پڑوسی کا حق

(ماخوذ : عالمی سہارا)

ایک دن سمیر نے اپنی ماں سے کہا کہ وہ اپنے اسکول کے دوست سہیل کو کھانے پر بلاناچاہتا ہے۔
ماں نے کہا: ’’صرف سہیل ہی کیوں، اگر خالد کو بھی بلایا لیا جائے تو کیسا رہے گا؟‘‘ سمیر نے کہا یہ تو اور اچھا ہوگا۔
ماں نے کہا’’اگر ہم تمہارے پڑوسی حمود کو بھی بلالیں تو تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘
سمیر حیران ہوکر کہنے لگا: ’’حمود، وہ تو میری کلاس کا نہیں ہے اور نہ ہی میرے اسکول میں پڑھتا ہے۔ میرے خیال میں وہ تو کبھی اسکول گیا ہی نہیں۔‘‘
ماں نے کہا: ’’کوئی حرج نہیں، تمہارا پڑوسی تو ہے۔‘‘سمیر نے کہا: ’’کوئی بات نہیں، آپ اسے بھی بلالیں۔ ہم سب ساتھ کھانا کھائیں گے۔‘‘
ماں نے کہا: ’’دعوت پر کھانے کے ساتھ ساتھ میں تم لوگوں کے لیے ایک سرپرائز بھی دوں گی۔‘‘’’سپرائز ! وہ کیا ہے؟‘‘ سمیر نے کہا۔
ماں نے کہا: ’’اگر میں ابھی بتادوں تو وہ سرپرائز کہاں رہے گی۔‘‘ ماں کی بات سن کر سمیر خاموش ہوگیا۔ کھانے کے بعد سبھی بچے خوش گپیوں میں لگ گئے۔ کچھ دیر کے بعد ماں مسکراتی ہوئی اندر آئیں اور تھوڑی دیر کے لیے سبھی بچوں کو خاموش رہنے کے لیے کہتے ہوئے بولیں: ’’میں تم لوگوں کے لیے ایک سرپرائز لے کر آئی ہوں۔ مجھے امید ہے کہ تم سب خاموشی سے میری بات سنوگے۔‘‘
ماں نے کہا: ’’تم سب ایک ساتھ اسکول جاتے اور آتے ہو، ایک ساتھ کھیلتے اور رہنا پسند کرتے ہو، تم سب ایک ہی خاندان کے بچے لگ رہے ہو۔ لیکن تم میں ایک بچہ ایسا بھی ہے، جو تمہاری عمر کا ہے۔ وہ اس وقت تمہارے ساتھ موجود بھی ہے، لیکن وہ تم لوگوں کی طرح اسکول نہیں جاسکتا، اس وجہ سے نہیں کہ وہ جانا نہیں چاہتا، بلکہ اس وجہ سے کہ وہ غریب ہے، اس کے والدین اسکول کی فیس ادا نہیں کرسکتے لیکن یہ کوئی عیب کی بات نہیں۔ اس لیے میں نے سوچا ہے کہ کل سے وہ بھی اسکول جایا کرے گا اور اس کے اسکول کے اخراجات میں اٹھاؤں گی۔ مگر تم لوگوں کو بھی ایک وعدہ کرنا ہوگا۔ تمام بچے ماں کا منہ دیکھنے لگے کہ وہ ان سے کیسا وعدہ لینا چاہتی ہیں۔ ماں،بچوں کو حیران دیکھ کر بولیں: ’’تم لوگ یہ وعدہ کرو کہ اسکول میں اس کی ہر طرح سے مدد کروگے، سبق کو سمجھانے میں اس کا تعاون کرو گے۔‘‘
بچوں نے کہا:’’وہ تو ٹھیک ہے مگر وہ بچہ ہے کون؟‘‘ ماں نے حمود کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’یہ ہے وہ بچہ۔‘‘
حمود اس وقت بہت زیادہ شرمندہ ہورہا تھا۔ لیکن دل ہی دل میں خوش تھا کہ وہ بھی اپنے ہم عمروں کی طرح اب اسکول جائے گا اور محنت سے پڑھے گا۔
ماں نے اس کی پیشانی کا بوسہ لیتے ہوئے کہا ’’بیٹے! مبارک ہو، اب ہم سب تمہارے ساتھ ہیں، ہم میں سے کوئی دوسرے سے بہتر نہیں ہے۔ کل ہی تمہارا داخلہ ہوجائے گا۔ مجھے تم پر یقین ہے کہ تم محنت کروگے اور سبھی بچوں کے دوست بن جاؤگے۔‘‘
اگلے دن ماں حمود کو ساتھ لے کر اسکول کے پرنسپل سے ملیں، پرنسپل کو پہلے ہی سے سارا واقعہ معلوم ہوگیا تھا۔ پرنسپل نے کہا کہ وہ حمود کی فیس کا آدھا حصہ معاف کردیں گے۔ یہ سن کر ماں نے پرنسپل کا شکریہ ادا کیا۔
دن گزرتے رہے، حمود اول درجہ کے طالب علموں میں شمار کیا جانے لگا اور محنت کرکے سبھی کے ساتھ ہوگیا، اس نے یہ ثابت کردیا کہ وہ نہ صرف علم حاصل کرنے کا اہل ہے بلکہ اپنی محنت اور اچھے اخلاق کی وجہ سے اساتذہ کی نظروں کا تارا بھی بن گیا۔
سمیر نے ایک دن اپنی ماں سے کہا: ’’اگر آپ حموں کی مدد نہ کرتیں تو وہ بیچارہ اس قابل نہیں بن پاتا۔‘‘
اس پر ماں نے کہا: ’’پڑوسی کا پڑوسی پر حق ہوتا ہے۔‘‘ اور مسکراتے ہوئے بولیں: ’’بھلائی کے کاموں میں سب سے بہتر وہ ہے جو کسی کو فائدہ پہنچائے اور جس سے فائدہ اٹھایا جائے۔‘‘
سمیر نے پوچھا: ’’فائدہ کیسے اٹھایا جاسکتا ہے۔‘‘
ماں نے کہا: ’’انسان کی زندگی میں کوئی ایسا دن ضرور آتا ہے، جب اسے کسی نہ کسی کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر تم کسی کی مدد کرو گے تو مشکل میں تمہاری بھی مدد کی جائے گی۔ لیکن ہمیں اس امید پر کسی کی مدد نہیں کرنی چاہیے کہ وہ بھی ہماری مدد کرے گا۔‘‘

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں