خوشی کا بلاوا تھا۔ گھر کی بنیاد رکھنے کی خوشی کا دعوت نامہ زندگی میں مسرت کے لمحے آئیں اور اطلاع نہ ہو۔ خبر نہ ہو۔ کیسے ممکن ہے؟ سب کہتے ہیں۔ مانتے ہیں کہ خوشی کا اعلان بھی خوسی سے لوگ سنیں۔ اور اس میں شامل ہوجائیں اس کا الگ لطف ہے۔ سب یہی چاہتے ہیں۔ ایسا ہی پسند کرتے ہیں اور اسی کی خاطر بہت کچھ کرتے ہیں۔ سب کچھ کرتے ہیں کہ نئے گھر کا، نئے در کا سب کو پتا چلے کیوں؟ اس لیے کہ کہنے والوں نے کہا ہے کہ لطف تقسیم کرنے سے کم نہیں ہوتا، بڑھتا ہے ۔۔۔ سب تک پہنچتا ہے اور سب اپنے اپنے حصے کی خوشیاں ہمارے حصے میں شامل کر دیتے ہیں۔ کیا بات ہے!! ایک گھر کی ابتدا اور اس کی خوشیاں سنانے والے کئی…
ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ تقریب کا، اہتمام کا، روشنیوں کا، نظاروں کا، ہنسی بکھرتی ہے۔ قہقہے گونجتے ہیں۔ خوشبووں کی لپٹیں اٹھتی ہیں۔ یہ سب حوالے ہیں، خوشیوں کے عنوان ہیں، نئے گھر کی ابتدا کے۔ اعلان ہے اطلاع ہے۔ خبر ہے اس بات کی کہ نگاہیں دیکھ لیں۔ کان سن لیں کہ دو افراد مل کر ایک گھر بنا رہے ہیں۔ سب کو جمع کر کے گواہ بنا کر عہد کرتے ہیں …گھر بنے گا، گھر بسے گا، اس کی بنیاد میں محبت کا گارا، احترام کی اینٹیں ہوں گی۔ انہیں ایثار سے جوڑا جائے گا۔ اس میں لعل و یاقوت ہوں نہ ہوں۔ برداشت کی قوت ہوگی۔ وہ گھر کی بنیاد کو سہارا دے گی۔ وہ مکینوں کو جھکانے کے بجائے جھکنا سکھائے گی۔ وہ نرمی سی سختی جھیلنا سکھائے گی تاکہ گھر آباد رہے اور مضبوط بھی۔ برسوں سے ایسا ہی ہوتا آرہا ہے۔ آئندہ بھی ایسا ہی ہوتا رہے گا… اسی میں عافیت ہے۔ اسی میں خیریت ہے۔ گھر سلامت، سر سلامت، گھر محفوظ اور مضبوط رہے تو دل مطمئن، ذہن پرسکون۔ زندگی خوش حال رہتی ہے۔ ہم اس کی کوشش کرتے ہیں۔ بڑے جتن کرتے ہیں۔ ہزار ہزار تدبیریں کرتے ہیں کہ گھر کی ابتدا میں لوگوں کو جمع کیا تھا۔ بلاوے یا دعوت نامے کے ذریعے۔ دعوت نامہ کیا تھا؟ اطلاع تھی، خبر تھی اور اب …اب اسی کی لاج رکھتی ہے۔ گھر کی سلامتی میں ہی ہماری سلامتی ہے ورنہ سب کچھ ’’کچھ‘‘ بھی نہیں ہے…
خوشیوں کی خبر دینے والے شاید اس سے بے خبر تھے کہ کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے۔ آگے بڑھنے کے لیے پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔ بلند ہونے کے لیے پست ہونا پڑتا ہے اور ۔۔۔ اور دست بردار بھی ہونا پڑتا ہے۔ اپنی پسند سے ۔۔۔ رائے سے، اپنی مرضی سے خواہش سے۔ ٹھٹھ کھڑے رہنے والے انسان ہوں یا درخت، حالات کے جھکڑ دور لے جاکر پٹختے ہیں۔ یہی معاملہ گھر کا بھی ہے۔ پہلے بنیادیں کمزور پڑتی ہیں۔ پھر دیواریں۔ چھت اور باقی چیزیں آپ سے آپ لرزنا شروع ہوجاتی ہیں۔ پھر ۔۔۔ گھر میں رہنے والے مضبوط اور گھر؟ باتوں پر جھگڑے۔ یادوں پر تکرار۔ ماننے، قبول کرنے کا توذکر ہی کہاں!! بس اپنی منوانا چاہتے ہیں۔ گویا زندگی نہ ہوئی کوئی مقابلہ ہوگیا۔ بہرصورت جیتنا چاہتے ہیں، یہ خیال رکھے بغیر کہ مقابلے میں ایک جیتے گا تو ایک ہارے گا بھی۔۔۔محبت کے رشتوں میں ہار کر ہی جیتا جاتا ہے۔ نرم ہوکر نرم کیا جاتا ہے۔ سوچا تو یہی تھا۔ مگر اب یہ باتیں کھلتی ہیں زہر لگتی ہیں۔ کیوں کہ خیال زہر آلود۔ دل زہر آلود اور زبان۔۔۔ زبان کہاں؟؟ بس ایک تلوار ہے، جو ہر دم کاٹنے کے لیے تیار۔ رشتے ہوں یا گھر کی جڑیں سب کے پرخچے اڑاتے ہیں۔ اس سے کیا غرض کہ آگے کیا ہوگا۔ بس ایک ہی بات ذہن پر سوار ہے۔ دل میں اتری ہوئی ہے کہ یہ رشتہ نہیں پاؤں کی بیڑی اور گلے کی زنجیر ہے۔ اسے کٹ جانا چاہیے یا کاٹ دینا چاہیے۔
کچھ لوگ سمجھاتے ہیں، یاد دلاتے ہیں کہ ڈرو اور رک جاؤ، رکو اور ٹھیک کرلو، اپنی سوچ، اپنا دل۔ باز رہو اپنے عزائم سے ارادوں سے۔ اللہ کا واسطہ دیا جاتا ہے اور مقدس ناموں کا حوالہ … بتایا جاتا ہے کہ اس ہستی نے کیا کہا کان سنتے ہیں۔ پاکیزہ نام سن کر سر جھکتے جاتے ہیں دل نہیں … کیوں کہ اب سینے میں دل نہیں گوشت کا ایک سخت لوتھڑا ہے۔ بلکہ سخت ترین۔ اس میں محبت، پیار، نرمی، احساس، لحاظ، مروت، احترام، خیال کچھ نہیں سوائے ایک بات کہ حساب برابر کرنا ہے۔ بے باق کرنا ہے۔ اب اللہ یاد نہ رسول نہ یوم حساب۔ ساری باتیں ایک طرف، دل ایک ہی بات کرتا ہے۔ ’’ڈٹے رہنا، جمے رہنا‘‘ اپنی بات بہت عزیز ہوجاتی ہے۔ ہر چیز سے زیادہ حتی کہ اپنی جان سے زیادہ۔ ابو جہل کی طرح جس نے کہا … میری گردن ذرا نیچے سے کاٹنا کہ سب سے نمایاں ہو۔ دور سے پتا چلے کہ اپنی بات پر قائم رہا۔ انسان پھر فیصلہ کرتا ہے، قیامت سے پہلے قیامت برپا کرنے کا اور اطلاع آتی ہے، خبر آتی ہے۔ دعوت کی شکل میں نہیں،اخبار میں، کورٹ نوٹس کی صورت میں، گنتی کے چند الفاظ، دو چار لائنیں، میں نے … طلاق دی … کارڈ سے شروع ہونے والا سفر اخبار کے اشتہار میں آکر ختم؟؟