آخر کار ڈاکیہ پوچھتا یا پاچھتا حافظ عنایت اللہ کے گھر پر پہنچ ہی گیا۔ درازہ کھٹکھٹایا۔
کون؟
میں ڈاکیہ ہوں۔ جمال آرا کے نام رجسٹری ہے دستخط کردو اور یہ رجسٹری لے لو۔
دروازے کی اوٹ سے جمال آرا نے کہا۔ ابو ابھی نہیں ہیں کل آئیں گے تب ہی دے دینا۔
رجسٹری توجمال آرا کے نام ہے کسی ابو کے نام نہیں ہے آپ لینا چاہیں تو ٹھیک ہے ورنہ ہم واپس بھیج دیں گے اور لکھ دیں گے لینے سے انکار کیا۔ اسی اثنا میں جمال آرا کی والدہ اور بھابھی بھی آگئیں اور رجسٹری کا لفاطہ بادل نخواسہ لے لیا گیا اور جمال آرا نے لرزتے کانپتے ہاتھوں سے دستخط بھی کر دیے۔ ماں نے کہا اسے کھولو مت تمہارے ابو جب آجائیں گے تب کھولنا۔ اللہ اپنا فضل فرمائے نصر اللہ نے سادی ڈاک کی بجائے رجسٹری سے لفاطہ کیوں بھیجا۔ گھر میں اوروں کا حال جو تھا وہ تو تھا ہی مگر جمال آرا کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ پتہ نہیں کیا لکھا ہو۔ کہیں کوئی ایسا ویسا فیصلہ تو نہیں کر ڈالا۔ جمال آرااپنے کمرے میں چلی گئی اور آنکھیں بند کرے لیٹ گئی۔
وہ خود سے کہہ رہی تھی: جمال تمہارا کرا دھرا آخر تمہارے سامنے آہی گیا۔ سسرال جاتے وقت بھی اور اس سے قبل بھی تجھے تیری امی اور بھابھی نے کتنا سمجھایا تھا جمال بیٹے ماحول میں اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کرنا۔ جمال نیا ماحول نئی جگہ ہوگی اور چھوٹے بڑے سارے ہی لوگ اجنبی ہوں گے۔دور دراز کا معاملہ ہے ایک دم آنا جانا بھی ممکن نہیں ہوگا۔ وہاں ساری ہی چیزیں نئی ہوں گی۔ کیا کھانا اور کیا زبان۔ سب چیزوں کو اطمینان سے دیکھنا پرکھنا۔ ایک دم سے کوئی الٹا سیدھا فیصلہ مت کر بیٹھنا۔تم وہیں جارہی ہو جہاں تمہارا جوڑا لکھا تھا۔ وہ بہت اچھے لوگ ہیں۔ بس زیادہ کر و فر والے نہیں اور مکان بھی کچھ بڑا نہیں ہے لیکن تم جب سب کو اپنا بنا کر چلوگی تو سارا ماحول سازگار ہوجائے گا اور ہو سکتا ہے تمہیں اپنا میکہ بھی زیادہ یاد نہ آئے۔ لیکن افسوس جمال تمہیں کچھ بھی یاد نہیں۔ تم نے سسرال میں قدم رکھتے ہی یہ طے کرلیا کہ میں یہاں نہیں رہوں گی۔ تمہیں سب نے ایسا پیار ایسی محبت دی جس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ تمہیں ہفتوں کام کرنے بھی نہیں دیا حالاں کہ تم خود دیکھتی تھیں تمہاری ساس اماں کا کیا حال تھا۔ ایک دن تو ان کو سخت دورہ بھی پڑ گیا تھا لیکن تم ٹس سے مس نہیں ہوئیں۔ پڑوس کی ایک عورت نے آکر ہوش میں لانے کی کوش کی پھر جب تم نے کام کاج سنبھالنا شروع کیا تو تمہاری کسی بھی غلطی یا خامی پر کسی ردعمل یا ناگواری کا اظہار نہیں کیا گیا۔ تم گھنٹوں اپنے میکے کے لوگوں سے فون پر باتیں کرتیں مگر کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ نصر اللہ کو کبھی تمہاری کوئی بات ناگوار گزرتی تو امی فوراً ڈانٹ دیتیں۔ سارے رشتہ دار کیا قریب کیا دور کے تمہیں اپنے سے بھی زیادہ چاہتے تھے مگر افسوس تم نے بھری تھالی میں لات ماری۔ کسی بھی چیز کو نظر میں نہیں لائیں ہر وقت اکھڑے اکھڑے انداز میں بات کرتیں اس پر مزید حماقت یہ کہ خود ہی اپنی زندگی کی دشمن ہوگئیں۔ اس کو کھونے کا فیصلہ کرلیا اگر خدا نخواستہ اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل نہ فرمایا ہوتا اور جان نہ بچتی تو دنیا و عقبی دونوں تو ہاتھ سے گئے ہی تھے ان دونوں خاندانوں کا کیا ہوتا۔ تمہاری ہر ممکن دوا دارو مرہم پٹی کرائی گئی مگر تم نے اعتراف غلطی یا ہمدردی نہیں کیا بلکہ برابر اصرار کرتی رہیں کہ مجھے میرے گھر پہنچا دو۔ میرا دل یہاں نہیں لگ رہا ہے۔ اب تم اپنے میکے آگئی ہو۔ اب کاٹو اپنا بویا ہوا۔ اگر ڈھنگ سے رہی ہوتیں، سب کی محبت کی قدر کی ہوتی تو آج اس رجسٹری کی صورت دیکھنی نہ پڑتی اب بھگتو اپنی کرتوتوں کا خمیازہ۔
جمال آرا کو اسی ادھیڑ بن میں گھنٹوں ہوگئے۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اگر انھوں نے کوئی ایسا ویسا فیصلہ کرلیا تو میرا کیا ہوگا اب تو میں نے خط وصول کرلیا ہے۔ وصولیابی کے دستخط بھی کردیے ہیں۔ میں یہ کہہ ہی نہیں سکتی کہ خط مجھے نہیں ملا۔ میرے اللہ مجھے سنبھال ۔ میں اپنے تمام گناہوں سے توبہ کرتی ہوں اور تجھ سے وعدہ کرتی ہوں آئندہ کبھی ناشکری نہیں کروں گی۔ میرے اللہ تو مجھے معاف کردے بس اس بار معاف کردے میری تمام غلطیوں کو۔ میں تیری بہت ہی نیک بندی بن کر دکھاؤں گی اور ہر حال میں صابر و شاکر رہوں گی۔ اسی شش و پنج میں جمال کو نہ جانے کب نیند آگئی اور وہ سو گئی۔
صبح کو خلاف معمول سویرے اٹھی۔ فجر کی نماز ادا کی۔ قرآن کریم لے کر بیٹھ گئی۔ اس آیت ’’اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو۔‘‘ کو بار بار پڑھتی رہی اور آنسوؤں سے اپنا منہ دھوتی رہی۔ اس کا ماضی اب بھی اس کا پیچھا کر رہا تھا۔ میرے اللہ میرے حالات درست کردے۔ میرے اوپر رحم فرما۔ تو ہی میرا وکیل ہے، تو ہی میرا حامی و ناصر ہے، مالک مجھے رسوا ہونے سے بچا لے۔
دوپہر تک جمال کے والد بھی آگئے۔ دیکھا گھر میں ہیں تو سب ہی مگر سب اداس ، بجھے ہوئے چہرے، عجیب خاموشی، آتے ہی پوچھا کیا ہوا۔ یہ سکوت کیسا، خیر تو ہے۔ جمال کی والدہ نے آگے بڑھ کر کہا سب خیریت ہی ہے بس ایک رجسٹری آئی ہے جمال آرا کے نام۔ پڑھی تو نہیں ہے ڈر یہ ہے کہ خدانخواستہ اس میں کوئی ایسی بات نہ ہو کہ جمال کی زندگی کے لینے کے دینے پڑ جائیں بس یہی بات ہے اور کچھ نہیں۔ آپ کا انتظار تھا۔
لاؤ چھٹی ادھر لاؤ اب تو ایک چیز لے لی گئی تو اس کو جاننا پڑھنا ضروری ہے۔ اس میں کون کیا کرسکتا ہے۔ اس کو فوراً ہی پڑھ لینا چاہیے تھا، آج زمانہ بہت آگے پہنچ گیا ہے پتہ نہیں تم کون سی دنیا میں رہ رہے ہو۔
حافظ صاحب نے خاموشی سے پوری تحریر پڑھی اور جمال آرا کو دیتے ہوئے بولے لو پڑھو اور خوش ہو جاؤ تمہارے صاحب ایک دو دن میں آنے والے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کتنی ہی بار تم لوگوں نے یہ آیت پڑھی ’’اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہو‘‘ پھر بھی منہ لٹکے ہوئے ہیں چہروں پر کلونس چھائی ہوئی ہے جاؤ اندر جاکر اطمینان سے پڑھو۔
جمال آرا نے لرزتے کانپتے ہاتھوں سے خط لیا اور کمرے میں جاکر خط پڑھنے بیٹھ گئی۔ لکھا تھا:
راحتِ جاں جمال آرا سلمہا!
