میانہ روی

محمد محبوب احمد

کلینک سے نکل کر سلیم جب پچھلی گلی میں آیا تو اس کی نظر سامنے کچرے کے ڈھیر پر پڑے ہوئے تازہ کھانے پر پڑی۔ کھانے کی مہک بتارہی تھی کہ یہ بالکل تازہ ہے اور ابھی ابھی کسی نے ڈالا ہے۔ سلیم کے ذہن میں ایک دم سے اس کا ماضی گھوم گیا۔
فہیم احمد صاحب کے دو ہی بچے تھے سلیم اور رقیہ۔ وہ دل و جان سے اپنے بچوں کو چاہتے تھے۔ ہر جائز اور ناجائز ضد پوری کرتے، اچھے سے اچھا کپڑا لاکر دیتے، دنیا بھر کے کھلونے لاکر ڈھیر کردیتے اور جس چیز کے کھانے کی فرمائش کرتے وہ حاضر کردی جاتی۔
اسکول کے لیے بھی روزانہ اس کو اتنا جیب خرچ ملتا کہ کینٹین پر کھڑے بچے اس کو حسرت سے دیکھتے۔ گاڑی اسکول چھوڑنے جاتی اور گاڑی سے ہی واپس آتا۔ ان ساری چیزوں اور پیسے کی فراوانی نے سلیم میں غرور، اکڑ اور ضد کے ساتھ فضول خرچی جیسی مہلک عادت بھی پیدا کردی تھی۔
وہ اپنے ابو جان سے ہر ماہ نئے کپڑے بنواتا، ہر تیسرے مہینے جوتا تبدیل کرلیتا، اسکول کی کینٹین میں بہت پیسے خرچ کردیتا تھا، شام کو ویڈیو گیم اور کیرم بورڈ میں بھی بہت سے روپے خرچ کرتا اورکھانے پینے میں بھی کافی رقم خرچ کردیتا، غرض بہت ہی فضول خرچی کرتا، آپ کوتو پتا ہے کہ اسراف کرنے والے اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں جب کہ گناہ کی جگہ خرچ کرنے والوں کو تو اللہ تعالیٰ نے شیطان کا بھائی کہا ہے۔
اس کی ان حرکتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوگئے اور ظاہری بات ہے کہ جب کوئی آدمی اللہ کی کسی نعمت کی ناقدری کرتا ہے یا فضول خرچی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس نعمت کو واپس لے لیتے ہیں۔ چنانچہ ایسا ہی سلیم کے ساتھ ہوا۔ ایک دن دفتر سے واپسی پر سلیم کے والد کی کار حادثے کا شکار ہوگئی۔ والد کی موت سلیم کے لیے مصیبتوں کا پہاڑ ثابت ہوئی۔ سلیم کی والدہ نے گھر کی چیزیں بیچ بیچ کر گزارا کرنا شروع کیا لیکن کب تک؟ ایک ایک کرکے گھر کی سب چیزیں بک چکی تھیں۔ گاڑی، فرنیچر، فریج اور موٹر سائیکل۔ رہی بات رشتہ داروں کی تو وہ تو سلیم کے والد کے انتقال پر ہی آنکھیں پھیر چکے تھے۔ لوگوں نے ان سے ملنا جلنا چھوڑ دیا تھا کہ اب ان کی مدد کرنی پڑے گی۔ سلیم کے کھلونے اب الماری میں پڑے رہتے۔ اب سلیم کو کھیل کا ہوش کہاں تھا، بچوں کو چاکلیٹ، ٹافی آئس کریم کھاتے دیکھتا تو وہ دل مسوس کر رہ جاتا۔ کسی کو بڑی گاڑی میں بیٹھا دیکھتا تو دل رو پڑتا۔ ان حالات سے تنگ آکر سلیم کی والدہ نے سلائی کرکے گزارا کرنا شروع کیا۔ اورپھر ایک دن ایسا بھی آیا کہ سلائی کرتے کرتے ان کی والدہ کے ہاتھ میں سوئی چبھ گئی۔ جس کی وجہ سے وہ دو تین دن تک سلائی نہ کرسکیں اور جب ان کے گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا تو سلیم بھوکا اسکول پہنچا۔ وقفہ میں کینٹین کی طرف گیا کیوں کہ بھوک کے مارے اس کا برا حال تھا۔ کینٹین پر بچے مختلف چیزیں کھا رہے تھے۔ وہ دور کھڑا حسرت سے سب کو دیکھ رہا تھا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔ وقفہ کے بعد اسلامیات کاپیریڈ تھا۔ اسلامیات کے استاد میانہ روی کے بارے میں بتا رہے تھے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت سی نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ مال بھی اللہ کی ایک نعمت ہے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کا حساب لیں گے کہ مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔ ایک ایک پیسے کا حساب دینا ہوگا۔ اس لیے ہمیں اپنے پیسے کو جائز مصرف میں خرچ کرنا چاہیے۔ سب سے بہترین مال کا مصرف یہ ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کیا جائے۔ مثلاً مسجد کی تعمیر میں، مدرسے میں، دین کی محنت میں، کسی غریب کی مدد میں، اپنی ضرورت پر کم سے کم خرچ کرتے ہوئے میانہ روی اختیار کرنی چاہیے۔ میانہ روی کہتے ہیں درمیانی راہ چلنے کو۔ یعنی نہ ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا، نہ ضرورت سے کم خرچ کرنا۔‘‘
سلیم بڑے غور سے باتیں سن رہا تھا۔ اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا وہ سمجھ گیا کہ اس پر جو حالات آتے ہیں وہ اس کی فضول خرچی کی وجہ سے آئے ہیں ۔ وہ اس دن گھر آکر بہت رویا، نماز پڑھ کر اللہ سے اپنی غلطی کی معافی مانگی اور عہد کیا کہ آئندہ فضول خرچی نہ کرے گا۔ اس نے اپنی امی سے بات کی ’’امی! اب میں اپنی غلطی سمجھ چکا ہوں اور اب میں اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے مزدوری کروں گا۔‘‘ چنانچہ اب وہ اسکول جانے سے پہلے ڈبل روٹی بیچتا، دوپہر میں چنے ابال کر بیچتا اور شام کو محتاط انداز میں خرچ کرتا۔ امی جو پیسے اس کو کینٹین سے کھانے کو دیتیں وہ بھی بچا کر امی کو واپس کردیتا کہ ’’امی! آپ کو گھر کا خرچ چلانے میں اس کی ضرورت ہے۔‘‘ ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ وہ پانچوں نمازوں کے بعد رو رو کر اپنی فضول خرچی کی معافی مانگتا اس طرح اس نے اپنی تعلیم مکمل کرلی، اپنی بہن کو بھی پڑھایا اور خود بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اب وہ ایک خوشحال انسان بن چکا ہے جو دوسروں کا بھی خیال رکھتا ہے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں