انتقام

موپساں

قصبہ بونی فیسیو کے آخری کنارے پر، الگ تھلگ ایک عمر رسیدہ بیوہ عورت اپنے نوجوان لڑکے کے ساتھ رہا کرتی تھی۔ ان کا چھوٹا سا ٹوٹا پھوٹا مکان پہاڑی کے ساتھ ہی بنا ہوا تھا، جس میں آرام و آرائش کی کوئی چیز نہیں تھی۔یہاں شب و روز بحری ہوائیں چلتی رہتی تھیں۔ بونی فیسیوکے ماہی گیر انہی طوفانوں میں اپنی کشتیاں لے کر سمندر میں مچھلیاں پکڑنے جاتے تھے۔ دور سمندری چٹانوں کے پیچھے ایک دھبے کی مانند جزیرہ سارڈینیا دکھائی دیتا تھا۔ بڑھیا سیورنی کا مکان چونکہ ایک بلند پہاڑی ٹیلے پر تھا اس لیے وہاں سے سارڈینیا کی خوبصورت برفانی پہاڑیاں اور ان پر بنے ہوئے اکا دکا مکانات صاف نظر آتے تھے۔ اور بعض اوقات تو یوں محسوس ہوتا جیسے یہ مکان پرندوں کے چھوٹے چھوٹے گھونسلے ہیں۔ بڑھیا سیورنی کے مکان کی تین کھڑکیاں سارڈینیا کی طرف کھلتی تھیں اور کبھی کبھار وہ وہاں بیٹھی اس جزیرے کی طرف خواب آلود نگاہوں سے دیکھتی رہتی تھی جہاں آسمان اور سمندر ایک دوسرے سے گلے ملتے ہوئے نظر آتے تھے۔
اس کے بیٹے کا نام انتونی تھا۔ وہ نہایت صحت مند اور خوبصورت جوان تھا۔ دونوں ماں بیٹے ایک دوسرے کو دیکھ کر جیتے تھے۔ اس مختصر سے گھر میں ان کے علاوہ ایک تیسرا فرد اور بھی تھا۔ اور وہ ان کی پالتو کتیا تھی جس کا قد لمبا، جسم دبلا پتلا اور پنجے کافی تیز اور نوکیلے تھے۔ وہ شکاری کتیا تھی اور کبھی کبھار نوجوان انتونی کے ساتھ شکار کی مہم پر جایاکرتی تھی۔
ایک اداس شام کا ذکر ہے۔ نوجوان انتونی کا کسی بات پر ایک شخص نکولس سے جھگڑا ہوگیا۔ نکولس قصبہ بونی فیسیو کا بدمعاش تھا۔ اس نے مشتعل ہوکر لمبا چاقو نکالا اور انتونی کے سینے میں گھونپ دیا اور پھر لڑکے کی تڑپتی ہوئی لاش کو وہیں چھوڑ کر اسی رات سارڈینیا کی طرف بھاگ گیا۔ انتونی کی لاش رات بھر اسی پہاڑی درّے میں پڑی رہی۔ وہاں شاذ و نادر ہی کسی کا گزر ہوتا تھا۔ اتفاقاً چند ماہی گیر ادھر سے گزرے اور انھوں نے پہچان لیا کہ لاش بڑھیا سیورنی کے بیٹے انتونی کی ہے۔ وہ لاش کو بڑھیا کے مکان پر لے آئے۔ بڑھیا نے اپنے بیٹے کی لاش دیکھی اور دیکھتی ہی رہی۔ نہ اس کا جسم کانپا، نہ اس نے چیخ ماری اور نہ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی برکھا ہوئی۔ وہ بس چپ چاپ، خاموش، پھٹی پھٹی نظروں سے اپنے پیارے بیٹے کی لاش دیکھتی رہی۔ پھر اس نے اپنا جھریوں والا ہاتھ آگے بڑھا کر اپنے بیٹے کے سینے پر رکھا اور قسم کھائی کہ وہ اس خون کا انتقام لے گی۔ اس نے ماہی گیروں اور دوسروں لوگوں کو، جو اس سے ہمدردی کرنے آئے تھے، اپنے مکان سے چلے جانے کا اشارہ کیا۔
