عائشہ کی خودکشی اور مسلم سماج

شمشاد حسین فلاحی

احمدآباد کی عائشہ کے دو کلپ، جن میں ایک ویڈیو اور ایک آڈیو کلپ ہے، سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہوئے، انھیں لاکھوں لوگوں نے دیکھا۔ آپ بھی ان کلپس کو دیکھئے ہوسکتا ہے کہ آپ کی آنکھیں ابل پڑیں اور آپ کا دل بھی اس درد اور تکلیف کو محسوس کرسکے جسے سماج کے حساس دل لوگوں نے محسوس کیا۔ ایک کلپ وہ ہے جس میں وہ ہنستے مسکراتے اپنی خودکشی کرنے کے اقدام کی اطلاع دے رہی ہے اور دوسرا وہ ہے جس میں وہ اپنے ماں باپ سے اس کے بعد گفتگو کررہی ہے۔ اس میں اس کے والد اسے اس کام سے باز آنے کے لیے کہہ رہے ہیں کہ بیٹی تیرا نام اماں عائشہ کے مبارک نام پر رکھا گیا ہے…. تجھے قرآن مجید کی قسم تو واپس آجا….

اس کے جواب میں وہ کہتی ہے کہ ’’میں مبارک تقدیر لے کر نہیںآئی۔‘‘ اس نے ویڈیو میں کہا کہ ’’یہ خوبصورت ندی ہے اور میں اس میں سما جانا چاہتی ہوں‘‘ اور پھر وہ اس میں سما گئی۔ وہ عائشہ جو کل تک تھی اب نہیں رہی۔

عائشہ اسمارٹ اور خوبصورت تھی، وہ تعلیم یافتہ بھی تھی اور کہا جارہا ہے کہ وہ ملک کے معروف بینک ICICI میں کام کرتی تھی اور ظالم جہیز اور لالچی سسرال والو ں کے لالچ کی بھینٹ چڑھ گئی۔ وہ مرگئی مگر سماج اور خاص طور پر مسلم معاشرے کے منہ پر زناٹے دار طمانچے لگاتی گئی ہے۔ اس مسلم معاشرے کے منھ پر طمانچے جس کی دینی قیادت اپنی تحریروں اور اپنی تقریروں میں عوام کو یہ باور کراتی رہتی ہے کہ ان کا معاشرہ دیگرمعاشروں سے بہت بہتر اور محفوظ ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ لوگ واقعی اتنے سادہ ہیں کہ انہیں مسلم معاشرے کی اندرونی اور بیرونی خرابیاں نظر نہیں آتیں یا وہ اتنے چالاک اور مکار ہیں کہ عوام الناس کو ایک ’خیالی محفوظ‘ معاشرے میں زندہ رہنے کا یقین دلاتے ہیں۔ حقیقت جو بھی ہو، اتنا طے ہے کہ مسلم معاشرہ بھی ذرا بہت کمی و بیشی کے ساتھ ان تمام برائیوں میں برابر کا شریک ہے جو دیگر معاشروں میں پائی جاتی ہیں اور یہ بھی یقینی بات اور حقیقت ہے کہ نہ تو ملک کی نوجوان لڑکیوں میں اور نہ ہی ملت کے افراد میں عائشہ تنہا ہے، جس نے جہیز کے لیے ستائے جانے سے تنگ آکر خود کشی کرلی ہے۔ یہاں خودکشیاں بھی خوب ہوتی ہیں اور جہیز کے لیے قتل بھی خوب ہوتے ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ عائشہ سوشل میڈیا کے سبب معروف ہوگئی ورنہ کتنی عائشائیں ہیں جو گمنامی کے سمندر میں غرق ہوکر جان سے چلی گئیں۔ یقین نہ ہو تو دیکھئے:

یہ سلمیٰ ہے مرادآباد ضلع کے ایک گاؤں کی بیٹی! اس کی شادی کو محض چار سال ہوئے ہیں۔ اور ان چار سالوں میں وہ سسرال میں نہیں، جہنم میں زندگی گزار رہی تھی۔ وجہ کیا ہے؟ وہی جہیز جو سماج میں لاکھوں لڑکیوں کی زندگیوں کو جہنم بنائے ہوئے ہے اور جس کے جواز کے لیے ’’ملاَّ گرد‘‘ حضرت علی اور فاطمہ بنت محمدؐ کی شادی کو پیش کرتے ہیں۔ سلمیٰ کا شوہر اسے اور اس کی تین سالہ بیٹی کو میکے گھمانے کے بہانے جہیز میں ملی موٹر سائیکل پر بٹھا کر نکلا۔ایک ندی کے پل پر اس نے گاڑی روکی، جہاں دو آدمی اور ملےاور پل کے نیچے لے جاکر ایک بھاری اور موٹی راڈ سے اس کا سر کچل دیا۔ پھر اسی راڈ سے گاڑی کی ہیڈ لائٹ توڑ دی تاکہ ایکسیڈنٹ کا کیس بتاسکے۔ پولیس کیس بنا مگر والدین نے یہ کہہ پیچھا چھڑا لیا کہ اب کیا فائدہ ہماری سلمیٰ تو واپس نہیں آسکتی۔ اور دیکھئے یہ جہاں آراء ہے، سہارنپور کی، جس کی شادی بجنور کے نجیب آباد میں ہوئی ہے۔ اس کی ماں لڑائی جھگڑے کی خبر سن کر اس کی سسرال کے لوگوں سے بات کرنے کے لیے نجیب آباد آئی ہوئی ہے۔ وہ گھر کے ایک کمرے میں لوگوں سے بات کررہی ہے۔ دوسرے کمرے سے چیخ و پکار کی آواز آتی ہے۔ نکل کر دیکھتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کے جگر کا ٹکڑاپٹرول کی آگ میں دہک رہا ہے۔ کس قدر ’’دیدہ دلیری، ضلالت اور دیوسیت کی بات ‘ ‘ ہے کہ ماں کے سامنے ہی اس کی بیٹی کو جلادیا جاتا ہے اور پھر … ہفتہ دس دن دہلی کے صفدر جنگ اسپتال میں 90% جل کر موت و زندگی کی کشمش میں ہار جاتی ہے۔ یاد رہے کہ یہ ہمارے ’’محفوظ مسلم معاشرے‘‘ کی ہی تصویریں ہیں۔ ایسی تصویریں ہوسکتا ہے آپ کو اپنے آس پاس بھی نظر آجائیں۔

