عورت کا زیور اس کی شرم و حیا ہے۔ ایسی تعلیم سے آراستہ بیٹی عورت بن کر خاندانوں کو، گھروں کو، قوم کے نوجوانوں کو باعزم اور باکردار بنانے میں اپنی زندگی گزار دیتی۔ ظاہری خوبصورتی کا احساس اسے چھو کر نہ جاتا اور باطنی خوبصورتی اس کا زیور ہوتا ہے جو اسے حسین ترین مخلوق ثابت کرتا ۔ اللہ تعالیٰ کی …… نائلہ کی آواز پر وہ پھر اپنے اس زمانے میں لوٹ آئیں۔ دادی امی دیجیے نا میرا تحفہ۔
دادای اماں نے نائلہ کے خوبصورت سے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کو تھامتے ہوئے پیار سے چوما اور کہا ’’بیٹی آنکھیں بند کرو۔‘‘ نائلہ نے آنکھیں بند کرلیں۔ اور جب آنکھیں کھولیں تو اس کے سامنے ایک خوبصورت کتاب تھی۔ وہ اسے لیتے ہوئی خوشی سے اچھل پڑی۔ مگر چند لمحے کے بعد اس نے بڑے شوق سے پوچھا۔ ’’دادا ماں کیا آپ میرے لیے سونے کے کنگن لادیں گی؟‘‘
’’ہاں، بیٹی تم اس کتاب کو پڑھ کر مزے لو۔ اس کی کہانیاں رات میں مجھے سناؤ۔ پھر میں تمہیں ایک کہانی سناؤگی۔‘‘ نائلہ بس کہانیوں کی اس کتاب کو پڑھنے میں ایسی گم ہوئی کہ رات تک ساری ختم کرڈالی۔ دادی ماں نے کہا:’’بیٹا اب کوئی ایسی کہانی سناؤ جو اس کتاب میں تمہیں سب سے زیادہ پسند آئی ہو۔‘‘ نائلہ نے کہا:’’ دادی ماں وہ جو کنگن پہنتے ہیں نا لوگ سونے کے اور جو زیور پہنتے ہیں کیا وہ ان کی زکوٰۃ دیتے ہیں۔ ‘‘
’’اللہ توبہ! اگر وہ زکوٰۃ نہ دیں تو قیامت کے دن وہ تو سانپ بن جائیں گے۔‘‘
’’ میں نہیں پہنوں گی ایسے زیور اور کنگن جو سانپ بن کر قیامت میں ڈسیں۔ اور وہ ارم جو ہے نا کیسی کیسی باتیں کرتی ہے۔ بھلا سونے کے کنگن سے کہیں کوئی لڑکی خوبصورت بنتی ہے۔ اور دادی وہ تو گندی گندی باتیں بھی کرتی ہے۔ بھلا کیا فائدہ ایسے کنگن کا جو انسان کو گندی بات اور جھوٹ بولنے سے نہ روکے۔‘‘ دادی ماں خوشی سے اس کا منھ تک رہی تھیں۔ ان کا تیر نشانے پر بیٹھ گیا تھا۔
——

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں