دعوتی کام کیوں اور کیسے انجام دیا جائے؟ اور اس کی کیا اہمیت ہے؟
یہ ایک نہایت وسیع موضوع ہے۔ مزید برآں، ملکی حالات کے تناظر میں اس عنوان پر غور کیا جائے تو اس کی اہمیت اور وسعت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔اس موضوع پر گفتگو کرنے سے قبل یہ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ہم ان بنیادی سوالوں پر بھی غور کرتے چلیں کہ ہم کون ہیں اور ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟
کسی بھی فریضے کو انجام دیتے وقت سب سے پہلا سوال اپنی حیثیت کے تعین کا ہوتا ہے۔ اگر میں کسی زمین کا مالک ہوں تو مجھے اختیار ہے کہ میں اسے فروخت کرو ںیا کرائے پر دے دوں یا کسی کارِ خیر کے لیے وقف کردوں۔ اگر میں اس زمین کا مالک نہیں ہوں بلکہ مجھے مالک کی طرف سے ایک نگراں کی حیثیت سے مقرر کیا گیا ہے تو میرے اختیارات محدود ہوجاتے ہیں۔ میں کسی کو اس کی ملکیت منتقل نہیں کرسکتا۔زمین کے مالک کے منشا کے مطابق اب زمین کی نگرانی کرنا ہی میرا دائرہ کار ہوگا۔ حیثیت کا یہ تعین اپنے ذہن میں پوری طرح واضح ہو تبھی میں اپنے فریضے کو ٹھیک طور سے انجام دے سکوں گا ورنہ نہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس دنیا میں میری حیثیت کیا ہے؟
—میں خدا کا بندہ ہوں، مجھے اس کا حکم بجالانا چاہیے۔ اس کا حکم ہے کہ اس کے راستے کی طرف لوگوں کو دعوت دوں تو مجھے چاہیے کہ میں اس کے حکم کی اطاعت کروں اور لوگوں کو دعوت دوں۔
—جب وہ میرا خالق و مالک ہی نہیں، میرا رب بھی ہے اور مجھ پر انعامات و احسانات کی بارش کرتا ہے، تو اس منعم و محسن کا مجھے شکر گزار ہونا چاہیے۔ اس کی رضا اور پسند کا کام مجھے کرنا چاہیے۔ سب سے بڑی نعمت جو مجھے ملی ہے، وہ دینِ حق ہے۔ مجھے مخلصانہ طور پر اس دین کی راہ پر چلنا چاہیے اور اس کی پیروی کرنی چاہیے اور ناواقف لوگوں تک اسے پہنچانا چاہیے۔
—میںخاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کا امتی ہوں۔ آنحضورﷺ نے پہلی وحی کے نزول کے وقت سے آخر تک مسلسل لوگوں کو آخرت کی یاد دہانی کرائی۔ خدا کے دین سے واقفیت بہم پہنچائی۔ امت محمدیہ کے ایک فرد کی حیثیت سے مجھے بھی آپﷺ کی سنت کی پیروی کرنی ہے اور لوگوں تک خدا کی دعوت پہنچانی ہے۔
—محمدﷺ پر نبوت کاسلسلہ ختم ہوگیا، اب آپﷺ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے۔ اس لیے اب یہ کارِ نبوت یعنی دین کی دعوت کا کام امتِ مسلمہ کو انجام دینا ہے۔ میں اس امت کاایک فرد ہوں۔ اس لیے میرے ذمے یہ کام ہے اور مجھے دین کی قولی وعملی شہادت دینی ہے، ناواقف لوگوں کو آگاہ کرنا ہے۔
—میں آخرت کا مسافر ہوں اور آخرت میں مذکورہ بالا ساری حیثیتوں سے مجھ سے سوال کیا جائے گا، وہاں جواب دہی کی خاطر مجھے تیار ہونا ہے، اس لیے اللہ کی رضا کے حصول کے لیے مجھے دینِ حق کا عملی نمونہ بھی بننا چاہیے اور لوگوں تک اس کی دعوت بھی پہنچانی چاہیے۔
حیثیت کے تعین کے بعد میرے سامنے ایک اور سوال ہے کہ میں کہاںکھڑا ہوں؟ میں ہندوستان جیسے عظیم ملک میں پیدا ہوا۔ یہاں پلا بڑھا اور میں یہاں کا باشندہ اور شہری ہوں۔ اس سرزمین پر مسلمانوں کو آباد ہوئے دس گیارہ صدیاں بیت گئی ہیں۔ اس پوری مدت میں چند صوفیاء کرام اور خال خال شخصیتوں کو چھوڑ کر بحیثیت مجموعی مسلمانوں نے دعوتِ دین کے اس فریضے کو انجام نہیں دیا تھا اور نہ ہی اپنی پوری زندگی میں اس دعوت کا کوئی عملی نمونہ پیش کیا۔ یہ ملک بہت بڑا ہے۔ علاقائی زبانوں کی تعداد بھی یہاں بہت زیادہ ہے۔ قرآن و سنت کا ذخیرہ ان زبانوں میں بہت پہلے منتقل ہوجانا چاہیے تھا لیکن ہم مسلمانوں نے یہ کام بھی نہیں کیا۔ یہ کوتاہیاں آج سے نہیں، صدیوں سے ہورہی ہیں۔ نتیجتاً غلط فہمیوں اور شکو ک و شبہات کا ایک انبار ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں پایا جاتا ہے۔ ایسی فضا میں دعوتِ دین کے کام کا تقاضا ہے کہ صبر و تحمل سے کام لیا جائے۔
انبیائے کرام اور ان کے ساتھی جب دعوتِ دین پیش کرتے تو ناواقف لوگ مخالفتیں کرتے تھے۔ اب جب کہ اس تعلق سے بدگمانیاں ہیں اور شکوک و شبہات بھی، تو ظاہر ہے کہ یہاں مخالفتیں بھی زیادہ ہوں گی۔ اس لیے صبر و سکون کے ساتھ ان مخالفتوں کو برداشت کرنا ہوگا اور اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ یہ سب میری پچھلی غلط کاریوں کا نتیجہ ہے، خدا سے مدد بھی چاہنی ہوگی اور اپنے کردار سے اسلام کی بہتر تصویر لوگوں کے سامنے پیش کرنی ہوگی۔
دعوت کے فریضے سے اگر عہدہ برآ ہونا ہے تو میں جہاں بھی ہوں، مجھے آج ہی اپنا کام شروع کردینا چاہیے۔ اپنے کردار اور اپنے قول و عمل کی یکسانیت سے دینِ حق کی شہادت دینی چاہیے اور اس فضا کو درست کرنا چاہیے جو شکوک و شبہات اور غلط فہمیوں سے بھری ہوئی ہے اور حسبِ استطاعت ناواقف لوگوں کو دینِ حق سے واقف کرانا چاہیے۔
——