حجاب کے نام

شرکاء

عورت چھپی ہوئی قیمتی متاع

عورت کے معنی ہیں: چھپی ہوئی چیز۔ لیکن آج یہ ممکن نہیں رہا۔ ہیرے جواہرات اور سونا چاندی چھپا کر رکھنے والے کیا ماں‘ بہن‘ بیٹی اور بیوی کا اتنا تقدس بھی نہیں رکھتے کہ اسے راہ گزر سجانے والی اشیاء￿ سے بھی گیا گزرا کردیا۔ صابن جیسی حقیر چیز ہو یا لان کا سوٹ… کوئی چیز عورت کے بغیر نہیں بک سکتی۔ ناانصافی کی انتہا ہے کہ تن ڈھانکنے والا کپڑا اپنی حیثیت بھول کر تن کا اشتہار بن چکا ہے۔ زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی کرنے والے دین کو پس پشت ڈال کر اپنی مرضی سے جینے والے نئی نسل کی اخلاقی گراوٹ کی شکایت کس سے کریں گے، جبکہ ان کے چینل یہ پیغام دیتے ہیں کہ ’’بہت کچھ ہے دکھانے کو‘‘۔ اس بہت کچھ میں تحمل‘ عزتِ نفس اور غیرت کو پس پشت ڈال کر جو کچھ دکھایا جاسکتا ہے، وہ ہمیں روز بروز میڈیا کی آزادی کے نام پر ذہنی بدہضمی‘ اخلاقی گراوٹ اور اپنے ہی گھر میں چور والی کیفیت کا شکار بنارہا ہے۔

نرگس سلطان

خواتین کی ملازمت اور معاشرہ

مئی کا شمارہ ہاتھوں میں ہے۔ خوب صورت ٹائٹل اور اچھے مضامین کے ساتھ حجاب اسلامی روز بروز نکھر رہا ہے۔ اس شمارے میں بہت سارے مضامین قابل تعریف ہیں۔ ان میں اسامہ شعیب علیگ کا مضمون جو عورت کی ملازمت اور معاشرتی ترقی کے موضوع پر ہے بہت خاص ہے۔ مذکورہ مضمون میں کئی ایسے اہم حقائق کی طرف اشارہ ہے جن کی طرف عوام کی نظر نہیں جاتی۔

یہ بات دلچسپ ہے کہ مغربی معاشروں میں خواتین جتنا کماتی ہیں اس سے زیادہ ان کے لیے رفاہی بجٹ میں خرچ کرنا پڑتا ہے۔ خاندان کا بکھراؤ، طلاق کی بڑھتی شرح اور دو برے بوجھ کے سبب نفسیاتی امراض میں اضافہ وغیرہ تباہ کن مسائل ہیں۔

مذکورہ رپورٹ اپنے موضوع پر جامع اور مفید رپورٹ ہے جو چشم کشا بھی ہے اور عبرت ناک بھی۔ امید ہے کہ حجاب کے ریڈر اس رپورٹ سے استفادہ کریں گے اور مغرب زدہ آزادیِ نسواں کے متوالوں کو تو یقینا اس میں بہت کچھ ملے گا۔

فوزیہ عباس

اورنگ آباد (مہاراشٹر)

ماہنامہ حجاب اسلامی کا تازہ شمارہ بہت پسند آیا۔ سمیر یونس کا مضمون ان والدین کے لیے خصوصی اہمیت کا حامل ہے جو اپنی اولاد پر بے جا سختی کرتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ ترش روئی سے پیش آنا نہ تو تربیتی پہلو سے مناسب ہے اور نہ ہی دینی و اخلاقی پہلو سے۔ ہمارے حضورؐ نے بچوں کے لیے نرم اور محبت آمیز رویہ کی تلقین کی ہے۔ حضرت انسؓ آپ کی خدمت میں رہے لیکن انہوں نے گواہی دی کہ اللہ کے رسولؐ نے انہیں کبھی نہیں ڈانٹا۔

عملی زندگی کی سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ جو کام محبت سے نکل سکتا ہے وہ سختی اور غصہ سے ممکن نہیں ہے۔ امید ہے کہ مذکورہ تحریر بچوں کی تربیت میں ہمارے لیے رہنمائی کرے گی۔ ’’ہماری عادات اور شخصیت‘‘ بھی پسند آیا۔

رعنا جمال

الخوبر (سعودی عرب)

بذریعہ ای میل

ایک مشورہ

میں حجاب اسلامی کی پرانی ریڈر ہوں۔ بہت دنوں سے حجاب اسلامی کو خط لکھنے کا سوچ رہی تھی۔ گزشتہ مہینوں کے شمارے اور ان کی خصوصی رپورٹیں پسند آئیں۔ سمیہ تحریم کی تحریریں اچھی تھیں لیکن اب نہیں نظر آتیں کیا بات ہے؟ ان کی تحریروں کا اپنا خاص رنگ اور انداز ہوتا ہے۔

ایک بات یہ کہنا چاہتی ہوں کہ ماہنامہ حجابِ اسلامی میں بہت سی اور چیزیں بھی شامل کی جاسکتی ہیں۔ بڑی اور معروف شخصیات کی سوانح حیات، تاریخی معلومات اور کامیاب خواتین کے تذکرے وغیرہ حجاب میں شامل کیے جاسکتے ہیں۔

فرحت سمیع (مدراس)

خصوصی گوشہ

اپریل کا حجاب اسلامی عام شماروں سے کچھ مختلف لگا۔ ٹائٹل کا انداز بدلا ہوا تھا۔ مضامین بہت پسند آئے۔ ’’لڑکیوں کے لیے اعلی تعلیم کے خاص میدان‘‘ دیکھ کر خوشی ہوئی۔ اس گوشہ میں جن مضامین کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ بہت خوب ہیں۔ حقیقت میں ان میدانوں میں اگر لڑکیاں آگے بڑھیں تو ایک جانب وہ اپنے کیریئر کو بلندیوں تک لے جاسکتی ہیں۔ دوسری طرف وہ ملک و ملت کی ایک ضرورت کی تکمیل بھی کرسکتی ہیں۔ اور ان میدانوں میں ان کے لیے نہ کوئی چیلنج ہے اور نہ خطرات۔

حجاب اسلامی کا یہ انداز اور سوچ قابل تقلید ہے۔ رسالہ دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے نکالنے والوں کی سوچ واضح طور پر اسلامی ہے اسی طرح ان کا نظریہ تعلیم بھی ملک و ملت کی ضرورت کو قابل ترجیح سمجھتا ہے نہ کہ دولت اور شہرت کے حصول کو۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حجاب اسلامی کو ترقی عطا فرمائے۔ اور اسے ملک و ملت کے لیے مفید بنائے۔ فریدہ نازنین (کلکتہ)

اچھے مضامین

مئی کا شمارہ خوب صورت اور اس کے مضامین اچھے ہیں۔ فلاح آخرت کی بنیادیں، عورت کی ملازمت اور معاشرہ، کون کتنا مہذب ہے بہت اچھے لگے۔ گھریلو نسخے کے تحت پیپل کا تذکرہ اس کے حیرت انگیز فوائد کو اجاگر کرتا ہے۔ مذکورہ مضمون میں نے اپنے ایک دوست کو پڑھنے کے لیے دیا ہے جن کی اہلیہ کئی سالوں سے ڈپریشن کا شکار ہیں اور وہ علاج کراتے کراتے تھک چکے ہیں۔ اللہ کرے اس مضمون کے ذریعے ان کو خیر حاصل ہوجائے۔

ام ایمان

رانچی (جھارکھنڈ)

اخوان المسلمون

اخوان المسلمون کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے مصر میں فوج کی جانب سے مسلسل انتقامی کارروائیاں کی جارہی ہیں۔

مصر کی مسلح افواج جمہوریت کی بساط لپیٹ کر جمہوریت پسند اخوان المسلمون کے کارکنان و ذمہ داران کو اپنے انتقام کی بھینٹ چڑھا رہی ہے۔ مصر میں اخوان المسلمون کے مرشد عام محمد بدیع سمیت 683 افرادکو سزائے موت سنانے کا فیصلہ عدل و انصاف کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے۔ کسی بھی ملک کی فوج کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ طاقت کے بل بوتے پر آئین و قانون کو پیروں تلے روندے اوراقتدار پر قابض ہوکر پورے ملک کو یرغمال بنا لے۔ مصری حکومت کے اخوانیوں پر بڑھتے ہوئے مظالم، گرفتاریاں اور جھوٹے الزامات پر سزائے موت کے عدالتی اعلانات انتہائی قابلِ مذمت ہیں۔

اخوان المسلمون نے جمہوری طریقے سے الیکشن لڑا اور عوامی تائید سے اقتدار سنبھالا۔ لیکن جنرل السیسی اور اس کے حامیوں نے جمہوری حکومت پر دھاوا بول کر اپنے ہی شہریوں کو پابندِ سلاسل کرنا اور انتقام کا نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ ہزاروں افراد کو پرامن مظاہروں میں قتل کیا جاچکا ہے۔

اخوان المسلمون کے سربراہ سمیت مزید 683 افراد کو صرف ایک گھنٹے میں سزائے موت کا فیصلہ سناکر نام نہاد مصری عدالتوں نے انصاف کا قتل عام کیا ہے۔ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ کوئی بھی فرد جرائم یا پْرتشدد کارروائیوں یا ملک کے خلاف کسی بھی جرم میں ملوث پایا جائے تو اس کا باقاعدہ ٹرائل کیا جاتا ہے۔ ملزموں کو صفائی کا موقع دیا جاتا ہے۔ لیکن یہاں تو چند منٹوں میں فیصلہ سنادیا گیا۔

اخوان المسلمون کا بس اتنا قصور ہے کہ اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو نافذ کرنے کی کوشش کی۔ سابق صدر محمد مرسی نے 3 جون 2012ء کو صدارت کا حلف اٹھایا تھا۔ اپنے ایک سالہ عہدِ صدارت میں انھوں نے ملک کو پہلا حقیقی جمہوری دستور دیا۔ مصر کو دنیا میں ایک آزاد و خودمختار ملک کی حیثیت سے منوایا۔ بڑی حد تک حکومتی اداروں سے کرپشن اور لوٹ مار کا خاتمہ کیا۔ تنخواہوں میں نمایاں اضافہ کیا۔ توانائی، زراعت اور تعمیرنو کے کئی منصوبوں کے لیے دوست ممالک سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کروائی۔ مصر جو گزشتہ نصف صدی سے بدترین ڈکٹیٹرشپ کے چنگل میں پھنسا ہوا تھا، وہاں کے تمام شہریوں کو مکمل آزادی دلائی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مصر کے صدر محمد مرسی نے جو دستور دیا اس کا تشخص اسلامی تھا۔ اس دستورکے نفاذ کا راستہ روکنے کے لیے اس وقت کی عبوری فوجی انتظامیہ اور عدلیہ کے لادین عناصر نے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے۔ لادین طبقے کی طرف سے اس قانون ساز کمیٹی کو ہی توڑنے کا فیصلہ کرلیا گیا جو پارلیمنٹ نے دستور سازی کے لیے تشکیل دی تھی۔ لیکن اس مرحلے پر صدر مرسی نے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے اس سازش کو ناکام کردیا اور دستور کو عوامی ریفرنڈم کے لیے پیش کردیا۔ عوام کی عظیم اکثریت نے15 دسمبر 2012ء کے ریفرنڈم میں دستور اور منتخب صدر مرسی پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔ جب کوئی بھی سازش کامیاب نہ ہوئی تو مصری فوج نے طاقت کے ذریعے جمہوری حکومت کی بساط ہی لپیٹ دی اور نام نہاد عدالتوں کے ذریعے محمد مرسی سمیت اخوان کے کارکنوں اور رہنمائوں کو ناکردہ جرم کی سزائیں دی جارہی ہیں۔

مغربی ممالک سے تو انصاف کی توقع نہیں ہے لیکن عالم اسلام کو ضرور اس حوالے سے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ تمام اسلامی ممالک مصر کی فوجی حکومت پر زور ڈالے کہ وہ اخوان المسلمون کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ بند کرے اور تمام گرفتار رہنمائوں وکارکنوں کو فی الفور رہا کیا جائے۔ اخوان المسلمون کو تشدد اور انتقامی کارروائیوں سے دبایا نہیں جاسکتا۔

سمیع الرحمن ضیاء

(حیدر آباد)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں