ہڈیوں کی بوسیدگی(آسٹیوپوروسس) ایک ایسی بیماری ہے، جس میں بڑی عمر میں ہڈیوں کے معدنی اجزا اس قدر کم ہوجاتے ہیں کہ یہ کم زور ہوجاتی ہیں اور بہ آسانی ٹوٹنے لگتی ہیں۔ اس بیماری کے آغاز میں نہ تو درد ہوتا ہے اور نہ کسی قسم کی علامات ظاہرہوتی ہیں، لیکن اکثر آگے چل کر پیٹھ میں درد ہونے لگتا ہے یا قد میں کمی ہوسکتی ہے۔ تاہم زیادہ تر لوگوں کو اس تکلیف کا پتا اس وقت چلتا ہے کہ جب ان کی اچانک کولہے یا کلائی کی ہڈی ٹوٹ جاتی ہے۔
ہماری ہڈیاں جان دار ریشے ہیں جن میں مسلسل تبدیلی رونما ہوتی رہتی ہے۔ جب انسان کا قد و قامت بڑھنا بند ہوجاتا ہے تب بھی اس کے جسم میں کیلشیم جمع ہوتا رہتا ہے اور پرانی ہڈیوں کی شکست و ریخت کے ساتھ ساتھ نئی اور مضبوط ہڈیاں بنتی رہتی ہیں۔ ہڈیوں کی بتدریج شکست و ریخت عمر کا تقاضا اور ایک قدرتی عمل ہے۔ اس عمل کے باعث ہڈیوں کے بھراؤ میں کمی آجاتی ہے اور یہ کم زور ہوتی جاتی ہیں۔ بعض لوگوں میں یہ کیفیت بہت بڑھ جاتی ہے اور وہ ہڈیوں کی بوسیدگی کے مریض ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں ہڈی کے ٹوٹنے کا امکان سب سے زیادہ ہوتا ہے۔
گو عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ سب ہی کے لیے ہڈیوں کی بوسیدگی کا امکان پیدا ہوجاتا ہے، لیکن عورتوں کے لیے یہ خطرہ زیادہ ہوتا ہے خصوصاً سن یاس (مینوپاز) کے بعد یہ خطرہ اور بڑھ جاتا ہے۔ سن یاس کے وقت بیضہ دانی ایسٹروجین ہارمون بنانا بندکردیتی ہے جو عورتوں کے جسم کا خاص ہارمون ہے۔ اور یہ عمل نئی ہڈیوں کی تشکیل پراثر انداز ہوتا ہے۔
ہڈیوں کی بوسیدگی میں اضافے کا انحصار کچھ تو ان عوامل پرہے جن میں ہمارا کوئی دخل نہیں اور جنھیں ہم بدل نہیں سکتے اور کچھ ایسی باتوں پر ہے، جو ہمارے اختیار میں ہیں اور ہم ان میں ردو بدل کرسکتے ہیں اور کچھ اس کے برعکس۔
(۱) یہ مرض سفید فام اور ایشیائی لوگوں کو زیادہ ہوتا ہے۔
(۲) یہ مرض عورتوں کو زیادہ ہوتا ہے۔
(۳) یہ مرض دبلے اور پتلی ہڈی والوں کو زیادہ ہوتا ہے۔
(۴) یہ مرض ان عورتوں کو زیادہ ہوتا ہے جن کا سن یاس قدرتی طور پر نسبتاً جلدبند ہوجاتا ہے یا کسی بیماری کی وجہ سے ان کی بیضہ دانی نکال دی جاتی ہے۔
(۵) یہ مرض ان لوگوں کو زیادہ ہوتا ہے جن کی غذا میں کیلشیم کی مقدار کم رہی ہے، خصوصاً بچپن اور نوجوانی میں انھیں غذا میں کیلشیم کافی مقدار میں نہیں ملا۔
(۶) ان لوگوں میںبھی اس کا امکان بڑھ جاتا ہے جنھیں گردے کی تکلیف یا کوئی ایسی بیماری ہو جو انھیں صاحبِ فراش کردے یا وہیل چیئر پر بٹھادے یا پھر وہ کورٹی کو سٹیرائڈ قسم کی کوئی دو استعمال کررہے ہوں۔
اس بیماری کی جن وجوہ کو جاری رکھنے یا ترک کردینے یا ان میں ردو بدل کرنے پر ہمارا اختیار ہے وہ یہ ہیں:
(۱) تمباکو نوشی
(۲) غذا میں کیلشیم کم ہونا
(۳) الکحل کا زیادہ استعمال
(۴) ورزش کی کمی یا فقدان
(۵) دھوپ کی کمی (جو حیاتین د پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے)
(۶) وزن کو قابو میں رکھنے کے لیے غذا میں اس قدر کمی کردینا کہ ماہواری بند ہوجائے۔
(۷) اتنی سخت ورزش کہ ماہواری بند ہوجائے۔
مختصر یہ کہ جو لوگ کیلشیم سے پُر غذا کھاتے ہیں، باقاعدگی سے ورزش کرتے ہیں، تمباکو نوشی نہیں کرتے اور الکحل نہیں استعمال کرتے ان کے لیے اس بیماری کا امکان کم ہوجاتا ہے۔ تاہم ان تمام احتیاط کے باوجود بعض عورتیں اس بیماری میں مبتلا ہوجاتی ہیں۔
پابندی سے ورزش کی جائے تو جسمانی اور ذہنی صحت پر اچھا اثر پڑتا ہے۔ ہڈیوں کے لیے کچھ خصوصی ورزشیں بھی ہیں، جن کے ذریعے اس مرض کو روکا جاسکتا ہے۔ اگر ان ورزشوں کو پابندی سے کیا جائے تو نہ صرف ہڈیوں کے نقصان سے بچا جاسکتا ہے بلکہ ہڈیوں کو مضبوط تر بھی بنایا جاسکتا ہے۔ ہر وہ ورزش جو ہڈیوں کو موڑنے ، مروڑنے، دبانے اور پھیلانے کے عمل پر مشتمل ہو، ہڈیوں کو مضبوط بنانے کی ورزش کہلاتی ہے۔مثال کے طور پر سیڑھیاں چڑھنے اور رقص کرنے سے پیر کی ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں۔ بازوؤں کی ورزش سے بازو کی ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں۔پیراکی گو دل کو مضبوط بنانے کے لیے بہت اچھی ورزش ہے، لیکن یہ ہڈیوں کو فائدہ نہیں پہنچاتی تاہم جس شخص کو ہڈیوں کی کم زوری اور بھربھراہٹ کی بیماری ہے وہ اگر پانی کے اندر ورزش کرے تو اسے کافی افاقہ محسوس ہوگا۔ ہڈی مضبوط بنانے والی ورزشیں یوں تو آسان ہیں، لیکن جس شخص کو معلوم ہو کہ وہ ہڈیوں کی بوسیدگی کا مریض ہے اسے بہ طور احتیاط معالج سے مشورے کے بعد یہ ورزش شروع کرنی چاہیے۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مضبوط اور صحت مند ہڈیوں کے لیے کیلشیم نہایت ضروری ہے خاص طور سے بچوں، نوجوانوں اور ان عورتوں کے لیے جو بچوں کو دودھ پلا رہی ہوتی ہیں۔ خیال یہ ہے کہ کیلشیم سے بھر پور غذا اگربچپن اور نوجوانی میں استعمال کی جائے تو ہڈیوں میں اس کے ذخائر رہتے ہیں اور ہڈیوں کی بوسیدگی سے بچاتے ہیں۔
اس بات کا امکان کم ہے کہ کیلشیم اس کمی کو پورا کرسکتا ہے، جو سن یاس کے وقت ہارمون کی تبدیلی سے واقع ہوتی ہے، لیکن اگر غذا میں کیلشیم کی کافی مقدار ہو تو سن یاس کے بعد بھی ہڈیوں کی خرابی کی رفتار سست ضرور ہوسکتی ہے اور کولہے کی ہڈی ٹوٹنے کے امکان بھی کم ہوجاتے ہیں۔
اوسطاً مردوں کو روزانہ آٹھ سو ملی گرام کیلشیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ جبکہ خواتین کو ۱۰۰۰-۱۲۰۰ ملی گرام کیلشیم درکار ہوتا ہے، جبکہ ۶۵ سال سے زیادہ عمر کے مردوں اور سن یاس کی شکار خواتین کو ۱۵۰۰ ملی گرام کیلشیم لینا ضروری ہے۔ اگر دودھ سے تیار شدہ اشیا استعمال کی جائیں تو اس ضرورت کو بہ آسانی پورا کیا جاسکتا ہے۔ البتہ ان اشیاء میں چکنائی بہت ہوتی ہے، لہٰذا اپنے وزن پر قابو رکھنے اور دل کو محفوظ رکھنے کے لیے سب سے اچھا طریقہ یہ ہوگا کہ کم چکنائی والی ایسی چیزیں استعمال کی جائیں جن میں بس ضرورت کے مطابق کیلشیم ہو۔
اگر آپ یہ محسوس کریں کہ اپنی غذا سے آپ کو کیلشیم کی مطلوبہ مقدار نہیں مل رہی ہے تو اپنے معالج یا غذا کے ماہر سے اس سلسلے میں مشورہ کریں۔ ——