ایک مشورہ
حجاب اسلامی ہمارے گھر میں بڑے شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ اس شمارے میں ایک مضمون خاص طور پر دل کو چھو گیا۔ یہ مضمون تھا ڈاکٹر محی الدین غازی صاحب کا۔ میں ان کے لیے دعائے خیر کرتی ہوں۔
حضرت جنید بغدادی کے واقعہ نے بھی دل و ذہن کو متاثر کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات کا بیان دل و دماغ پر اثر پذیری کے اعتبار سے زیادہ ہے۔ ازدواجیات کے کالم میں جس موضوع پر لکھا گیا ہے وہ بہت اہم ہے۔ تربیت کے کالم کے تحت رسالے میں شائع ہونے والے مضامین مفید اور معلوماتی ہوتے ہیں۔ میرا مشورہ ہے کہ حجابِ اسلامی میں سوال و جواب کا کالم ہو تاکہ لوگ اپنے سوالات بھیج کر مختلف موضوعات پر رہ نمائی حاصل کرسکیں۔
فائزہ اقبال
(بذریعہ ای میل)
[حجاب اسلامی میں فقہی سوالات کا کالم ہے اور جو لوگ سوالات کرتے ہیں ان کے جوابات دیے جاتے ہیں۔ قارئین اپنے سوالات ارسال کریں ان شاء اللہ جوابات حجاب اسلامی میں دیے جائیں گے۔ ایڈیٹر]
حضرت محمدؐ کی رواداری
جنوری کا حجاب اسلامی سامنے ہے۔ رسولِ پاکؐ کی ولادت کے مہینہ کی مناسبت سے جو مضمون شائع کیا گیا ہے وہ پسند آیا۔ ایسے وقت میں جب کہ ملک میں عدم رواداری پر شدت سے بحث ہو رہی ہے اور پورا ملک یہ محسوس کر رہا ہے کہ ملک کا ایک خاص طبقہ ملک میں ایسا ماحول بنانا چاہتا ہے جس میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر تشدد کو ہواملے۔
عدم برداشت کو اس وقت پورا ملک اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ ایسے میں حضور اکرمؐ کی سیرت کے اس پہلو کو پیش کرنا ضروری اور وقت کا تقاضہ ہے۔
مسلم پرسنل لاء پر تحریر اگرچہ تشنہ ہے مگر ایک اہم اشو پر مسلم سماج میں بیداری کا ذریعہ ہے۔ اس شمارے میں فکر صحت سے متعلق دواؤں سے دوری، والا مضمون بہت پسند آیا۔ دراصل انگریزی طریقہ علاج کا معاملہ عجیب ہے۔ یہ ایک مرض کا علاج کر کے دوسرے مرض میں گرفتار کرتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ لوگ بلڈ پریشر، شوگر اور کئی امراض کے لیے دوائیں کھاتے ہیں۔ سالوں سال کھاتے ہیں اور زندگی بھر کھاتے رہتے ہیں۔ یہ طریقہ علاج ہی ایسا ہے کہ جب تک دوا کھاؤ ٹھیک ورنہ پھر بیمار۔
میں کیوں کہ خود ایک ڈاکٹر ہوں اس لیے اس بات کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ لوگوں کو چاہیے کہ جہاں تک ممکن ہو وہ دواؤں سے بچیں اور چھوٹی چھوٹی بیماریوں کی صورت میں پرہیز اور غذائی علاج اختیار کریں بہ صورتِ دیگر یونانی یا ہومیو پیتھی طریقہ علاج سے رجوع ہوں۔ یہ زیادہ صحت مند اور صحت کا ضامن ہے۔
ڈاکٹر ابو الفیض
پڈرونہ (یوپی)
ایک مشاہدہ
ماہ نامہ حجاب اسلامی گزشتہ ایک سال سے میرے مطالعے میں ہے اور میں اسے پسند کرتی ہوں۔ اس رسالے میں شائع ہونے والے مضامین خواتین اور اہل خانہ کے لیے مفید اور صحت مند لٹریچر کی ضرورت کو پورا کرنے والے ہیں۔ بچوں کی تعلیم و تربیت، معاشرتی و ازدواجی زندگی سے متعلق جس طرح کے سنجیدہ اور معیاری مضامین اس رسالے میں شائع ہوتے ہیں مجھے کسی دوسرے اردو رسالے میں پڑھنے کو نہیں ملے۔
میں فیملی کونسلنگ کے میدان میںکام کرتی ہوں۔ میرے سامنے آئے دن ایسے معاملے آتے ہیں جن میں شوہر بیوی کے جھگڑے انتہا کو پہنچے ہوتے ہیں۔ یہ جھگڑے صرف نو عمر شادی شدہ لوگوں کے ہی نہیں ہوتے بلکہ ایسے لوگوں کے بھی ہوتے ہیں جن کے بچے جوانی کی عمر کو پہنچ رہے ہوتے ہیں۔
میرا مشاہدہ ہے کہ اس سب کی بنیادی وجہ معاشرے میں بڑھتا ذہنی تناؤ ہے۔ مرد و خواتین ذہنی الجھن میں رہتے ہیں اور ایسے میں قوت برداشت جواب دے دیتی ہے۔ یہ مسئلہ ان لوگوں میں زیادہ ہے جہاں مرد و عورت دونوں کام کرتے ہیں۔ ظاہر ہے دونوں تھکے ہوتے ہیں کون کس کی خدمت اور غم گساری کرے۔ سب کچھ ہونے کے باوجود ان جانی چیز کی کمی کا احساس ہوتا ہے۔
ہم جب ان سے سوال جواب کرتے ہیں تو دونوں اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ جھگڑا تو بلاوجہ تھا اور ہم نے طول دے دیا۔
اس پوری وضاحت کا مطلب یہ ہے کہ خاندان کے استحکام اور پرسکون زندگی کے لیے دولت اور خوش حالی ہی کافی نہیں بلکہ اہل خانہ کے ساتھ وقت گزارنا اور ایک دوسری کی سننا سنانا بھی اہم ہے اور لوگوں کے پاس اسی کے لیے وقت نہیں۔ نتیجہ تشنگی اور لڑائی جھگڑے۔
اس معاملے میں رسول کریمؐ کی زندگی کامل اور مکمل نظر آتی ہے۔ مگر لوگ سیرت پاک کے اس پہلو کو نظر انداز کر جاتے ہیں۔lll
ام اکرام
(بذریعہ ای میل)