بیسویں صدی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس صدی میں ’خواتین‘ کا مسئلہ ایک مستقل موضوع بحث بنا۔ گو کہ ہر دور میں خواتین سے متعلق مختلف امور پر بحثیں ہوتی رہی ہیں مگر یہ ساری بحثیں چند محدود عناوین پر مشتمل رہیں اور ان کے مسائل پر توجہ مرکوز نہیں کی گئی۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں مغربی دنیا میں ہونے والے تغیرات نے عورتوں کے لیے مخصوص دشواریوں کو جنم دیا۔ اور اس طرح خواتین کے سماجی و معاشی مسائل پر خود انھوں نے ہی آواز بلند کی۔ اور آج یہ چیز ایک ’مسئلہ‘ نہ ہوکر علم کی ایک شاخ بن چکا ہے، جسے علم کے مختلف شعبوں کی طرح سائنسی طریقۂ کار پر پڑھا، سمجھا اور لکھا جاتا ہے۔
اسلام، خواتین اور مسلم یا اسلامی معاشرے پر مختلف تحریکات اسلامی میں بھی پیش قدمی ہوئی ہے اور کافی کچھ تحقیق ہوئی ہے مگر دنیا جس برق رفتاری سے تبدیل ہوئی اور ہوتی جارہی ہے اس کے مدِ مقابل یہ جدوجہد ایک ایسی تبدیلی لانے سے قاصر ہے، جسے بڑے پیمانے پر محسوس کیا جاسکے یا سرکی آنکھوں سے مشاہدہ کیا جاسکے۔ نسوانیت کے علمبرداروں کا یہ الزام کہ خواتین کو مرد حضرات نے ’مسئلہ‘ یعنی ‘problem’ یا ‘issue’ کے طور پر دیکھا ہے، صداقت سے بعید نہیں لگتا کہ آج بھی یہی approachسماج میں پائی جاتی ہے۔ گویا کہ وجود زن ایک ایشو ہے جسے حل کرنا مرد کی ذمہ داری اور اس کا قدرتی حق ہے۔
اسلامی حلقوں میں مغربی دنیا سے جنم لینے والی تحریک نسواں کی شدت سے مخالفت کی جاتی رہی ہے۔ مگر ہندوستانی پس منظر میں خواتین کا سماج میں کیا رول رہا ہے؟ کیا انہیں کبھی ملت اسلامیہ ہند کا main stream(خاص دھارا) سمجھا گیا؟ اپنے مسائل اور اپنی حالت سے وہ خود کتنی واقفیت رکھتی ہیں؟ معاشرے کی تعمیر میں تحریکی خواتین معاشرے کے کتنے حصہ پر اثر انداز ہوتی ہیں؟ ان سوالات کا تشفی بخش جواب بھی ہمیں تلاش کرنا چاہیے۔ ایسا نہیں کہ آزادی کے بعد تحریکی خواتین نے کوئی نمایاں کام انجام نہیں دیا۔ مگر اپنی کامیابیوں کے باوجود ہمارا رویہ کافی محتاط رہا ہے اور ہم اس معاملے میں بہت مطمئن واقع ہوئے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ابتدا ہی سے انسانی سماج مردوں کی بالادستی والا رہا ہے۔ آج بھی ہمارا سماج اسی طرح قائم ہے۔ مثال کے طور پر دیکھیے کہ قرآن مجید پر غوروفکر، بحث وگفتگو اور اس کی تفسیر پر عملاً مردوں کا ’’غلبہ‘‘ رہا ہے اور یہ معاملہ دنیا کی ہر مذہبی کتاب کے ساتھ یکساں ہے۔ سیاسی ومعاشی کشمکش سے خواتین کو عمداً دور رکھا جاتا ہے، شجرِ ممنوعہ کی طرح۔ اور وہ بھی ایک ایسے ملک میں جہاں ایک خاتون سیکولر طاقتوں کو جمع کرنے میں کامیاب رہی تاکہ فسطائی طاقتوں کو اقتدار سے پرے رکھا جاسکے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ایک دلت خاتون ہزاروں سالوں کی ذلت، ظلم اور پس ماندگی کا بدلہ لے رہی ہو، ایک ایسے سماج میں جہاں ایک خاتون اپنی تحریر و تقریر سے فسطائی طاقتوں کے خلاف محاذ آرا ہو اور ایک ایسا دور کہ جس میں ایک سادہ مزاج خاتون ہزاروں آدی باسیوں اور کمزور طبقہ کے جائز حقوق کے لیے اپنی ساری عمر اور صلاحیتیں صرف کردے۔ کیا ان ساری محنتوں کو محض اس بنیاد پر نظر انداز کیا جاسکتا ہے کہ وہ ’برقع پوش‘ نہیں ہیں۔
کیا ہندوستانی مسلم خواتین (اور مردوں) نے ذات پات کے مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھا؟ کیا انھوں نے کوئی ایسا ماہر پیدا کیا کہ اسلامی نصوص کی روشنی میں موجودہ سیاسی تبدیلیوں پر محققانہ گفتگو کرسکے؟ کیا معاشرتی مسائل میں معاونت کی خاطر کوئی قابلِ ذکر ماہرِ نفسیات خاتون پیدا کی، جبکہ نفسیاتی امراض بڑھتے جارہے ہیں؟ اور کیا یہ حقیقت نہیں کہ خوداسلامی گھرانوں کی خواتین کی معلومات عامہ کا دائرہ سبزی کے داموں سے آگے نہیں بڑھ پاتا؟ جبکہ غیر مسلم خواتین سماج کا ایک محرک حصہ بن کر تبدیلیوں کی طرف گامزن ہیں۔ پردہ کو ڈھال بناکر کتنی ہی طالبات کو کبھی تعلیم اور کبھی اعلیٰ تعلیم سے محروم رکھا جاتا ہے۔ یہ صحیح نہیں ہے کہ ہر تعلیم یافتہ عورت گھر کو الوداع کہہ کر سماجی کشمکش میں کود جائے۔ مگر علم سے محروم رکھنا کونسی دانائی ہے؟ علاوہ ازیں برقع کو شریعت کا حکم بنادیا گیا کہ اس پر دوسری رائے حرمت کا درجہ رکھتی ہے۔ کیا یہ لباس اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کافی عرق ریزی کے بعد بنایا گیا کہ اس وضع کو اسلامی لباس کی پہلی اور آخری شکل کی قطعیت دے دی گئی۔ اور اگر یہ تہذیب کا حصہ ہے تو اسے مذہب کا اٹوٹ حصہ کب بنادیا گیا کہ اس مخصوص لباس کے بغیر کسی پارسا خاتون کا تصور ہی محال ہوجائے۔ ٭
دراصل ہر آدمی، مرد ہو کہ خاتون ہر ایک اپنے مخصوص سماج کی ایک پیداوار ہوتا ہے۔ تہذیب، مذہب، قانون، معاشرہ اور ہر پہلوئے زندگی کو وہ اپنے اطراف و اکناف والے اس معاشرے کے پس منظر میں دیکھتا اور سمجھتا ہے۔ جس میں وہ پلا بڑھا ہو۔ مثلاً ساڑھی کے رواج کو عموماً اسلامی یا مسلم لباس کے طور پر ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ کم از کم غیر اسلامی تصور نہیں کیا جاتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس لباس کو کیسے اختیار کرلیا گیا جبکہ اس لباس میں پیٹ کا حصہ ظاہر ہوتا ہے اور یہ شرعی اصول کے برخلاف رویہ ہے۔
اکثر مسلم خواتین تو’امور خانہ داری‘ کی نظر ہوجاتی ہیں۔ ساری کائنات ایک باورچی خانہ میں سمٹ گئی کہ عالم اسباب یہیںسے شروع ہوکر اسی دائرے میں ختم ہوجاتے ہیں۔ گھریلو گفت و شنید کا جائزہ لیجیے۔ کیا کبھی اسلامی احکام،تاریخ، قانون، تصورات، مذہب، سیاسی و معاشی کشمکش گفتگو کا ادنیٰ سا بھی حصہ بنتے ہیں؟ شاذ و نادر ہی ایسے گھرانے پائے جاتے ہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی حیات قابلِ تقلید ہے تو اس کا مطالعہ کیا جانا چاہیے۔ ایک ایسے ملک و معاشرے میں جہاں ایک لڑکی کی پیدائش پر قبر کھودنے کی تیاری ہوتی ہو، وہاں دفعتاً ایک خاتون کا عالمہ بلکہ علاّمہ ہونا تاریخ ساز کارنامہ ہے۔ دینی بصیرت، خدا ترسی اور علم پر دسترس رکھنے کے ساتھ، سیاسی بصیرت و حکمت عملی آپؓ کی شخصیت کا غیر معمولی پہلو رہا ہے۔ وصالِ نبویؐ کے بعد کتنے ہی نیک نفوس (جن میں مرد حضرات بھی شامل ہیں) ایسے ہیں جنھوں نے آپؓ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور علماء میں شمار ہوئے۔
اسلام اگر اعتدال پسند مذہب ہے تو اسے اسی انداز میں اپنایا جانا چاہیے۔ اور یہ چیز اس وقت تک مشکل نظر آتی ہے جب ملک کے ان نقائص کو اپنی فکر سے پاک نہ کیا جائے جو مختلف وجوہ سے اس قوم کا مذاق بن گئے ہیں۔
——