’’جاؤ — تم سب یہاں سے چلے جاؤ— مجھے تمہاری مدد کی ضرورت نہیں۔ تم میرا بیٹا مجھے واپس نہیں دے سکتے۔ اس لیے جاؤ… مجھے اکیلا چھوڑ دو۔ میں اپنے بیٹے سے کچھ باتیں کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
کسی نے کچھ نہ کہا۔ لوگ سمجھے کہ بڑھیا سیورنی کا دماغ چل گیا ہے۔ ان سب کی آنکھوں میں آنسو تھے اور چہرے سوگوار۔ جب سب چلے گئے تو بڑھیا نے مکان کا دروازہ بند کیا اور انتونی کی لاش کے قریب بیٹھ گئی اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ کتیا اپنے مرے ہوئے آقا کے سرہانے بیٹھی تھی۔ اس کا جسم بے حس وحرکت تھا۔ اس نے کئی مرتبہ محبت سے انتونی کے سر پر اپنا پنجہ رکھا۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ شاید اس کا آقا سو رہا ہے۔ لیکن وہ اس سے پہلے تو کبھی اس وقت نہیں سویا تھا۔ اس نے منہ اٹھا کر بڑھیا سیورنی کی طرف دیکھا جس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔ کتیا کو احساس ہوا کہ اس کا آقا مرچکا ہے۔ اس کے حلق سے ایک لمبی اور دلدوز آواز نکلی جس سے سارا مکان گونج اٹھا اور بڑھیاکو یوں معلوم ہوا جیسے انتونی کی موت پر مکان کے درودیوار بھی رو رہے ہیں۔ کتیا کے رونے کی آواز مکان کے باہر کھڑی ہوئی چند عورتوں نے بھی سنی اور وہ سسکیاں بھرتی ہوئی وہاں سے چلی گئیں— بیچارہ انتونی— اس کی عمر ہی کیاتھی — زندگی کی صرف بیس بہاریں اس نے دیکھیں اور موت کے بے رحم ہاتھوں نے اسے دبوچ لیا۔
انتونی کی لاش بستر پر پڑی تھی — اس کا بھورے رنگ کا پرانا کوٹ جگہ جگہ سے پھٹا ہوا تھا، سر کے بال نچے ہوئے تھے۔ اس کا سارا جسم، سینہ، گردن، بازو، ٹانگیں جمے ہوئے خون سے لتھڑی ہوئی تھیں، لیکن اسے دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ مرچکا ہے۔ بس یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ آنکھیں بند کیے آرام کی نیند سو رہا ہے۔
روتے روتے یکایک بڑھیا چپ ہوگئی۔ اس کی آنکھیں اپنے بیٹے کے چہرے پر گڑی ہوئی تھیں اور لب کپکپا رہے تھے۔ شاید وہ کچھ کہنا چاہتی تھی۔ اور پھر اس کی زبان سے چند جملے ادا ہوئے۔ کتیا نے جونہی مالکہ کی آواز سنی، وہ بھی خاموش ہوکر اس کا منہ تکنے لگی جیسے سمجھنا چاہتی ہو کہ مالکہ کیا کہہ رہی ہے۔
’’آہ! میرے پیارے بیٹے، تم سورہے ہو… سو جاؤ… خوب آرام سے سوجاؤ… کیا تم میری آواز سن رہے ہو؟ میں تمہاری ماں بول رہی ہوں بیٹے … تمہاری ماں… جس سے تمہیں بڑا پیار تھا… اور جس کا حکم تم نے کبھی نہیں ٹالا … میں وہی تمہاری ماں ہوں … اور تمہارے سامنے عہد کرتی ہوں کہ تمہارے خون کا بدلہ ضرور لوں گی… اب تم اطمینان سے سوجاؤ…‘‘
یہ کہہ کر وہ انتونی کی لاش پر جھکی اور اپنے سرد اور کانپتے ہوئے ہونٹوں سے اس کی خون آلودہ پیشانی چوم لی۔ بڑھیا جونہی چپ ہوئی، کتیا کے حلق سے رونے کی مہیب آواز نکلی۔ پھر اس نے اپنا منہ زمین میں چھپا لیا اور چپکی ہوگئی۔ اور اس طرح وہ رات بوڑھی سیورنی اور کتیا سیمی لینٹی نے انتونی کے قریب بیٹھ کر روتے دھوتے گزار دی۔
دوسرے روز انتونی کو قصبہ بونی فیسیو کے چھوٹے سے گرجے کے قبرستان میں دفن کردیا گیا۔ چند روز تک نوجوان کی دردناک موت کا چرچا لوگوں میں ہوا اور پھر سب بھول بھال گئے۔ سوائے اس کی ماں اور اس کی کتیا کے جو اس کی موت کے غم کو سینے سے لگائے ہوئے تھیں۔
بڑھیا کے شب و روز اسی فکر میں گزرنے لگے کہ انتقام لینے کی صورت کیا ہو۔ اسے اتنا پتا چل چکا تھا کہ جس شخص نے اس کے بیٹے کو مارا ہے وہ سارڈینیا کے ایک گاؤں لونگوسارڈو میں چھپا ہوا ہے۔ یہ گاؤں کارسیکن بدمعاشوں اور غنڈوں کو پناہ دینے کے لیے بڑا مشہور تھا اور اکثر جرائم پیشہ لوگ انصاف کے ہاتھ سے بچنے کے لیے لونگوسارڈو میں پناہ لیا کرتے تھے۔
بڑھیا سیورنی نہ کسی سے بات کرتی اور نہ کہیں آتی جاتی بلکہ مکان کی پچھلی کھڑکیوں میں سے ایک میں بیٹھ کر سارا سارا دن لونگو سارڈو کی جانب گھورا کرتی جہاں اس کے بیٹے کا قاتل چھپا ہوا تھا۔ غصے سے اس کے بدن کا رواں رواں کانپنے لگتا اور آنکھیں اشک بار ہوجاتیں۔ اس کی سمجھ میں بدلہ لینے کی کوئی تدبیر نہ آتی تھی۔ وہ نحیف و ناتواں عورت تھی۔ اس کا کوئی مددگار نہ تھا۔ وہ کسی سے صلاح مشورہ بھی نہیں لے سکتی تھی۔ اسے تو اتنا بڑا کام تنِ تنہا پایۂ تکمیل تک پہنچانا تھا۔ وہ اپنے بیٹے سے وعدہ کرچکی تھی۔ اس کی لاش کے آگے سینے پر ہاتھ رکھ کر انتقام کی قسم کھائی تھی۔ اسے اب تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ کیا معلوم موت کا ظالم ہاتھ کب اسے بھی پکڑ لے اور اپنے ساتھ لے جائے۔ پھر وہ اپنا قول کیونکر پورا کرے گی؟ اسی فکر میں اسے نیند نہ آتی تھی۔ وہ ساری رات اپنی چھوٹی سی کوٹھڑی میں ٹہلا کرتی یا تھک کر کھڑکی کے پاس بیٹھ جاتی۔ اسے کسی کل چین نہ پڑتا تھا۔ کتیا سایے کی مانند اپنی مالکن کے ساتھ ساتھ رہتی۔ اب اس میں بھی وہ پہلی سی شوخی اور چلبلا پن نہ رہا تھا۔ وہ شاذ و نادر ہی بھونکتی۔ بس اپنی مالکہ کے پیروں تلے پڑی سویا کرتی یا دل چاہتا تو اونچی آواز میں دو تین مرتبہ رونے کی آواز نکالتی اور چپ ہوجاتی۔ شاید وہ اپنے آقا کو ڈھونڈتی اور پکارتی تھی۔
ایک رات جبکہ کتیا اسی طرح اپنے آقا کی یاد میں رو رہی تھی بڑھیا کے ذہن میں انتقام لینے کی ایک انوکھی تدبیر آئی۔ نہایت کارگر اور نہایت وحشیانہ تدبیر۔ وہ ساری رات اسی تدبیر کے مختلف پہلوؤں پر سوچ بچار کرتی رہی اور اسے یقین ہوگیا کہ اگر اس پر عمل کیا جائے تو وہ قاتل سے خاطر خواہ بدلہ لے سکتی ہے۔ صبح ہوتے ہی وہ مکان سے باہر نکلی اور گرجے میں جاکر قربان گاہ کے سامنے سجدے میں گر پڑی اور خدا سے رو رو کر اپنی کامیابی کی دعائیں مانگنے لگی۔ گرجے سے واپس آکر اس نے کتیا کو صحن میں باندھ دیا اور اپنی کوٹھڑی میں چلی گئی۔ اس کی نگاہیں سارڈینیا کے ساحل پر گڑی ہوئی تھیں۔
اس روز کتیا سارا دن اور ساری رات بھوکی پیاسی صحن میں بندھی رہی، پہلے تو وہ کافی دیر تک چپ چاپ پڑی رہی لیکن جب اسے بھوک ستانے لگی تو اس نے بھونک بھونک کر سارا مکان سر پر اٹھالیا مگر بڑھیا سیورنی اپنی کوٹھڑی سے باہر نہ نکلی۔ اور نہ اس نے کتیا کو کچھ کھلایا پلایا۔ اس سے اگلے روز صبح وہ کوٹھڑی سے برآمد ہوئی اس کے ہاتھ میں پانی سے بھرا ہوا ایک پیالہ تھا۔ وہ اس نے کتیا کے سامنے رکھ دیا۔ کتیا نے پانی پیا اور محبت سے دم ہلائی اور اب وہ روٹی یا گوشت کے چند لوتھڑوں کی منتظر تھی مگر بڑھیا نے سارا دن کھانے کے لیے اسے کچھ نہ دیا۔ اب کتیا بھوک سے اس قدر نڈھال ہوچکی تھی کہ اس میں بھونکنے کی سکت بھی باقی نہیں رہی۔ وہ آنکھیں بند کیے پڑی رہی۔ رات کے وقت جب اسے پھر بھوک نے ستایا تو وہ بھونکی اور زنجیر تڑانے کی کوشش کرنے لگی، لیکن زنجیر مضبوط تھی، ٹوٹ نہ سکی۔
دوسرے روز صبح بھی بڑھیا نے کتیاکو پانی ہی پلایا۔ اور کھانے کے لیے کچھ نہ دیا۔ اس نے کتیا کے چہرے پر مایوسی اور حیرت کے ملے جلے تاثرات پہچان لیے۔ اپنی مالکہ کو دیکھتے ہی وہ زور زور سے اچھلنے اور زنجیر سے آزاد ہونے کی سعی کرنے لگی، لیکن اسے کھانے کو پھر بھی کچھ نہ ملا، اور وہ سارا دن بھوکی رہی۔ تیسرے روز بڑھیا سیورنی اپنے ایک پڑوسی کے گھر گئی اور وہاں سے دو گٹھڑیاں خشک گھاس اور بھس کی اٹھا لائی۔ پھر اس نے لکڑی کا ایک پرانا صندوق کھولا اور اس میں سے اپنے مرحوم شوہر کے کپڑے نکالے۔ اور ان کپڑوں میں بھس بھردیا۔ اس کے بعد بڑھیا نے بھس بھرے ہوئے کپڑوں کے اس انسانی ڈھانچے کو صحن میں ایک اونچی سی لکڑی گاڑ کر اس کے ساتھ کھڑا کردیا۔ پھر پرانی لینن کو لپیٹ کر اس ڈھانچے کا سر بنایا اور اس میں بھی بھس بھر کے ڈھانچے کی گردن مکمل کردی۔
کتیا حیرت سے یہ سب تماشا دیکھ رہی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ مالکہ کو کیا ہوگیا ہے۔ اس سے پہلے تو اس نے کبھی اسے بھوکا نہیں رکھا تھا۔ اس کام سے فارغ ہوکر بڑھیا بازار گئی، قصاب کی دکان سے اس نے کلیجی خریدی اور گھر آگئی۔ پھر صحن ہی میں بھوکی کتیا کے سامنے اس نے آگ جلائی اور کلیجی بھوننے لگی۔ کلیجی کی خوشبو جب کتیا کی ناک تک پہنچی تو اس کی بے قراری اور بے چینی کی حد نہ رہی۔ اس کا منہ کھلا ہوا اور آنکھیں گوشت پر لگی ہوئی تھیں۔ پھر بڑھیا نے کلیجی کو ایک ڈوری میں پرودیا اور بھس بھرے ہوئے ڈھانچے کی گردن پر لپیٹ دیا اس کے بعد وہ کتیا کی طرف گئی اور اس کی گردن سے زنجیر اتاردی۔
بجلی کی مانند بھوکی شکاری کتیا اس ڈھانچے کی طرف جھپٹی اور اپنے نوکیلے پنجے سے اس کی گردن پر وار کیا اور پھر اپنے دونوں پنجے اس کے کندھوں پر گاڑ کر دانتوں سے کلیجی کی بوٹیاں نوچنے لگی۔ لیکن اس کا منہ وہاں تک بمشکل پہنچ پایا۔ وہ پیٹھ کے بل زمین پر گری، لیکن پھر اٹھی اور ڈھانچے پر جھپٹی۔ کتیا کے غیظ و غضب کی انتہا نہ تھی، چند ہی لمحوں میں اس نے ڈھانچے کی گردن، شانے، بازو اور سینہ سب نوچ ڈالے اور کلیجی کا ایک ایک ٹکڑا ہڑپ کرگئی۔ بڑھیا سیورنی صحن کے ایک گوشے میں بے حس و حرکت اطمینان سے کھڑی یہ دلچسپ تماشا دیکھتی رہی۔ پھر اس کی آنکھوں میں چمک اور لبوں پر تبسم کی خفیف سی لہر نمودار ہوئی۔ کتیا کلیجی کھاکر اور ڈھانچے کو تہس نہس کرکے جب فارغ ہوئی تو بڑھیا نے اسے زنجیر سے باندھ دیا۔
اس کے بعد دو روز تک کتیا کو پھر فاقے سے رکھا گیا۔ اس دوران میں بڑھیا نے بھس کا انسانی ڈھانچہ تیار کیا اور کلیجی اس کی گردن سے باندھ کر کتیا کو چھوڑدیا۔ اس مرتبہ کتیا نے پہلے سے بھی زیادہ خونخواری اور جو ش وخروش کا مظاہرہ کیا اور آناً فاناً اپنے نوکیلے پنجوں اور لمبے لمبے دانتو ںسے اس کے چیتھڑے اڑا دیے۔ تین ماہ تک بڑھیا نے ہر تیسرے روز یہی عجیب تماشا اپنے گھر میں کیا اور کتیا کو اس حد تک سدھایا کہ وہ اب محض اشارے ہی پر اس ڈھانچے کی طرف جھپٹتی اور اس کی تکا بوٹی کرڈالتی۔ اسے اب زنجیر سے باندھے رکھنے کی ضرورت بھی نہ رہی تھی۔ اب ایسا ہونے لگا کہ کتیا اس کام سے فارغ ہوتی تو کلیجی اسے بعد میں انعام کے طور پر کھلائی جاتی تھی۔ ڈھانچہ جب دوبارہ بنایا جاتا تو کتیا ایک گوشے میں بیٹھی اسے وحشیانہ انداز میںتکتی رہتی اور جونہی بڑھیا کی انگلی کااشارہ ملتا۔ وہ اپنی جگہ سے اچھلتی اور ڈھانچے پر پل پڑتی۔ جب بڑھیاکو کتیا پر پورا اعتماد ہوگیا تو ایک روز صبح سویرے اس نے پرانے صندوق میں سے اپنے مرحوم شوہر کے کپڑوں کا ایک اور جوڑا نکالا اور اسے خود پہن لیا۔ کلیجی لے کر ایک تھیلے میں رکھی اور پھر کتیا کو ساتھ لے کر ساحل سمندر کی طرف چل پڑی۔ اس کی چال ڈھال اور آواز سے یہی معلوم ہوتا تھا کہ کوئی بوڑھا آدمی ہے۔ اس نے ایک ماہی گیر سے کہا کہ وہ اسے لونگوسارڈو پہنچا دے۔ کتیا کو اس نے اس مرتبہ دو دن کے فاقے سے رکھا۔ کشتی میں بیٹھنے کے بعد اس نے تھیلے کا منہ ذرا سا کھولا۔ کلیجی کی خوشبو جب کتیا کی ناک میں گئی تو وہ اچھلنے اور اسے جھپٹنے کی کوشش کرنے لگی۔ بڑھیا نے اس کی گردن پر تھپکی دی اور آہستہ سے کہا:
’’نہیں ۔ ابھی اس کا وقت نہیں آیا۔ ذرا اور صبر کرو…‘‘
لونگوسارڈو پہنچ کر وہ ایک شراب خانے میں گئی۔ وہاں اس نے نکولس کے بارے میں پوچھا کہ کہاں ملے گا۔ کسی نے بتایا کہ نکولس بڑھئی اپنی دکان میں کام کررہا ہے۔ بڑھیا اس دوکان کا پتہ دریافت کرکے وہاں آسانی سے پہنچ گئی۔ اس نے آہستہ سے دوکان کا دروازہ کھولا۔ دوکان کے پچھلے حصے میں کوئی شخص ہتھوڑے سے لکڑی پر کیلیں ٹھونک رہا تھا۔ بڑھیا بلند آواز سے بولی:
’’نکولس… کیا تم یہاں موجود ہو؟‘‘
دوسرے ہی لمحے ایک لمبا تڑنگا ادھیڑ عمر کا آدمی اس کے سامنے کھڑا تھا۔ ’’ہاں ، میرا ہی نام نکولس ہے، کہو کیا کام ہے؟‘‘
یہ سنتے ہی بڑھیا نے کتیا کی گردن سے زنجیر کھولی اور چلا کر کہنے لگی:
’’پکڑلواسے… پکڑ لو اسے…‘‘
شکاری کتیا، جو پہلے ہی سے اس فن میں طاق ہوچکی تھی ایک بلا کی مانند نکولس کی طرف جھپٹی اور اس کے گلے پر اپنا زبردست پنجہ مارا۔ نکولس بدحواس ہوکر پیچھے گرا۔ اس اثنا میں کتیا نے اس کے منہ پر پنجے مارے اور اپنے لمبے دانت اس کے گلے میں گاڑ دیے۔ نکولس کے منہ سے چیخ بھی نہ نکل سکی۔ چند منٹ تک وہ زمین پر پڑا تڑپتا رہا اور پھر ٹھنڈا ہوگیا۔ بڑھیا اپنی کتیا کے ساتھ گھر لوٹ آئی۔ اس نے اپنے اکلوتے نوجوان بیٹے کے قتل کا انتقام لے لیا تھا۔
——

 

 

کوارٹر اشتہار

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146