برتری کی خواہش ہر فرد اور قوم میں پائی جاتی ہے۔ طبقہ امراء کاوجود اسی کا نتیجہ ہے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم بھی اسی برتری کی خواہش میں لڑی گئیں۔ مرد اور عورت کے تعلقات میں بھی برتری کا احساس صدیوں سے کام کررہا ہے۔ مرد اپنی قوت اور طاقت کے ذریعے برتری قائم رکھنے کا خواہش مند ہے اور عورت اپنے حسن کے ذریعے مرد کو گرویدہ کرکے برتری کی خواہش کو پورا کرتی ہے۔
روز مرہ کی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک دوسرے پر اپنی برتری اور اہمیت جتانے کی خواہش ہمارے اکثر افعال و اعمال کی محرک ہوتی ہے۔ سیاست، مذہب اور سماجی و معاشرتی زندگی میں اپنی برتری جتانے کا میلان، قوت محرکہ کا کام دیتا ہے۔ جب کبھی اس میلان کی تشفی نہیں ہوپاتی تو اس کا ردِ عمل ایک قدرتی بات ہے۔ اس کے دو ہی نتیجے ہوں گے۔ یا تو یہ مزید قوت حاصل کرکے شدید صورت میں ظاہر ہوگا یا اس قدر دب جائے گاکہ اس سے دماغی امراض یا ذہنی خلل پیدا ہوجائے گا۔ پہلی صورت میں برتری کا جذبہ بے رحمی اور قانون شکنی کی صورت اختیار کرلیتا ہے مثلاً ایک سپاہی کی بہادری کو تسلیم نہیں کیا جاتا یا طالب علم کی قابلیت کو سراہا نہیں جاتا تو ان لوگوں کو رنج ہوگا۔ ممکن ہے یہ رنج غصے اور غضب کی صورت اختیار کرلے اور فتنہ و فساد پیدا کرنے کا موجب ہو۔ دوسری صورت میں رنج سے ان لوگوں کی دماغی حالت بگڑ جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ممکن ہے سپاہی خود کشی کرلے یا مایوس ہوکر بزدل بن جائے اور طالب علم یقین کرلے کہ اس کی لیاقت بے کار شے ہے۔
برتری ایک بنیادی خواہش ہے۔ جب تک یہ خواہش اعتدال پر رہے، انسانی ذہن اصلی حالت پر رہتا ہے ورنہ اس میں خلل آجانا بعید نہیں۔ خواہش کا پورا نہ ہونا اور آسودگی نہ پانا اسے الجھن میں تبدیل کردیتا ہے۔ یہ الجھن ایک ذہنی بیماری ہے۔ آج کل یہ بیماری عام ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بعض چھوٹے قد کے آدمی تن کر چلتے ہیں، بڑے تکلف سے گفتگو کرتے ہیں۔ کئی تو لباس کے معاملے میں دیوانے ہوئے جاتے ہیں، کیا مجال جو کریز میں فرق آجائے۔ لباس بھڑکیلاپہنتے ہیں۔ یہ محض مردوں تک محدود نہیں۔ اس سلسلے میں عورتیں نمائش کی زیادہ خواہشمندہوتی ہیں۔کئی تو مردوں کی طرح پیش آتی ہیں۔ ان کا لب و لہجہ مردانہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کئی مرد نمائش کے لیے زنانہ آرائش کرتے ہیں۔ کئی خود کو یکتائے روزگار خیال کرتے ہیں۔ ان سب کو برتری کا احساس ہے جو الجھن کی حد تک پہنچ چکا ہے۔
یہ سب لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ اس لیے کہ انہیں اپنی کسی جسمانی کمزوری کا احساس ہے۔ وہ اس کمی کو محسوس کرتے اور اس کی خفت مٹانے کے لیے ایسے فعل کے مرتکب ہوتے ہیں جو دوسروں کی توجہ ان کی طرف مبذول کرلے۔ برتری کا احساس دراصل کمتری کے احساس ہی کی ایک صورت ہے۔ اور احساسِ کمتری کیا ہے، اس کا جواب وضاحت چاہتا ہے۔
احساس کمتری اور بچپن
حقیقت یہ ہے کہ بچپن کے ذہنی اثرات ہماری آنے والی زندگی کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔شیر خوارگی کے زمانے ہی میں بچے کی آئندہ زندگی کا ڈھانچہ مرتب ہوجاتا ہے اور گہوارے ہی میں انسان بن یا بگڑ جاتا ہے۔ ننھے درخت کی شاخ کو جس طرح چاہیں موڑا جاسکتا ہے۔ یہ مثل بعینہٖ انسانی دماغ پر صادق آتی ہے۔ طفولیت کے ابتدائی دنوں ہی میں بچے کی جذباتی زندگی کی تکمیل ہوجاتی ہے۔ وہ یا تو پختگی اور عقلمندی کے ساتھ محبت کرنا سیکھ جاتا ہے یا اپنے اندر خام اور بگاڑنے والی محبت کا عنصر پیدا کرلیتا ہے۔ وہ جان جاتا ہے کہ اس کا ماحول موافق ہے یا مخالف، اور رو کر یا شور مچاکر ماحول پر چھانا چاہتا ہے۔
بے چارگی طفولیت کا بنیادی خیال ہے۔ بچہ فطرتاً اپنی خوراک، عافیت، حفاظت اور رفاقت کے لیے دوسروں کا محتاج ہے۔ اپنی محتاجی کی حالت میں اسے اپنی بے چارگی کا علم بھی ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے لیے کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ دوسرے ہی اس کی ہر ضرورت پوری کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچے کے اثر پذیر دماغ میں اپنی اس احتیاج کا احساس پیدا ہونے لگتا ہے۔
بچہ بڑھنے میں جتنا زیادہ عرصہ لے گا، اسی قدر بے چارگی کا احساس زیادہ راسخ ہوتا جائے گا۔ انسانی بچہ دوسروں کی محتاجی سے نکلنے میں دوسری انواع سے زیادہ وقت لیتا ہے۔ دوسری انواع کے نوزائیدہ بچے چند ہی ماہ میں پختگی حاصل کرلیتے ہیں مثلاً بلی کا بچہ اور کتے کا پلا چند ہی ماہ میں خود اعتمادی حاصل کرلیتے ہیں اور اپنی خوراک اور حفاظت کا سامان خود کرنے لگتے ہیں۔ اس کے برعکس انسانی بچہ کئی برسوں کے بعد اس قابل ہوتا ہے کہ اپنی ضروریات زندگی کے لیے کسی کا محتاج نہ ہو اور اپنی احتیاج خود پوری کرے۔ اکثر حالات میں تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ یہ بچپن کا زمانہ اور بھی درازہوتا جائے۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ بہت سے بچے جب تک سنِ بلوغت سے آگے نہیں بڑھتے، دوسروں کی محتاجی سے باہر نہیں نکلتے۔ دراصل اوروں کی دست نگری کا یہ احساس ہی ایک قسم کی اقتصادی اور سماجی کمتری ہے جو ان کے فکری اور جذباتی پس منظر پر چھا جاتی ہے۔
بچے کا خوف کیسے دور ہو؟
تین قسم کے بچے آئندہ زندگی میں کمتری کے احساس سے متاثر ہوتے ہیں:
اول، ایسے بچے جن میں جسمانی یا عضوی طور پر کوئی نقص ہو۔ اس میں ہر وہ نقص شامل ہے جس کا بچوں کو احساس ہو یا جسے دوسرے بچے دیکھ کر ان کا تمسخر اڑائیں اور ان میں کم تری کا احساس پیدا ہو مثلاً: موٹاپا بالکل دبلا پن، یا دیگر پیدائشی یا حادثاتی نقائص۔
آپ چند بچوں کو کھیلتے دیکھئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ کمزور بچہ سب کا گھوڑا بنا سواری کے کام آرہا ہے۔ توانا بچے کمزور بچوں پر غالب نظر آتے ہیں۔ یہ سب کیوں ہوتا ہے؟ صرف اس لیے کہ کمزور بچہ اپنی حفاظت نہیں کرسکتا۔ وہ بیچارہ اس کے سوا اور کیا کرسکتا ہے کہ اپنی عزت کو بالائے طاق رکھ دے۔ بچپن کی یہ کمزوری اور اس کا احساس اس کی آئندہ زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ذلت کا یہ احساس اس کی زندگی دو بھر کردیتا ہے اور اس سے بہت سے دماغی عوارض پیدا ہوتے ہیں، اس لیے یہ ضرررساں جذبہ یا خوف جلد از جلد بچے کے دل سے نکال دینا چاہیے۔
اس جذبے کو بچے کے دل سے نکالنے کے لیے اسے ذہن نشین کرائیں کہ اس کا یہ جذبہ یا خوف بے معنی ہے اور اس کے لیے سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ اس کے استاد، دوست یا والدین خوب کھل کر باتیں کریں اور بچہ اپنے دل کا حال ان سے کہتے نہ جھجکے۔ توانا بچے آسانی سے اپنے اس جذبے پر قابو پاسکتے ہیں۔ ان کے لیے کھیلوں کا سخت مقابلہ یا مکہ بازی موزوں ترین علاج ہے۔
کالج کے ایک پروفیسر کا تجزیہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس میں احساس کمتری اس وقت پیدا ہوا تھا جب وہ بالکل بچہ تھا۔ وہ اپنے ہم جولیوں میں ذرا لمبا تھا اور یہی اصل وجہ تھی اس کے اس جذبے کی۔ سب لڑکوں میں وہ علیحدہ نظر آتا، جماعت میں اگر کوئی شرارت کرتا تو وہ فوراً پکڑا جاتا اور اسے خصوصیت سے سزا دی جاتی۔ گو سزا استاد کے نقطہ خیال سے جماعت میں نظم و ضبط قائم رکھنے کے لیے ضروری تھی، مگر بچے کو محسوس ہونے لگا کہ اس سے یہ سلوک جان بوجھ کر کیا جاتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو کسمپرسی کے عالم میں پانے لگا۔ اسے یقین ہوگیا کہ یہ سب کچھ اس کے لمبے قد کی وجہ سے ہورہا ہے۔
اسی کالج کے ایک لڑکے کے نفسیاتی تجزیہ سے معلوم ہوا کہ اس کا چھوٹا قد احساس کمتری کا باعث بنا اور بچپن ہی سے اس کے باعث وہ نکو بنا رہا۔ اس احساس کی وجہ سے وہ دوسرے لڑکوں سے دور رہتا، کھیلوں میں حصہ نہ لے سکتا تھا اور بڑے ہوکر موزوں پیشہ اختیار کرنے کے معاملے میں بھی یہی جذبہ اثر انداز ہوا۔
زیادہ لاڈ پیار ٹھیک نہیں
دوسری قسم میں لاڈلے بچے آتے ہیں جنھیں زیادہ پیارنے خراب کردیا ہو۔ سوسائٹی میں ایسے بچے ایک نہایت المناک حقیقت ہیں۔ زمانے کی رفتار خود اعتمادی اور جرات کی روح چاہتی ہے۔ ان صفات کے بغیر آپ موجودہ زمانے کے چیلنج کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ یہ زمانہ کشمکش اور تگ و دو کا ہے اور اس میں بقا کے لیے یہ دو صفات انتہائی ضروری ہیں۔ مگر لاڈلے بچے میں یہ صفات کہاں! وہ تو بچپن ہی سے اپنی نازبرادی کرانا جانتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کی ہر ایک بات پوری کی جائے۔ اپنے گھر میں وہ ایک راجہ اور نواب ہوتا ہے۔ مخالفت، اپنی مرضی کے خلاف کام، تکلیف یا سختی، وہ ان باتوں سے نا آشنا ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عملی زندگی میں جب ناموافق حالات پیدا ہوجاتے ہیں تو وہ جذباتی طور پر ہرگز ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور اس کی زندگی ہمیشہ ناکام رہتی ہے۔
دوسری مثال لاڈلے بچے کی وہ حالت ہے جب وہ جوان ہوکر حقائق کا سامنا کرتا اور زندگی کی کشمکش میں داخل ہوتا ہے۔ اگر وہ خوش قسمت ہے، اسے اپنے پیٹ کے لیے تگ و دو نہیں کرنی پڑتی اور وہ بہت کھاتے پیتے گھر میں پیدا ہوا ہے تو پھر اس کے لیے کوئی نفسیاتی مشکل پیدا ہونے کا احتمال نہیں ہوتا۔ لیکن اگر حالات اس کے مخالف ہوں تو ایسا نوجوان ایک بہت بڑی رکاوٹ اپنی راہ میں حائل محسوس کرتا ہے۔ وہ اس نئی دنیا میں بھی انہی رعایات کا طالب ہوتا ہے جو بچپن میں اسے میسر تھیں لیکن ایسے حالات کا دوبارہ پیدا ہونا قریباً ناممکن ہوتاہے۔ حالات کی ناموافقت اسے دل برداشتہ کردیتی ہے اور پھر وہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے ایسا متاثر ہوتا ہے کہ اسے پورا زمانہ اپنے خلاف جنگ پر آمادہ نظر آتا ہے۔
اگر بدقسمتی سے حالات لاڈلے بچوں کو اپنی زندگی آپ بتانے پر مجبور کردیں اور اس کے لیے جرأت اور سرگرمی عمل کی ضرورت ہو تو اکثر نوجوان ایسے حالات میں شکستہ دل اور مایوس ہوجاتے ہیں۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں ایسے حالات کے لیے تیار ہی نہیں کیا گیا اور جس دنیا کے وہ باشندے تھے، وہ کشمکش کی اس دنیا سے بالکل الگ تھلگ تھی۔ چونکہ وہ مشکلات کا مقابلہ نہیں کرسکتے اس لیے یہی خیال کرتے ہیں کہ ہتھیار ڈال دیں کیونکہ زمانے کے چیلنج کو وہ سمجھ ہی نہیں سکتے۔ ذرا قمار خانوں اور بدمعاشی کے اڈوں پر جاکر وہاں آنے والوں کا نفسیاتی تجزیہ کیجیے تو آپ کو وہاں شریفوں اور نجیبوں کے نورِ نظر اور چشم و چراغ بکثرت ملیں گے جنھیں لاڈ نے تباہ و برباد کردیا۔
آپ نے بعض تندرست و توانا نوجوانوں کو ایسے ذلیل پیشے سے روٹی کماتے دیکھا ہوگا کہ حیرانی ہوتی ہے، حالانکہ اگر وہ اسی قدر سرگرمی عمل اور قوت کا استعمال کسی شریفانہ پیشے میں کرتے تو ان کی زندگی نہایت کامیاب ہوتی۔ اس کی تہ میں بھی بچپن کا لاڈ کارفرما نظر آئے گا۔ زندگی ان کے لیے ایک مصیبت اور عذاب کا نام ہے۔ ایسے لوگ چاہتے ہیں کہ اس قسم کے اسباب پیدا ہوجائیں کہ وہ بچپن کی طرح دوسروں کے دست نگر بن کر زندگی بسر کرسکیں۔ ان لوگوں کی حالت بالکل اس پودے کی سی ہے جو حرارت خانہ میں پیدا ہوا ہو۔ باہر کی ذرا سی سرد ہوا اس کو مرجھا دیتی ہے۔ وہ لوگ بھی زندگی کی سرد ہوا کو برداشت نہیں کرسکتے۔
بچہ قابلِ نفرت نہیں
مکروہ، قابلِ نفرت اور فالتو سمجھے جانے والے بچوں سے جو سلوک کیا جاتا ہے، اس سے بھی کمتری کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ روز مرہ کی زندگی کے واقعات اور اخبار کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ کس قسم کے بچے مکروہ سمجھے جاتے ہیں اور کن بچوں کی ’’ضرورت‘‘ نہیں ہوتی۔ آج بے رحمی حیوانات کو رکوانے کے لیے تو قانون موجود ہے اور اس کے لیے سخت سے سخت سزائیں دی جاتی ہیں لیکن افسوس کہ اس متمدن زمانے میں اولاد سے بے رحمانہ سلوک کرنے والوں کی کوئی باز پرس نہیں کرتا۔ ہمارے معاشرے کی جہالت زبان حال سے پکار پکار کر اس کا ماتم کررہی ہے۔
یہ ضروری نہیں کہ بے رحمانہ سلوک بدنی سزا یا جسمانی عذاب ہی کی صورت میں ہو۔ بے رحمانہ سلوک کا المناک پہلو وہ صدمہ ہے جس کا اثر روح اور دماغ پر ہوتا ہے۔ ایسے ماحول میں پروردہ بچے جوان ہوکر بالکل بیکار ہوجاتے ہیں۔ وہ زندگی کو ایسے نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ بس معاشرے کے دشمن بن کر رہ جاتے ہیں۔ نفرت سماج کا ناسور ہے اور محبت زندگی کا ایک مضبوط رشتہ اور انسانی برادری کی تخلیقی تحریک۔ ایسا بچہ جسے یہ محسوس کرایا گیا ہو کہ وہ مکروہ ہے اور اس کی سوسائٹی کو ضرورت نہیں، وہ یہی خیال کرے گا کہ دوسرے سب لوگ اس کے دشمن ہیں اور سماج میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ یہ یقین اور خیال ہی وہ بنیاد ہے جس پر باغی مجرم اور طفیلی اپنی زندگی کی عمارت تیار کرتے ہیں اور پھر اپنی برتری جتا کر اپنا انتقام لیتے ہیں۔
جبر سے شخصیت مسخ ہوتی ہے
بار بار کا جبر بھی اسی قسم کے نتائج پیدا کرتا ہے۔ ایک ہوشیار بچہ اپنے ہم جماعتوں کے حسد کا نشانہ بن جائے اور ایک عرصے تک وہ اس سے قطع تعلق کرلیں تو اس سے بھی اس بچے میں کمتری کا احساس پیدا ہوجائے گا۔ یہ بچہ گو مکروہ نہیں اور نہ فالتو بچہ ہے، اس کے باوجود ایک ذلت محسوس کرتا ہے کہ اسے اکیلے چھوڑ دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کے دل میں شرم اور ناراضی کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے اور وہ کسی سے اس کا ذکر بھی نہیں کرسکتا۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا یہ جذبہ اس کے سینے ہی میں دب کر رہ جاتا ہے۔ اسی طرح مذہبی تعلیم میں اگر زیادہ سختی روا رکھی جائے اور بچے کی ذرا سی لغزش کو مذہبی توہین قرار دے کر اسے سزا دی جانے لگے تو نتیجہ بالکل ایسا ہی نکلے گا۔ جبر کے تجربات خواہ ان کا سبب گھر، مدرسہ یا سوسائٹی ہی کیوں نہ ہو۔ شخصیت کو مسخ کرنے یا اسے بگاڑنے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔
بات بات پر نہ ٹوکئے
بچوں کو خود اعتمادی سے آشنا کرنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ انہیں بات بات پر ٹوکنا بری بات ہے۔ بہت سے ہونہار بچوں کی فطری صلاحیتیں محض حوصلہ افزائی کے فقدان سے دب کر رہ گئیں اور بعض دفعہ ایک ہی جملہ ان کو کچھ کا کچھ بنادیتا ہے۔ بچوں کو بات بات پر جھڑکنا اور سزا دینا ہی اصل سبب ہے لاکھوں ناخوش انسانوں اور اعصابی بیماریوں کی تکالیف کا۔ بچپن کے یہ تاثرات آئندہ زندگی کو برباد کردیتے ہیں اور زندگی، جو زندہ دلی کا نام ہونا چاہیے، مایوسی اور ذہنی پریشانی کا ایک گورکھ دھندا بن جاتی ہے۔
ادنیٰ گھرانوں کے بعض بچے، جن کے والدین ان کی پرورش نہایت عمدگی سے کرتے ہیں، بچپن میں تو خوب خوش و خرم رہتے ہیں اور انہیں ایسا کوئی تجربہ نہیں ہوتا جو ان کے دماغ میں احساسِ کمتری پیدا کرسکے مگر جوں جوں وہ بڑے ہوتے ہیں اور ان کا شعور جاگ اٹھتا ہے، انہیں احساس ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو سماجی لحاظ سے بہت کمزور درجے کا ہے۔ انہیں اس احساس سے تکلیف ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بعض بڑے آدمی اپنا حسب و نسب بتانے سے ذرا گھبراتے ہیں یا کسی اونچے عہدے پر متمکن ہوکر غریب رشتے داروں سے دور بھاگتے ہیں۔ ان سے اپنا تعلق بتاتے انہیں عار محسوس ہوتی ہے۔ اس کا باعث یہی احساسِ کمتری کا جذبہ ہے اور اکثر اس کا اظہار برتری کی الجھنوں میں ہوتا ہے۔ آخری قسم میں ایسے لوگ آتے ہیں جن میں ذلت اور رسوائی کاخیال جڑ پکڑ چکا ہو اور اس خیال کے باعث شاید کوئی مخفی راز یا کوئی ناقابلِ عفو قصور ہو۔ محبت میں ناکامی، سوسائٹی کی نگاہ میں گرجانا، دولت کا ضائع ہوجانا، کوئی ایسا خفیہ گناہ یا غلطی جو ان کے دل و دماغ پر ہر وقت حاوی رہے۔ اس قسم کے خیالات سے انسان میں احساسِ کمتری پیدا ہوتا ہے۔ اگر کسی فرد کو ذاتی قدروقیمت کا بہت زیادہ احساس ہو تو اس کی انا کو لگنے والی ذرا سی ٹھیس اس کے جذبات کو بری طرح مجروح کردیتی ہے جس کااندمال بہت مشکل ہوتا ہے۔
——
—