عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ اَکْمَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ اِیْمَانًا اَحْسَنُہُمْ خُلْقاً وَ خِیَارُکُمْ لِنِسَائِ ہِمْ۔
’’ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایمان والوں میں مکمل ایمان والا وہ شخص ہے جو اخلاق میں سب سے اچھا ہو اور جو اپنی عورتوں کے لیے بہتر ہو۔‘‘
اخلاق صرف خندہ پیشانی اور طلاقتِ وجہ اور ہنس مکھ چہرے کے ساتھ ملاقات کرنے کا نام نہیں ہے، اخلاق درحقیقت عادتوں کو کہتے ہیں جن کا تعلق پوری زندگی سے ہوتا ہے۔ اچھی عادتوں کے ساتھ ہر ایک سے ربط و تعلق، اچھا معاملہ اور اچھا برتاؤ کرنا، ہر ایک کے حقوق پہچاننا اور ادا کرنا اچھا اخلاق اور اعلیٰ سیرت ہے۔ اخلاق دراصل کردار کا نام ہے خصوصاً کمزوروں، ماتحتوں اور ضعیفوں سے اچھا برتاؤ کرنا، اچھا معاملہ اور اچھا برتاؤ کرنا۔ کون ’’باایمان‘‘ ہوگا جسے اپنے ایمان کو مکمل کرنے کی فکر نہ ہوگی۔ نبی کریمﷺ نے اس حدیث میں تکمیلِ ایمان کا ذریعہ اور معیار بتایا ہے۔ سب لوگوں سے اچھے اخلاق اور بہتر کردار کے ساتھ پیش آنا تکمیل ایمان کا ذریعہ ہے۔ لوگوں میں خواتین اور کمزور طبقے بھی شامل ہیں۔ ظاہر داری کا، دکھاوے کا اور مصلحت اندیشی کے تحت خندہ پیشانی اور مسکراہٹ کا مظاہرہ، ماتحتوں اور کمزور طبقوں کے ساتھ نہیں برتا جاسکتا، خصوصاً اپنے گھر کی خواتین کے ساتھ اگر آدمی اچھے اخلاق، عمدہ سیرت اور اعلیٰ کردار کا ثبوت دیتا ہے تو وہ واقعی اچھا مسلمان اور با ایمان شخص بلکہ مکمل ایمان کا مالک ہوگا۔