تم پر اللہ کی سلامتیاں اور رحمتیں۔ میں مصروفیت کی بنا پر تمہیں خط تو لکھ ہی نہ سکا فون بھی نہ کر سکا۔ آج فرصت پائی تو چند سطور لکھنے بیٹھ گیا ہوں۔ فون پر تو واجبی طور سے چند باتیں ہوجاتی ہیں اور وہ بھی پھر ہوا میں تحلیل ہوجاتی ہیں۔ خط ایک مضبوط چیز ہے محفوظ بھی کیا جاسکتا ہے اور بار بار پڑھا بھی جاسکتا ہے۔ اسی خیال سے یہ خط لکھنے بیٹھ گیا ہوں۔ ڈاک کا نظام اتنا خراب ہے کہ کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ اسی خیال سے سوچتا ہوں بھلے ہی کچھ پیسے زیادہ خرچ ہوجائیں خط بذریعہ رجسٹری ہی بھیجوں تاکہ بھیجنے کی طرف سے بھی اطمینان ہو اور وصول یابی کی طرف سے بھی۔
جب سے تم گئی ہو گھر میں سناٹا ہی چھایا رہتا ہے۔ نہ کچھ کھانے کو جی چاہتا ہے نہ پکانے کو۔ نصر اللہ کا حال یہ ہے کہ ہر وقت اس کی آنکھ میں آنسو تیرتے رہتے ہیں۔ پہلے ہی سے اس کی خاموش رہنے کی عادت تھی اب بالکل ہی خاموش رہتا ہے ہر وقت کھویا کھویا۔ جب بھی اس سے بات کرنے کی کوشش کرتا ہوں بس ’ہوں‘ ہاں ہی میں جواب دیتا ہے۔ اس سے آگے کچھ نہیں۔
جمال موت کتنی بھی حسین کیوں نہ ہو زندگی سے خوب صورت نہیں ہوسکتی اور زندگی کا حال یہ ہے کہ چند روزہ ہے۔ ناپائیدار ہے اس کی کامیابی اسی میں پوشیدہ ہے کہ اسے صبر و شکر کے ساتھ گزرا جائے۔ عفو و درگزر کے ساتھ گزارا جائے اللہ کے بیش قیمت عطیہ و امانت کے احساس کے ساتھ گزرا جائے۔ تمہارے آنے سے ہمارے گھر میں نئی روشنی آئی، یہ روشنی اب ضائع نہ ہوجائے، گل نہ ہوجائے، ہم نے سب کچھ بھلا دیا۔ تم بھی اپنے دل کو صاف کرلو۔ میں جلد ہی نصر اللہ کو بھیج رہا ہوں۔ اللہ ہمارا سب کا حامی و ناصر ہو۔ اچھا… خدا حافظ، دعا گو تمہارا۔
ابو نصر اللہ۔
جمال آرا نے خط پڑھا تو بے اختیار سجدے میں گر گئی۔ میرے لیے اس درجہ عفو و در گزر وہ دیر تک اللہ سے دعا کرتی رہی۔ میں اب یہاں نہیں رہوں گی، واپس جاؤں گی اپنے اللہ اور اپنے خاندان کی خوشنودیاں سمیٹوں گی۔ اپنے قول و فعل سے ثابت کروں گی کہ دیکھو صبر و شکر کی زندگی ایسی ہوتی ہے۔ میرے اللہ تو مجھے واپس بھیج دے۔
جمال اپنا چہرہ صاف کرتے ہوئے اپنے کمرے سے نکلی او رخط اپنی والدہ کو دیتے ہوئے کہا۔ امی میرا سامان درست کردو میں اب یہاں ایک پل کے لیے بھی رکنا نہیں چاہتی۔ ماں نے بیٹی کو سینے سے لگا لیا۔ سر پر ہاتھ پھیرا، تسلی و تشفی دی، جانے آنے کی بات تو جوہائے گی لے پہلے ذرا سا دو گھونٹ دودھ تو پی لے۔ کل سے یونہی بھوکی پیاسی پڑی ہے۔ نہ ایک نوالہ ہی کھایا اور نہ ایک گھونٹ پانی ہی پیا۔ بس بھوکی پیاسی پڑی ہے۔
ماں نے زبردستی اس کے ہاتھ میں دودھ کا گلاس دیا۔ لے پی۔ جمال آرا کے چہرے پر ذرا شگفتگی نمودار ہوئی اور وہ دیر تک ماں کی گود میں بیٹھی رہی۔ اسی اثنا موبائل کی گھنٹی بجی۔
جی …ہیلو… میں بول رہا ہوں نصر اللہ… جی
وہ ابھی پندرہ منٹ ہوئے ابو کا اچانک انتقال ہوگیا اور جمال ماں کی گود میں ڈھیر ہوگئی۔lll