حضرت سمیہ بنتِ خباط رضی اللہ عنہا

پیکر سعادت معز، ورنگل

حضرت سمیہ بنت خباط رضی اللہ عنہا کا شمار نہایت بلند پایہ صحابیات میں ہوتا ہے۔ انھوں نے راہِ حق میں اپنے ضعف اور کبر سنی کے باوجود زہرہ گداز مظالم جھیلے، یہاں تک کہ اپنی جان بھی قربان کردی۔۔۔ اور اسلام کی سب سے پہلی شہید خاتون ہونے کا مہتم بالشان شرف حاصل کیا۔
رحمت عالم ﷺ نے بعثت کے بعد دعوت حق کا آغاز فرمایا تو وہی قریشِ مکہ جن کی زبانیں آپؐ کو ’’امین امین‘‘ کہتے نہیں تھکتی تھیں، نہ صرف آپ ﷺ کے خون کے پیاسے بن گئے بلکہ جو شخص بھی دعوتِ حق پر لبیک کہتا اس پر بے تحاشا ظلم و ستم ڈھانا شروع کردیتے تھے۔ اس میں مرد یا عورت کی کوئی تخصیص نہ تھی۔ اسی زمانہ میں سرورِ عالم ﷺ ایک دن بنو مخزوم کے محلے سے گزرے تو آپ نے دیکھا کہ کفار قریش نے ایک ضعیف العمر خاتون کو لوہے کی زرہ پہنا کر دھوپ میں زمین پر لٹا رکھا ہے۔ اور پاس کھڑے ہوکر قہقہے لگا رہے ہیں۔ ساتھ ہی اس خاتون سے مخاطب ہوکر کہہ رہے ہیں ’’محمد کا دین قبول کرنے کا مزہ چکھ۔‘‘ مظلوم خاتون کی بے بسی دیکھ کر حضورﷺ آب دیدہ ہوگئے اور ان سے مخاطب ہوکر فرمایا: ’’صبر کرو تمہارا ٹھکانہ جنت میں ہے۔‘‘ راہِ حق میں ظلم سہنے والی خاتون جن کو سید المرسلین ﷺ نے صبر کی تلقین فرمائی اور جنت کی بشارت دی حضرت سمیہ بنت خباط رضی اللہ عنہا تھیں۔
حضرت سمیہ کے آباء و اجداد میں صرف ان کے باپ ’’خباط‘‘ کا نام معلوم ہے۔ وہ ایامِ جاہلیت میں مکہ کے ایک رئیس ابوحذیفہ بن المغیرہ مخزومی کی کنیز تھیں۔ یہ بعثتِ نبوی سے تقریباً چالیس پینتالیس سال پہلے کاذکر ہے۔ اس زمانہ میں یمن سے ایک قحطانی النسل شخص یاسر بن عامر اپنے ایک مفقود الخبر بھائی کو تلاش کرتے مکہ میںوارد ہوئے اور یہیں مستقل اقامت اختیار کرکے ابوحذیفہ بن المغیرہ کے حلیف بن گئے۔ اس نے حضرت سمیہؓ کی شادی یاسرؓ بن عامر سے کردی۔ ان کی صلب سے حضرت سمیہؓ کے دو بیٹے پیدا ہوئے۔ عبداللہ ؓاور عمارؓ ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب رحمتِ عالم ﷺ بچپن اور جوانی کی منزلیں طے کررہے تھے۔ قیاس یہ ہے کہ حضورﷺ کی حیات اقدس کا سارا دور، یاسرؓ ،سمیہؓ، عبداللہ ؓ اور عمارؓ کے سامنے گزرا اور انھوں نے حضور کی عظیم ترین شخصیت اور اعلیٰ سیرت وکردار کا نہایت گہرا اثر قبول کیا۔ بعثت کے بعد جب حضورﷺ نے دعوتِ حق کا آغاز فرمایا تو اس سارے خاندان نے کسی تامل کے بغیر اس پر لبیک کہا۔ اس وقت ابوحذیفہ مخزومی کا انتقال ہوچکا تھا اور حضرت سمیہؓ اس کے ورثاء کی غلامی میں تھیں۔ یہ اہلِ حق کے لیے بڑا پرآشوب زمانہ تھا۔ مکہ کا جو شخص اسلام قبول کرتا مشرکین قریش کے غیظ و غضب اور لرزہ خیز جوروتشدد کا نشانہ بن جاتا۔ حضرت یاسرؓ اور ان کے لڑکے غریب الوطن تھے۔ اور حضرت سمیہؓ کو بھی بنو مخزوم نے آزاد نہیں کیا تھا۔ اب بے چاروں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے میں مشرکین کو کوئی چیز مانع نہیں تھی۔ انھوں نے اس بے کس خاندان پر ایسے مظالم ڈھائے کہ انسانیت دہل کر رہ گئی۔ حضرت یاسرؓ اور حضرت سمیہؓ دونوں بہت ضعیف اور کبیر السن تھے۔ مگر ان کی قوتِ ایمانی اور استقامت کا یہ عالم تھا کہ مشرکین ان کو طرح طرح کی درد ناک تکلیفیں دیتے تھے، اور شرک پر مجبور کرتے تھے۔ لیکن ان کے قدم جادئہ حق سے ایک لمحہ کے لیے بھی نہ ڈگمگاتے تھے۔ یہی حال ان کے بیٹوں کا تھا۔ ان مظلوموں کو لوہے کی زرہیں پہناکر مکہ کی جلتی تپتی ریت پر لٹا دیتے ۔ ان کی پشت کو آگ کے انگاروں سے داغنا اور پانی میں غوطے دینا کفار کا روز کا معمول بن گیا تھا۔ سرورِ عالم ﷺ نے فرمایا:’’صبر کرو اے آلِ یاسرؓ! تمہارے لیے جنت کا وعدہ ہے۔‘‘
ایک اور روایت میں ہے کہ حضورﷺ نے ایک مرتبہ حضرت یاسرؓ، حضرت سمیہؓ اور ان کے بچوں کو مبتلائے مصیبت دیکھا تو فرمایا : ’’صبر کرو اور پھر دعا فرمائی : اے اللہ آلِ یاسرؓ کی مغفرت فرمادے۔‘‘ بوڑھے یاسرؓ یہ ظلم سہتے سہتے ایک دن جاں بحق ہوگئے۔ پھر بھی اس خاندان پر مشرکین کو رحم نہ آیا۔ حضرت سمیہؓ اور ان کے بچوں پر ظلم کا سلسلہ برابر جاری رکھا۔
ایک دن حضرت سمیہؓ دن بھر سختیاں سہنے کے بعد شام کو گھر آئیں تو ابوجہل نے ان کو گالیاں دینی شروع کیں۔ پھر اس نے اپنابرچھا حضرت سمیہؓ کو کھینچ مارا۔ وہ اسی وقت زمین پر گرگئیں۔ اور اپنی جان، جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ ایک روایت میں ہے کہ ابوجہل نے تیر مار کر حضرت سمیہؓ کے فرزند عبداللہ کو بھی شہید کردیا۔ عمارؓ رہ گئے، عمارؓ کو اپنی والدہ کی مرگ بے کسی پر سخت صدمہ ہوا۔ روتے ہوئے اپنے آقاﷺ کی خدمت ِ اقدس میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ سناکر عرض کی: ’’یا رسول اللہ! اب تو ظلم کی انتہا ہوگئی۔‘‘ حضورﷺ نے ان کو صبر کی تلقین کی اور فرمایا: ’’اے اللہ! آلِ یاسر کو دوزخ سے بچا۔‘‘
غزوہ بدر (رمضان المبارک ۲ہجری) میں ابوجہل واصلِ جہنم ہوا تو حضور ﷺ نے حضرت عمار بن یاسرؓ کو بلاکر فرمایا: ’’اللہ نے تمہاری ماں کے قاتل سے بدلہ لے لیا۔ ‘‘حضرت سمیہؓ کی شہادت ہجرت نبوی سے کئی سال قبل واقع ہوئی تھی۔ اس لیے تمام اہلِ سیر نے انہیں اسلام کی شہیدِ اول قرار دیا۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146