احمد آباد کی عائشہ ہی اکیلی مظلوم نہیں۔ یہاں ہزاروں عائشائیں ہیں جو جہیز کے لیے ستائی جانے والی، زندگی سے تنگ آکر موت کو گلے لگالیتی ہیں۔ اسی طرح صرف عارف ہی ظالم نہیں جو جہیز کے لیے اپنی رفیقِ حیات کو، جو اس سے ٹوٹ کر محبت کرتی تھی، ستاتا تھا، یہاں ہزاروں عارف موجود ہیں۔ ہم بھی عارف ہی ہیں، ہمارے خاندان بھی عارف ہی ہیں اور ہمارا سماج بھی عارفوں کا ہی سماج ہے۔ یہاں قانون اور نظامِ حکومت بھی ظالم ہے جو حق و انصاف کی فراہمی میں ناکام ہی نہیں رہتا بلکہ بعض اوقات ظالم کا عملاً مؤید بن جاتا ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر ہمارے علماء اور وہ لوگ بھی جو اصلاحِ معاشرہ کا دم بھرتے اور اس کے لیے سجے سجائے اسٹیجوں پر دھواں دھار تقریریں کرتے ہیں یا تو عارف ہیںیا عارفوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم بھی عارف ہیں کہ اپنے بچوں کی شادیوں میں زیادہ سے زیادہ مل جانے کا خیال کہیں نہ کہیں دلوں میں دور اندر پالے رہتے ہیں۔ ہمارا خاندان بھی عارف کا خاندان ہے جہاں کی عورتیں آنے والی بہو کو طعنے دیتی ہیں اور ہمارا سماج بھی جہاں عائشاؤں کو جہیز کے لیے تنگ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا اور ہمارے علما ء اور مشائخ بھی کہ وہ اپنے بیٹوں کی شادیوں میں ’’حسبِ توفیقِ الٰہی جہیز کو ہذا من فضل ربی کے طور پر سمیٹتے ہیں‘‘ اور اس کا جواز فاطمہ بنت محمدؐ کی شادی کو پیش کرکے فراہم کرتے ہیں۔ تین طلاق کی لعنت کو باقی رکھنے کے لیے میدان سے لےکر سپریم کورٹ تک لڑائی لڑنے کا دم بھرنے والے اور اسے عملاً ثابت کردینے والے یہ مفاد پرست، سیاسی غلام اور دین فروش اور ملت کا سودا کرنے والے کیا کبھی تین طلاق کی حمایت سے کچھ کم بھی جہیز کی مخالفت اور اس کے نقصانات پر بولتے نظر آئے۔ کبھی نہیں۔ یہ معاشرتی برائیاں تو ان کے ایجنڈے کا حصہ ہی نہیں ہیں، بلکہ اسے وہ’’محفوظ مسلم معاشرے کی موہوم چادر‘‘ میں لپیٹ کر رکھتے ہیں اور اسی کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کسی بھی امیر شریعت نے، کسی بھی پیرِ طریقت نے، کسی بھی حضرت مولانا نے، کسی بھی قائد ملت نے، کسی بھی نقیب و خطیب ملت نے انفرادی یا اجتماعی طور پر اس لعنت کو اس طرح موضوع بحث یا مہم کا عنوان آج تک نہیں بنایا جس طرح راجہ رام موہن رائے نے ستی کو بناکر اس کا خاتمہ ممکن بنایا تھا۔ ان کی بے حسی کا عالم تو یہ ہے کہ تا حال کسی قابلِ ذکر قائد ملت، عالم ذی شعور، مفتی با خلوص یا مہتمم دارالعلوم و جامعہ کا کوئی ٹویٹ یا فیس بک تبصرہ تک نظر نہیں آیا۔ ہاں، کچھ ’’اللہ کے مقرب اور سکریٹری ٹائپ‘‘ لوگوں کے سرٹی فیکٹ ضرور نظر آئے جنھوں نے اسے جہنمی قرار دیا۔ ایسے ’جہالت سے بھرے عالم‘ ان زمینی حقائق کو بھول جاتے ہیں کہ عائشہ جیسی لڑکیاں ایسا کیوں کرتی ہیں۔ وہ ایسا صرف اور صرف اس وجہ سے کرتی ہیں کہ انہیں اپنے خاندان میں بھی کوئی سہارا دینے والا، ان کے مسائل کو سمجھنے اور تسلی دینے والا نظر نہیں آتا۔ والدین کو وہ مجبور و بے بس دیکھتی ہیں اور سماج کو لنگڑا لولا، قانون اور نظام کو وہ اندھا بہرا دیکھتی ہیں اور مذہبی قیادت کو بے حس و ناکارہ اور مایوسی کے اس عالم میں انہیں کوئی امید نظر نہیں آتی۔ یہی مایوسی سب سے بڑی بیماری ہے جو آخر ان کی جان لے لیتی ہے۔ اب کوئی اس پر کفر کا فتویٰ جاری کرے یا جہنم کا سرٹیفیکٹ یا پھر جہنم کے عذاب کی وعیدیں سنائے، زندگی کے عملی عذاب کے مقابلے ان کے سامنے یہ سب باتیں چھوٹی اور معمولی نظر آتی ہیں، اسی لیے تو وہ موت کو گلے لگالیتی ہیں۔ ان کا یہ طرزِ فکروعمل تو کفر کا فتویٰ دینے والوں، جہنم کا سرٹیفیکٹ جاری کرنے والوں اور جہنم کے عذاب سے ڈرانے والے واعظوں کے منھ پر خود ایک طمانچہ اور ان کے لیے غوروفکر کا اہم مقام ہے۔

