حجاب کے نام

شرکاء

گم نام خط

حجاب اسلامی اول روز سے میرے مطالعے میں ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو اپنی تعمیری اور بامقصد جہت پر گام زن رہنے میں ثبات و استحکام عطا فرمائے۔ اس کے بیشتر مضامین لائق مطالعہ ہوتے ہیں۔ خواتین و طالبات کی ہمہ جہت تربیت میں اس کا کردار بہت اہم ہے۔

اگر آپ میرے اس احساس کو تعریف برائے مفاد برآری نہ سمجھیں تو گزارش ہے کہ ایک مضمون ارسال کر رہا ہوں۔ مضمون اپنی نوعیت کے اعتبار سے بالکل الگ ہے۔ یہ سمجھئے کہ مضمون نگار نے تحدیث نعمت کے طور پر قلم بند کیا ہے۔ اور یہ بھی پیش نظر رہا ہے کہ لوگ اپنی بیویوں کے تعلق سے عام طور پر منفی سوچ رکھتے ہیں۔ دوست احباب کی گفتگوؤں میں اپنی بیویوں کی کمیاں بیان کرتے ہیں۔ اس مضمون کے ذریعے گویا اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ لوگ اپنے اس انداز کو بدلیں اور خوش گوار ازدواجی زندگی کے لیے منفی کے بجائے مثبت پہلو تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ اگر یہ چیز قابل اشاعت ہوسکتی ہے تو ضرور شائع کریں اور اگر نہیں تو مجھے آپ سے سوال کرنے کا کوئی حق نہیں۔

میں نے اس مضمون کو ابھی خود اپنی بیوی سے بھی مخفی رکھا ہے۔ اس لیے آپ میرے اصل نام کا مطالبہ بھی نہ کریں۔ بعد میں موقع ہوا تو نام بھی ظاہر کر دیا جائے گا۔ ان شاء اللہ

ن، ا، ت، ع

خواتین کی مسجد میں حاضری

ماہنامہ حجابِ اسلامی کا دسمبر کا شمارہ ہاتھوں میں ہے۔ سبھی مضامین پسند آئے۔ خاص طور پر ’’اپنے بچوں کو یوں بے عزت نہ کیجیے‘‘ خواتین کی مسجد میں حاضری اور ’’پرسکون گھر مگر کیسے‘‘ بہت اچھے لگے۔

خواتین کی مسجد میں حاصری مضمون پسند آیا۔ مضمون پڑھتے وقت اللہ کے رسولؐ کی وہ حدیث بھی ذہن میں تھی جس کا مفہوم ہے:

’’عورت کی بہتر نماز وہ ہے جو اپنے گھر کے اندر پڑھے‘‘ مگر اس کے باوجود صحابیات کی قابل ذکر تعداد تھی جو مسجد میں باجماعت نماز کی پابند تھی۔ (ملک کے بعض حصوں میں ابھی بھی یہ روایت جاری ہے)۔

موجودہ زمانے میں اس موضوع پر لوگ یک طرح طور پر اختلاف کرتے ہیں اور خواتین کے مسجد جانے کے سلسلے میں جائز اور ناجائز کی بحث میں الجھ جاتے ہیں۔ حالاں کہ یہ مسئلہ جائز اور ناجائز کا نہیں بلکہ خواتین کے دین سے تعلق کا ہے۔ دین پر عمل کرنے اور دین کی معلومات حاصل کرنے کا شوق اور جذبہ زیادہ اہم ہے۔ اور موجودہ دور میں خواتین دین سے بہت دور ہیں ایسے میں اگر ان کا تعلق مسجد سے جڑ جائے تو کچھ بہتری ہوسکتی ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ محض مسجد میں نماز کی ادائیگی سے مسئلہ حل نہیں ہوسکتا جب تک کہ ہماری مسجدیں اشاعت دین، تعلیم دین اور لوگوں تک دین پہنچانے کا مرکز نہ بن جائیں۔ اللہ کے رسول کے زمانے میں جو مرکزیت مساجد کو حاصل تھی اگر وہ مرکزیت حاصل ہوجائے تو لوگوں میں دینی بیداری لائی جاسکتی ہے۔ اور اگر یہ نہ ہو تو لاکھ خواتین مسجد میں نمازیں ادا کریں، مطلوبہ تبدیلی ناممکن ہے، جیسے کہ مردوں کی بڑی تعداد تو مساجد میں ہی نماز ادا کرتی ہے مگر کتنے لوگ ہیں جن کی زندگی پر نماز اثر انداز ہوتی ہے۔

شیخ اکرم

ناگپور

مہاراشتر

خواتین کی نوکری کا مسئلہ

جنوری کا شمارہ وقت پر مل گیا۔ دسمبر کے شمارے میں تاخیر ہوئی تھی۔ مسلم خواتین کی دس قرآنی صفات اور آزادی نسواں کا مطلب، مضامین پسند آئے۔ نوکری پیشہ خواتین اور گھریلو زندگی مجھ جیسی بہت سی خواتین کے لیے مفید ہے۔

موجودہ دور میں جب کہ لڑکیوں میں اعلیٰ تعلیم عام ہو رہی ہے، نوکری کا چلن بھی بڑھ رہا ہے۔ اس سے گھر اور خاندان کا متاثر ہونا فطری بات ہے۔ اس کے باوجود لوگ عورت کی نوکری کو پسند کر رہے ہیں۔ ایسے میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ اس موضوع پر مستقل رہنمائی کی جاتی رہے۔ تاکہ گھر کے ادارے کو پہنچنے والے نقصان کو کم اور بچوں کی تعلیم و تربیت اور دیکھ بھال کے مسئلہ کو بہتر طور پر حل کیا جاسکے۔ امید کہ آئندہ بھی آپ رہنمائی کرتے رہیں گے۔

فوزیہ عباس

اورنگ آباد(مہاراشٹر)

رسالہ پسند آیا

جنوری کا حجاب پسند آیا۔ بچوں کو نمازی کیسے بنایا جائے اچھا لگا۔ صغیرہ بانو شیریں کا کالم مفید معلوم ہوتا ہے۔ کار دعوت میں ترتیب ایک اہم ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتا ہے۔

نعیم الحسن

آسنسول (بذریعہ ای-میل)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں