معاشرتی زندگی اور سماج انسان کی فطری ضرورت ہے۔ انسان کی اکثر ضروریات سماجی زندگی ہی سے پوری ہوتی ہیں۔ رب رحیم و کریم نے نہ صرف انسان کی ان ضروریات کو پورا کرنے کا بہترین راستہ بتایا ہے بلکہ ان ذمہ داریوں کو اپنی رضا اور ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی سے جوڑ دیا ہے اور حضور نبی کریمﷺ کی زندگئی مبارکہ کے ذریعے ان احکامات کا نہایت کامل اور بلند عملی نمونہ پیش فرمایا ہے۔
خاندان کی تعمیر انسان کی فطری ضرورت ہے۔ خاندان انسانوں کی تعمیر اور تربیت کا ایسا کارخانہ ہے جہاں سے بہترین انسانوں کی تعمیر ممکن ہے۔
قرآن مجید اس ادارے کا ایک زبردست ویژن اور انتہائی موثر پروگرام اور طریقہ کار دیتا ہے جس سے اس ویژن کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔
وَالَّذِيۡنَ يَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا هَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّةَ اَعۡيُنٍ وَّاجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِيۡنَ اِمَامًا۔ (الفرقان:74)
’’جو دعائیں مانگا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب، ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیز گاروں کا امام بنا۔‘‘
خاندان کے ادارے کا ویژن یہ ہے کہ اس ادارے سے اللہ تعالیٰ کے نیک اور متقی بندوں کی ایسی کھیپ نکلے جن کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ ایسے انسان جو پورے معاشرے کے لیے سراسر رحمت ہوں۔ ایسی سرسبز و شاداب کھیتی کی مانند جس سے کسان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں کہ اس نے جس زمین پر اپنی محنت صرف کی، جس کے لیے قربانیاں دیں وہ بیکار نہیں گئیں اور اپنی محنت اور صبر کا بہترین صلہ اسے حاصل ہوا۔ ایک مومن جو اسلامی خاندان کی تعمیر کا بیڑا اٹھاتا ہے اس کی مثال اسی کسان کی طرح ہے۔
اسلامی خاندان کی یہ خوبصورت تعبیر اپنی رفیق حیات اور شریک ویژن ساتھی کے بغیر ممکن نہیں۔ دونوں ایک ہی ویژن کو سامنے رکھیں اچھی طرح اس’’آنکھوں کی ٹھنڈک‘‘ والے ویژن کا ادراک ان کو حاصل ہو اس کے طریقہ کار کا ان کو علم ہو اور اس کی تعمیر کی قیمت کا اچھی طرح اندازہ ہو۔
اس تعمیر کی سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ میاں بیوی دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنیں۔ دونوں کی یہ کوشش ہو کہ میں اپنے ساتھی کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور اس کے لیے رحمت اور سکون حاصل کرنے کا ذریعہ بنوں اور اس کا طریقہ یہ بتلایا گیا ہے کہ اپنے ساتھی کو بدلنے سے پہلے اپنے آپ کو بدلاؤ میں آگے رکھیں۔ پہلے میں رحمت اور آنکھوں کی ٹھنڈک بننے میں پیش قدمی کروں۔ آنکھوں کی ٹھنڈک بننے میں، میں امامت کروں۔
آنکھوں کی ٹھنڈک بننے کا پروگرام اور طریقہ کار یہ ہے کہ آپ متوقع بدلاؤ کے لیے آگے بڑھیں۔ذمہ دار اور قوام کو زیادہ محنت زیادہ صبر اور زیادہ قربانیاں پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی عدل کا تقاضا بھی ہے۔ دنیا کے ہر ادارے کی طرح اس ادارے میں بھی ذمہ دار ہی کو آگے بڑھ کر قائدانہ رول ادا کرنا ہوتا ہے۔