ملتِ اسلامیہ ہند کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ رہی ہے اور آج بھی ہے کہ یہاں سماجی اور معاشرتی برائیاں اور مسائل صرف فتوؤں کا موضوع رہے ہیں۔ یہ جائز ہے اور وہ ناجائز، یہ حلال ہے اور وہ حرام اور بس۔ ناجائز کی بیخ کنی اور حرام کے خاتمے کے لیے کبھی کوئی تحریک نہ علماء نے چلائی اور نہ عوام الناس میں سے ہی کچھ باشعور لوگ اٹھے جو انھیں مٹانے کے لیے جدوجہد کرتے اور سماج و معاشرے کو ان کے نقصانات بتاکر ان سے پاک کرنے کی کوشش کرتے۔ کرتے بھی کیسے اور کیوں کہ ان کی اپنی زندگیاں خود انہی میں لت پت تھیں اور آج بھی ہیں۔ جبکہ حکومت وقت سے لڑنے میں وہ اپنی پوری توانائی لگاتے رہے ہیں دین اور شریعت کو خطرے میں بتاکر۔ جی ہاں یہ آسان بھی ہے اور عوام کے جذبات کو مہمیز دے کر ان کی حمایت کے حصول اور اپنی مقبولیت کا ذریعہ بھی۔ اس کے مقابلے میں اپنے ہی عوام اور اپنی ہی ملت سے ان کے درمیان پائی جانے والی کمزوریوں اور خامیوں کے خلاف جنگ کرنا حوصلہ مندی، محنت اور خلوص کا متقاضی بھی ہے اور اندیشوں اور امکانات دونوں سے بھرا بھی۔ اس کام میں مقبولیت کی کمی کا اندیشہ بھی ہوتا ہے اور شخصیت کو کئی قسم کےنقصانات پہنچ جانے کا خطرہ بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے علماء ’’دین نما سیاسی اشوز‘‘ پر تو خوب بولتےبھی ہیں اور لڑتے بھی ہیں لیکن جب عوام کے اندر اسلام کا حقیقی شعور بیدار کرنے اور ان کی زندگیوں کو قرآن و حدیث اور اسلامی شریعت کی بنیادوں پر استوار کرنے کی بات آتی ہے تو ان کی ’’دین پر اجارہ داری‘‘ کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے اور بات جائز وناجائز اور حلال و حرام کے فتوؤں سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔ انہیں مسلمانوں کے پرسنل لاء سے دلچسپی ہے مگر اسلام اور اس پرسنل لاء پر مسلمانوں کو عمل پیرا کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ اسے کاغذ پر دیکھنے کے اور باقی رکھنے کے تو بڑے خواہش مند ہیں مگر عملی زندگیوں میں نافذ کرانے کی ذرا بھی فکر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نام کی ہی سہی، ملی قیادت پر لوگوں کا اعتماد کم ہوا ہے اور اس کا وقار بھی مجروح ہوا ہے اور نئی نسل انہیں امید کی نظروں سے دیکھنے کے بجائے تنقید بلکہ تنقیص کی نظروں سے دیکھنے لگی۔ ایسا اس وجہ سے ہے کہ گزشتہ کم از کم نصف صدی میں انھوں نے ملت کو کافی مایوس کیا ہے۔

کوئی یہ سوچ سکتا ہے کہ اس معاملے میں علماء کو ہدفِ تنقید بنانا درست نہیں۔ جی ہاں! لیکن کیا یہ ذمہ داری کسی اور کی ہے کہ سماج و معاشرے کی اصلاح پر توجہ دی جائے اور وہاں پنپنے والی پربرائیوں پر نگاہ رکھی جائے اور اصلاح کی کوشش کی جائے۔ معاشرے میں اسلام کی روح کو اتارنے اور شریعت کے احکامات سے آگاہ کرنے کی کوشش ہو۔ بدقسمتی یہ ہے کہ جن کی یہ ذمہ داری تھی وہ آمین بالجہر اور حضورپاکؐ عالم الغیب تھے یا نہیں، قرآن کو سمجھ کر پڑھنا جائز ہے یا ناجائز، قرآن عوام پڑھیں یا علماء، غیر مسلموں کو دین کی دعوت دینا جائز ہے یا نا جائز، قرآن غیر مسلموں کو دیا جاسکتا ہے یا نہیں، شیعہ مسلمان ہیں یا کافر، دیوبندی اسلام کے دائرے میں ہیں یا باہر، وہابی کافرہیں یا صاحبِ ایمان جیسے ’اہم موضوعات پر بحثیں‘ مناظرے، کتابیں لکھنے کے کام میں مصروف تھے اور آج بھی ہیں۔ ان ’اہم‘  موضوعات سے ہٹ کر یہ سوچنے کا ان کے پاس کم ہی وقت رہا ہے کہ ایمان کے دعوے داروں کی زندگیوں کو اسلامی کیسے بنایا جائے، ان کے عقیدے اور عمل میں درآئی خرابیوں کو کیسے دور کیا جائے اور مسلم سماج کو اسلامی سماج کس طرح بنایا جائے۔ حالانکہ ہماری بقاء اور خیر اسی میں ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کے سررشتے کو اسلام سے مضبوطی کے ساتھ جوڑنے کی سنجیدہ کوشش کریں۔

جہیز ایک سماجی برائی ہے جس نے پورے ہندوستانی سماج کو، تھوڑے بہت فرق اور شکلوں کی تبدیلی کے ساتھ، اپنی گرفت میں جکڑ رکھا ہے، بیماری جتنی شدید اور ہمہ گیر ہے، اسے دیکھتے ہوئے ضروری ہے کہ اس سے چھٹکارے کے لیے کوششیں بھی مضبوط، منصوبہ بند اور ہمہ گیر نوعیت کی ہوں۔ ان کوششوں کے لیے شعور و احساس کی بیداری تو بنیادی طور پر انہی پیشواؤں کی تھی جو بزعمِ خود ہمارے قائد اور رہنمائی کے مقام پر خود کو فائز سمجھتے ہیں اور مختلف مواقع پر ہمارے وقار اور وجود تک کا سودا کرنے کے لیے مواقع تلاش کرتے رہتے ہیں مگر یہ جب ہمارے درمیان ہوتے ہیں تو بڑے ناصحانہ اور خیرخواہانہ انداز میں ہمیں do’sاور don’tsبتاتے ہیں۔

یہ ذمہ داری ملی تنظیموں اور اداروں کی تھی کہ وہ لوگوں کو ان سماجی و معاشرتی برائیوں سے آگاہ بھی کرتے اور ان کے خلاف کمر بستہ بھی کرتے جنھوں نے ان کی زندگیوں سے سکون چھین لیا ہے مگر یہ ادارے اور ملی پلیٹ فارم اب کسی صاحب فراش آخری سانسیں گنتے مریض کی طرح ناتوانی کے عالم میں پڑے ہیں جس کے علاج میں بڑے مالی مصارف لگ رہے ہیں، مگر زندگی کی امید کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے۔ اس لیے اب عوام الناس اور باشعور افراد ہی کو اس کی کمان سنبھالنی ہوگی اور جدوجہد کو عوامی بیداری میں تبدیل کرنا ہوگا۔ ہمارے خیال میں یہ مسئلہ صرف مسلم سماج کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ مسلم سماج سے زیادہ بڑا مسئلہ دوسرے مذہبی معاشروں کا بھی ہے۔ اس لیے یہ تحریک مسلمانوں کی تحریک نہیں بلکہ ہندوستانی عوام کی تحریک کے طور پر برپا کی جانی چاہئے۔ ہماری اس تحریر کے مخاطب کیوں کہ اردو داں لوگ ہیں اور مسلمانوں کا گروہ ہے، اس لیےہم نے یہ گفتگو مسلم سماج کے تناظر میں کی ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ مسلمانوں کے پاس معاشرتی زندگی کے لیے الٰہی ہدایات موجود ہیں اور اگر وہ اپنی معاشرتی زندگی میں ان ہدایات کو نافذ کرکے ایک مثالی سماج بنالیتے ہیں تو یہ خود ایک بڑا اصلاحی قدم ہوگا اور غیر مسلم معاشرہ اسے رشک کی نگاہوں سے دیکھے گا اور ہندوستان میں دعوت دین کے لیے نئے امکانات پیدا کرے گا۔

