ایسا ہوتا تو نہیں…اس قدر بے بسی…
وہ چیخ مارنا چاہتا تھا…
ایک بھرپور چیخ… جو اس کے اندر زندگی کے احساس کو جگا دیتی۔ وہ ایسی کیفیت میں مبتلا ہوگیا تھا جو اس نے نہ کبھی دیکھی اور نہ سوچی ہی تھی۔ ایسا احساس تو کبھی بھی اس کے ادراک میں نہ آیا تھا۔ اس کیفیت نے اسے زندگی اور موت کے مفاہیم سے کوسوں دور لاکھڑا کیا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے پوری کائنات دھوئیں سے بھر گئی ہو۔ اس کے نتھنوں میں دھواں جا رہا تھا، آکسیجن یا پھر کوئی بو، وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔وہ کھڑا ہوگیا۔جیسے گائے کا پیدا ہونے والا نیا بچھڑا کانپتا ہوا کھڑا ہو جاتا ہے۔
کس طاقت نے اسے کھڑا کیا، وہ نہیں جانتا تھا۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے اس کے پاؤں کے نیچے بڑے بڑے غبارے رکھ دیے گئے ہوں اور وہ ہلکی سی پھونک سے دھڑام سے گر جائے گا۔
خون، مٹی اور بدبو نے اسے وہ عجیب ماحول دے دیا تھا، جس سے لگتا تھا کہ وہ بے وزن غبارے کی طرح کئی سوفٹ بلند تاریک خلاؤں کی طرف اچھال دیا گیا ہو۔ وہ کچھ بھی سننا چاہتا تھا لیکن کوئی آواز اس کے کانوں کو سنائی نہیں دے رہی تھی۔
مگر اسے تو ایسا لگتا تھا جیسے تمام آوازیں خاموش ہوگئی تھیں۔ خاموش… بالکل ایسے ہی جیسے کوئی بلند آواز میں چلتے ہوئے ٹیپ پلیئر کو اچانک میوٹ کردے۔ اس نے کسی عمل کے متعلق سوچنا ابھی شروع ہی نہیں کیا تھا کیوں کہ وہ اس عجیب و غریب کیفیت کے سحر سے باہر نہیں نکل پا رہا تھا۔
خدا… موت… ہوا… خلا… دنیا…
وہ سوچنے کی کوشش کرنے لگا۔
دنیا کے لفظ کا ذہن میں آنا تھا کہ اس کے ذہن نے سپارک (Spark) کیا۔
دنیا… میں… حادثہ… بلاسٹ … اس کے ذہن میں کوئی بھی فقرہ مکمل اور جامع شکل میں نہیں آرہا تھا۔ صرف الفاظ تھے جو بے جوڑ تھے۔ پھر بھی ان بے جوڑ لفظوں نے اس کے جامد ذہن میں تحریک پیدا کردی تھیـ۔ پھر اچانک اس کی سماعت سے ایمولینسز کے ہوٹرز کی دور سے آنے والی آوازیں ٹکرائیں۔ اس کے بعد اچانک ہی اس کو ایسے لگا جیسے کسی نے اس کے جسم کے ہر مسام میں بارود بھر کے اسے آگ لگا دی ہو۔
’’اوہ میرے خدا!‘‘ وہ درد سے کراہا…
دور …… دھوئیں میں اس کو ایمبولینس کی سرخ مدہم بتی نظر آنے لگی۔ اس کے بعد اس کے نتھنوں سے ایک بھرپور سانس خارج ہوئی اور وہ زمین پر دھڑام سے گر گیا بالکل ایسے ہی جیسے دوسرا جہاز ٹکرانے سے ٹوئن ٹاور کر گیا تھا۔lll