جو بدلاؤ دیکھنے کے ہم خواہشمند ہیں اس تبدیلی کو سب سے پہلے ہمیں اپنے اندر پیدا کرناہوتا ہے۔ ساتھی کے بدلاؤ سے پہلے اس کے آنکھوں کی ٹھنڈک بننے میں خود پہل کرنی ہوتی ہے۔ میاں اور بیوی جب دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوں، دونوں ایک ہی ویژن رکھتے ہوں دونوں میں کامل ہم آہنگی ہو تو اس ویژن کے سفر کا ایک بہت بڑا سنگ میل طے ہوگیا ورنہ کیا میاں بیوی اگر ایک دوسرے سے بیزار ہوں تو یہ تعمیر اور اس کارخانے کا چلنا اور متوقع نتائج حاصل کرنا ممکن ہے؟ اسی لیے ایک سمجھدار اور عقلمند انسان کو ہر اس چیز سے بچنا اور پرہیز کرنا چاہیے جو میاں بیوی کے تعلقات کو خراب کرنے والی ہو، مبادا اس کی وجہ سے کہیں مقصد اور ویژن ہی نہ خطرے میں پڑ جائے اور ہر اس چیز کو اختیار کریں جو رشتے کو مضبوط کرنے والی اور آپ کو اپنے ویژن سے قریب کرنے والی ہو۔
اولاد کو نیک بنانے کے لیے ان کو بہترین انسان بنانےکے لیے بھی اس راہ میں ان کی قیادت کرنا ان کی امامت کرنا شرط لازم ہے۔ جو چیز ہم اپنی اولاد میں دیکھنا چاہتے ہیں اس کو پہلے خود ان کو کرکے بتائیں۔ ہم اگر ان کو نمازوں کا پابند بنانا چاہتے ہوں تو پہلے خود نمازوں کی پابندی کرنے والے ہوں۔ ہم اگر ان کو باحیا بنانا چاہتے ہوں تو پہلے خود باحیا ہوں۔ ہم اگر ان کو باادب اور اپنا فرمانبردار بنانا چاہتے ہوں تو پہلے ہم اپنے ماں باپ کے خدمت گذار ہوں۔ ہم اگر اپنے بچوں میں اتحاد و اتفاق دیکھنا چاہتے ہوں تو پہلے اپنے بہن بھائیوں میں اتفاق و اتحاد سے رہیں۔ اگر ہم اپنے بچوں کو نرم مزاج اور بااخلاق دیکھنا چاہتے ہوں تو پہلے خود اپنی نرم خوئی اور بہترین اخلاق کا ان کے سامنے نمونہ پیش کریں۔ہمیں اس ذاتی تبدیلی کو آگے بڑھ کر عملی طور پر ثابت کرنا ہے کیونکہ بچے سن کر نہیں بلکہ دیکھ کر سیکھتے ہیں۔اس ویژن کو حاصل کرنے اور اس راہ میں کوششیں کرنے کا ایک ہی مقصد ہمارا ہو کہ ہمارا مالک ہم سے راضی ہوجائے، اس کا تقرب اور اس کی رضا ہمیں حاصل ہوجائے۔
ایک انسان کو اللہ تعالیٰ نے بیش بہا مواقع دیے ہیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرسکے- حقیقت یہ ہےکہ کوئی بندہ کل اللہ تعالیٰ کے حضور یہ شکایت نہیں کرسکتا کہ تو نے مجھے اپنا قرب حاصل کرنے اور اپنے درجات کو بلند کرنے کے مواقع نہیں دیے! ہر رشتہ اس کے لیے امتحان اور اللہ تعالیٰ سے قربت پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔
ماں کے قدموں تلے جنت ہے،باپ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے، بہن اور بیٹی کی پرورش اور تربیت پر اللہ کے رسولﷺ نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔ اسی طرح دیگر رشتے چچا، ماموں، پھوپی، خالہ وغیرہ غرض ہر رشتہ ایک ذمہ داری ہے اور اللہ کا قرب حاصل کرنے کا بیش بہا موقع ہے۔ اسی لیے قرآن مجید جنتیوں کی ایک اہم صفت یہ بتاتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے رشتوں کو نبھانے والے ہوتے ہیں۔ ایک مومن کی جہاں یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ان رشتوں کی پاسداری کرے، بحسن و خوبی ان کو نبھائے وہیں ان رشتوں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ میاں بیوی کے رشتے کو مضبوط کریں۔چھوٹوں کی تربیت میں اپنا حصہ ڈالیں اور خاندان کے ادارے کو مضبوط بنائیں۔ غرض اپنے خاندان کو مضبوط بنانے میں اور دوسرے خاندانوں کو مضبوط کرنے میں ہمیں اپنے حصے کی ذمہ داری ضرور نبھانی چاہیے تاکہ ایک ایسامضبوط سماج وجود میں آسکے جو تمام انسانوں کے لیے باعث رحمت و مودت ہو ۔