مسلم سماج اس سلسلے میں پہلا قدم یہ اٹھا سکتا ہے کہ وہ خود کو اسلام کی تعلیمات سے جوڑے، اپنا احتساب کرے اور مسلم سماج کو اسلامی سماج میں بدلنے کا بیڑا اٹھائے اورایک ایسی نسل تیار کرنے کی فکر کرے جو پُرعزم ہو، مضبوط اور محنتی ہو اور اپنے بازوؤں کی کمائی اور اپنی جدوجہد اور اللہ کے فضل و کرم پر یقین رکھنے والی اور جہیز کے لالچ سے پاک ہو۔ ہمارے ذہن و فکر اس برائی کے نقصانات اور تباہ کاریوں کا حقیقی ادراک رکھتے ہوں اور اسے ہر حال میں دفن کرنے کی فکر رکھتے ہوں۔ جہاں ہمیں اپنے لڑکیوں کے ذہن و فکر کو اس برائی کے خاتمہ کے لیے تیار کرنا ہے، وہیں اپنی بیٹیوں اور سماج کی لڑکیوں کو اتنا مضبوط اور مستحکم بنانا ہے کہ اگر ان کے سامنے اس طرح کے حالات پیش آئیں تو وہ بے خوفی، حکمت اور بہادری کے ساتھ ان سے بہتر طریقے سے نمٹ سکیں، مایوسی اور شکست خوردگی ان کے قریب نہ آنے پائے اور سماج و معاشرے کی اس برائی کے خلاف ان کا جذبۂ جدوجہد انہیں ہمیشہ طاقت، حوصلہ اور کامیابی کا یقین فراہم کرتا رہے۔

جہاں ہمیں اپنی بیٹیوں کے ذہن و فکر کو اس قدر مضبوط اور ان کے اعصاب و عزائم کو تقویت دینی ہے وہیں ایسے حالات میں ان کی خبر گیری کے ساتھ ساتھ جذباتی سپورٹ اور تعاون کا بھی یقین دلائے رکھنا ہے اور وہ سب کچھ کرنا ہے جو ظالم معاشرے کو شکست دینے کے لیے ضروری ہے۔ باپ یا بھائی موجودہ حالات میں بیٹی کی شادی کردینے بھر سے مطمئن نہ ہوجائیں بلکہ غیر ضروری مداخلت سے بچتے ہوئے ان کے حالات و کوائف پر بھی نظر رکھیں اور ان کی ازدواجی زندگی کو بہتر سے بہتر بنائے رکھنے کی فکر بھی رکھیں اور کوشش بھی۔ شادی کے بعد بیٹی سے کنارہ کش ہوجانا اور یہ تصور کرلینا کہ اب اسے ہی سب کچھ کرنا ہے اس قسم کے واقعات کا سبب بن سکتا ہے۔

جہیز کے خلاف سماجی بیداری کی تحریک کیسے چلائی جاسکتی ہے اور اس کانقشۂ کار کیا ہو، اس پر اگلے ماہ کچھ پیش کیا جائے گا۔ (باقی آئندہ ماہ)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں