حالیہ انتخابات کے نتائج

شمشاد حسین فلاحی

ملک کی پانچ ریاستوں اترپردیش، پنجاب، گوا، اتراکھنڈ اور منی پور میں ہوئے حالیہ اسمبلی انتخابات کے نتائج نے سیاسی تجزیہ نگاروں کو چونکا دیا۔ خصوصاً یوپی کی سیاسی کیچڑ میں کنول کے خوب صورت انداز میں کھلنے نے ملک کے عوام کو حیران کر دیا اور کچھ مسلمانوں کو مایوس۔

ان ریاستوں کے انتخابات کو اس بار خاص اہمیت حاصل تھی۔ ایک تو یہ کہ اترپردیش، پنجاب اور اتراکھنڈ ملک کی بڑی اور اہم ریاستیں ہیں۔ ان میں یوپی کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل تھی کہ یہاں سے گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے 87 میں سے 80 سیٹیں حاصل کرلی تھیں اور اب اس جیت کو قائم رکھنا بڑا چیلنج تھا۔ دوسرے مرکز میں مودی حکومت بننے کے بعد اس الیکشن کو موجودہ حکومت کی ڈھائی سالہ کارکردگی پر ریفرنڈم کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ اور اب تو ان نتائج نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کو ہر طرح سے مضبوط کر دیا۔ ایک طرف تو یہ ثابت ہوگیا کہ نوٹ بندی کے سبب زبردست مشکلات جھیلنے کے باوجود عوام ان سے ناراض نہیں، دوسرے اب راجیہ سبھا میں قلت تعداد کا شکوہ بھی جاتا رہے گا اور یہ نتائج پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اب پوری طرح اسی کی اکثریت بنا دیں گے۔

پنجاب میں بی جے پی اکالی اتحاد کے پرانے اقتدار کو کنارے لگاتے ہوئے اور اروند کیجریوال کے حکومت بنانے کے خواب کو چکنا چور کرتے ہوئے کانگریس نے واضح اکثریت حاصل کرلی۔ اسی طرح یوپی میں بی ایس پی کی مایاوتی اور اکھلیش یادو کے ’’کام بولتا ہے‘‘ کی امنگوں کو خاک میں ملا کر حیرت انگیز طور پر تین چوتھائی سے بھی زیادہ سیٹیں نکال کر اترپردیش پر قبضہ جمالیا اور ساتھ ہی اتراکھنڈ میں بھی واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ گوا اور منی پور اگرچہ واضح اکثریت کسی کو نہیں ملی لیکن دونوں ہی ریاستوں میں کانگریس نے سب سے زیادہ سیٹیں جیت لیں لیکن اس کے باوجود ان دونوں جگہوں پر کانگریس پارٹی کی حکومت بننے کے امکانات معدوم ہیں اور اس کی وجہ کانگریس کی نشانہ سادھنے کے فن کی کمزوری اور بھارتیہ جنتا پارٹی کا جوڑ توڑ کے فن میں کمال ہے۔

2017 کے ان انتخابات میں ووٹ شیر اور اس کے نتائج بھی حیرت انگیز رہے۔ بی جے پی کو یوپی میں 39.7فیصد ووٹ ملا اور وہ 312 سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی جب کہ برسر اقتدار سماجوادی پارٹی کا ووٹ فیصد 29.13 سے، جس کے سبب 2012 میں اس نے 224 سیٹیں جیت لی تھیں، گھٹ کر 21.8 فیصد پر آگیا اور سیٹیں محض 47 رہ گئیں۔ حیرت ناک طور پر مایاوتی کی پارٹی بی ایس پی 22.2 فیصد ووٹ لے کر بھی محض ۱۹ سیٹوں پر سمٹ کر رہ گئی۔ اس کا مطلب سماجوادی پارٹی سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے باوجود سیٹیں محض 19 ہی نکل سکیں۔ یہ اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ مایاوتی جو اپنی سوشل انجینئرنگ کے لیے معروف تھیں، اس بار ان کا یہ فن پوری طرح ناکام ہوگیا۔ اسی طرح کی صورت حال پنجاب میں بی جے پی کے اتحادی شرومنی اکالی دل کو بھی پیش آئی جہاں اس نے 25.2 فیصد ووٹ لیا اور سیٹیں محض 15مل سکیں جب کہ 23.7 فیصد ووٹ حاصل کر کے عام آدمی پارٹی 20 سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ گوا میں بی جے پی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا جہاں اس نے 32.5 فیصد ووٹ حاصل کیا اور سیٹیں محض ۱۳ مل سکیں جب کہ کانگریس نے 28.4 فیصد ووٹ حاصل کیا اور ۱۷سیٹیں جیت لیں۔ جب کہ منی پور میں بھی اسی طرح کی صورت حال پیش آئی جہاں بی جے پی نے 36.3 فیصد ووٹ حاصل کیا اور اس کے باوجود محض 21 سیٹ نکالنے میں کامیاب ہوسکی جب کہ کانگریس محض 35.1 فیصد ووٹ پر ہی 28 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوگئی۔ ظاہر ہے اس کا سبب ہندوستانی سماج کے ذات برادری پر مبنی سماجی و سیاسی تانے بانے ہیں جہاں ووٹ فیصد کی اکثریت بھی زیادہ سیٹیں دلانے میں ناکام رہتی ہے اور بعض اوقات کم ووٹ فیصد بھی زیادہ سیٹیں دے کر نواز دیتا ہے۔

اس تجزیے کے بعد ہم پھر اترپردیش کی طرف لوٹتے ہیں جو آبادی کے اعتبار سے ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے اور جہاں ملک کی مسلم آبادی کا 20 فیصد سے بھی زیادہ حصہ رہائش پذیر ہے۔ اس ریاست کی سیاسی اہمیت ہمیشہ دوسری ریاستوں سے زیادہ رہی ہے اور بی جے پی کے سیاسی وجود کو شناخت دینے والی ریاست بھی یہی اور یہی ریاست اس جماعت کی ’کرم بھومی‘ بھی ہے جہاں ’رام لَلا‘ بابری مسجد کے ملبے پر براجمان ہیں۔ انہی کے رتھ پر سوار ہوکر اس پارٹی نے پورے ملک میں اپنی تشہیر کی تھی۔

ہر چند کہ ملک کے مسلمان ہی کیا عوام کی بھی بڑی تعداد ۲۰۱۴ میں آئی سیاسی تبدیلی کے لیے ذہنی طور پر تیار نہ تھی مگر تبدیلی آئی اور اس وقت بھی اترپردیش کے مسلمان یہ توقع نہیں کر رہے تھے مگر ان کی توقع سے کچھ بننے بگڑنے والا تو نہیں۔ ہاں اگر وہ سیاسی سوجھ بوجھ اور بصیرت سے کام لیتے تو شاید تصویر تھوڑی سی الگ ہوسکتی تھی مگر انھوں نے سیاسی دانش مندی کا ثبوت نہیں دیا اور نتائج ان کی توقع کے خلاف برآمد ہوئے۔ ہو سکتا ہے کہ ان نتائج سے ان کے اندر مایوسی اور اندیشوں نے جگہ بنالی ہو مگر اس سے کچھ بننے والا نہیں۔ اس وقت ہم مسلمانوں کی سیاسی بصیرت کا نوحہ پڑھنے کے بجائے صرف یہ کہنا چاہیں گے کہ دنیا میں کام بنانے والی چیز عزم و حوصلہ ہے، اسٹریٹجی اور منصوبہ بندی ہے اور اس سے آگے بڑھ کر مثبت سوچ اور سیاسی بصیرت کی تربیت لینا ضروری ہے۔ اقبالؒ نے کہا تھا:

جہاں بانی سے ہے دشوار تر کارِ جہاں بینی

جگر خوں ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا

شاید اب سیکولرزم کی سیاست کا دوررَخت سفر باندھ رہا ہے اور اگر ایسا ہے تو ہمارے سامنے صرف یہی راستہ بچتا ہے کہ ہم ملک کی سیاست کرنے کا شعور اپنے اندر پیدا کریں اس لیے کہ آئندہ اسی کا اسکوپ رہے گا۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں