میں ڈاکٹر ’’بشر الزہرانی‘‘ ایک فلسطینی شہری ہوں۔ رفاہ کے ایک اسپتال کا سینئر ڈاکٹر۔ مجھے جاننے والے کہتے ہیں کہ مسکراہٹ میرے ہونٹوں سے جدا نہیں ہوتی، میرے ساتھی کہتے ہیں کہ میں ایک زندہ شخص ہوں مگر کسی کو کیا معلوم کہ میری مسکراہٹ کے پیچھے درد و کرب کی کتنی داستانیں نہاں ہیں۔ ایک مسیحا، ہر وقت ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنے والا، ہر مریض کے درد کو سمیٹ کر اس کے چہرے پر مسکراہٹیں بکھیرنے والا مسیحا! حقیقت کیا ہے؟ آئیے میں اپنی مسکراہٹوں تلے چھپی ایک خاموش داستان آپ کو سناؤں۔ شاید آپ ہی بتا سکیں کہ اسپتال میں ہنستے مسکراتے نظر آنے والے ڈاکٹر بشر الزہرانی اور القدس کے بشر میں کتنا فرق ہے؟
…٭…
وہ بھی کتنا سنہرا زمانہ تھا۔ میرے ہنستے مسکراتے بچپن کا زمانہ۔ میں نے اپنا بچپن اپنے والدین اور بھائیوں کے سنگ گزارا۔ میرے بابا سرجن بشار الزہرانی القدس کے نامور سرجن تھے۔ میری ماں الازہر یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھیں۔ میں نے القدس (فلسطین) کے ایک خوش حال گھرانے میں آنکھ کھولی۔ جب میں نے جنم لیا تو میرے دونوں بڑے بھائی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انگلینڈ میں مقیم تھے۔ میں اپنے ماں باپ کی آخری اولاد تھا۔ پھر صرف میں ہی ان کے پاس تھا اس لیے انھوں نے مجھے بہت لاڈ پیار سے پالا۔ انھوں نے میری ہر خواہش کو کہے بغیر پورا کیا۔ میرے بھائی جب بھی چھٹیوں میں گھر آتے مجھے دیوانوں کی طرح پیار کرتے۔ اسی لاڈ پیار سے میں بچپن سے نکل کر لڑکپن میں داخل ہوگیا۔ انہی دنوں القدس میں حالات خراب ہونے شروع ہوگئے۔ صیہونی فلسطینی مسلمانوں کو طرح طرح سے تنگ کرنے لگے۔ القدس کی سرزمین ہم پر تنگ ہونے لگی۔ نصر الزہرانی او رمشعر الزہرانی میرے دونوں بھائی انگلینڈ میں مستقل سکونت اختیار کرچکے تھے۔ انھوں نے بابا سے بہت کہا کہ فلسطین کو چھوڑ کر ان کے پاس آجائیں، مگر بابا کا کہنا تھا کہ وہ القدس کو مر کر بھی نہیں چھوڑیں گے۔ بھلا وہ اپنے اسلاف کی سرزمین کو کیسے چھوڑ سکتے تھے جہاں ان کے آباو اجداد کا خون گرا تھا۔ میں اپنے دونوں بھائیوں سے مختلف تھا۔ میں اپنے بابا جیسا بننا چاہتا تھا۔ القدس سے محبت کرنے والا، ایک درد مند مسیحا، سب کے دکھوں کو سمیٹ لینے والا مسیحا۔ اسی لیے میں نے میڈیکل کا انتخاب کیا۔ میں ہاؤس جاب کر رہا تھا جب بابا اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں اپنے رب سے جا ملے۔ وہ ہمیشہ کی طرح اس دن بھی درد مندوں کی مسیحائی میں مصروف تھے، جب اجل کا بلاوا انہیں ہم سب سے دور لے گیا۔ مجھے اس دن کا کرب آج بھی تڑپا دیتا ہے۔جب اپنے باپ کی خون میں ڈوبی لاش کو میں نے القدس کی سرزمین میں دفن کیا تھا۔ میری ماں بابا کی جدائی برداشت نہ کرسکیں اور چند ماہ بعد ہی بابا سے جاملیں۔ ماں کی موت سے مجھے ایسے لگا جیسے مجھ پر آسمان ٹوٹ پڑا ہو، مگر ایک اطمینان ضرور تھا کہ میرے بھائی میرے ساتھ ہیں، مگر کیا کریں اس دل کا کہ یہ اکثر پیاروں سے ہی دھوکا کھاتا ہے۔ جب میرے بھائی فلسطین آئے تو مجھے ان کے عزائم کا پتا چلا اور میرا اطمینان بھی رخصت ہوگیا۔ وہ تو القدس سے محبت کا اپنا فرض، مجھ سے خونی رشتہ سب کچھ بھول بیٹھے تھے۔ انگلینڈ کی سرد ہواؤں نے شاید ان کے خون کو بھی اتنا منجمد کر دیا تھا کہ اس میں الفت و محبت کی مہک تک باقی نہ رہی۔ وہ تو صرف بابا کی جائداد کو تقسیم کرنے اور دولت حاصل کرنے فلسطین آئے تھے۔میرا وجود تو ان کے لیے باعث آزار تھا کہ میں بابا کے گھر کو کیسے فروخت ہونے دیتا۔ وہ گھر جو میرے آبا و اجداد کی نشانی تھا جہاں میرے ماں باپ کی یادیں بکھری تھیں۔ میں ان کے آگے ڈٹ گیا۔ انھوں نے مجھے اپنے ساتھ انگلینڈ جانے کے لیے کہا اور دھمکی دی کہ مجھے القدس یا اپنے بھائیوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ میں نے ایک نظر اپنے ماں باپ کے گھر پر ڈالی اور پھر اس فیصلہ کن لمحے میں جب میں نے اپنے بھائیوں کی آنکھوں میں جھانکا مجھے وہ اجنبی لگنے لگے اور میں نے ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔ میرے انکار سے میرے بھائی سخت برافروختہ ہوئے۔ انھوں نے ساری جائداد بیچ ڈالی۔ احسان کے طور پر میرے اسلاف کا گھر مجھے عطا کر دیا۔ پھر مجھے تنہا چھوڑ گئے۔ گویا انھوں نے القدس سے اپنا ہر رشتہ توڑ دیا۔ مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب میرے بھائی مجھے چھوڑ کر گئے تھے۔ وہ دن جب میں بلک بلک کر رویا تھا۔ اب میں بشر الزہرانی، ماں باپ کا لاڈلا، بھائیوں کو چہیتا بالکل تنہا تھا۔ میں نے القدس کی خاطر اپنا سب کچھ ہار دیا تھا، مگر کیا میں واقعی تنہا تھا، نہیں! رب فلسطین، القدس کا رب میرے ساتھ تھا۔
گزرتا وقت زخموں پر مرہم رکھ دیتا ہے۔ زخم مکمل طور پر نہ بھی بھریں مگر وقتی طور پر ان کی تکلیف کم ضرور ہوجاتی ہے۔ میں نے بھی زخموں کو دل میں چھپا کر جینا سیکھ لیا، زندگی کا قرینہ سیکھ لیا۔ میں نے خلوص دل سے دن رات تگ و دو کی اورایک دن اپنے بابا کی طرح القدس کا ایک بڑا سرجن بن گیا اور جس دن میں نے پہلی بار ایک زخمی کے درد پر مرہم رکھا، ایک انسانی جان کو بچایا اس دن اپنے آپ سے ایک وعدہ کیا کہ میں ایک ایسا مسیحا بنوں گا جو زخم زخم دلوں کو جوڑ کر القدس کے مکینوں کے سارے زخم، سارے دکھ اپنے اندر سمیٹ لے۔ اس دن سے لے کر آج تک میں نے اپنے اس عہد کو نبھایا یہاں تک کہ جب اس ایفائے عہد کی کوشش میں میرا دل زخمی ہوگیا اور پاؤں لہولہان تب بھی اس راہ پر چلتے میرے قدم نہ ڈگمگائے جس راہ پر مجھے میرے بابا نے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا تھا۔
زندگی یوں ہی گزر رہی تھی کہ چند لمحوں کے لیے سہی، لیکن میرے دل کے گلستاں میں بھی بہار آئی۔ امل حسینی ایک مشہور ادیبہ تھیں۔ القدس کی نامور شاعرہ اور مصنفہ۔ ہم دونوں کا دردِ مشترک القدس اور فلسطین تھا۔ یہی درد ہمیں ایک دوسرے کے قریب لے آیا اور امل حسینی امل الزہرانی بن کر میری زندگی میں داخل ہوگئیں۔ زندگی کے وہ سال جو میں نے امل کی رفاقت میں گزارے میرے لیے سرمایۂ حیات ہیں۔ قدرت نے مجھے اور امل کو یکے بعد دیگرے دو پھولوں سعد اور نوراح سے نوازا۔ میرے بچوں نے اس دنیا میں آکر میری زندگی کو مکمل کر دیا۔ میں اپنے سارے درد بھلا بیٹھا اور اپنے بچوں کو وہی تربیت دینے لگا جو مجھے میرے بابا نے دی تھی۔ میری مسیحائی میں جب میرے بچوں کا پیار شامل ہوا تو قدرت نے میری مسیحائی میں ایسی تاثیر پیدا کی کہ ہر زخمی بدن کے زخم سل گئے، ہر مریض کا مرض شفا بن گیا۔ مجھے وہ دن بھی کبھی نہیں بھول پائے گا جب میری تعیناتی غزہ ہوئی۔ غزہ جہاں ہر سمت موت کا راج تھا، جان جانے کا خدشہ تھا اور زندگی سے دوری تھی۔ مجھے اپنے بچوں کی زندگی بے حد عزیز تھی مگر فلسطین کے بچوں کی خاطر میں نے غزہ جانے کا کڑا فیصلہ بھی کرلیا اور امل نے ہمیشہ کی طرح کچھ پوچھے بغیر میرے فیصلے میں میرا ساتھ دیا۔ غزہ میں کام کرنا میرے لیے ایک مختلف تجربہ تھا۔ ہر لمحے جان کا خوف، بمباری کا ڈر اس کے باوجود ایمان کی طاقت نے مجھے اور مجھ جیسے کتنے ہی لوگوں کو ثابت قدم رکھا۔ میری یاد داشت میں وہ دن بھی ہمیشہ محفوظ رہے گا، وہ سیاہ دن! جب اسرائیلی بمباری غزہ پر بدنصیبی کا قہر بن کر ٹوٹی تھی۔ کئی دن سے بمباری جاری تھی، امل اور بچے اگرچہ محفوظ جگہ پر تھے، مگر دل توجیسے خدشوں کی آماجگاہ بن گیا۔ میں ذرا سے کھٹکے پر بھی لرز اٹھتا تھا۔ ہر دن کا آغاز زندگی کا ایک دن اور مل جانے کی امید سے شروع ہوتا تھا اور اختتام زندگی کا ایک اور دن بڑھ جانے کے شکر سے ہوتا تھا۔ہم غزہ میں مکمل طور پر غیر محفوظ تھے، مگر ایمان کی حرارت نے مردہ دلوں کو زندہ رکھا ہوا تھا۔ وہ دن بھی ایسا ہی تھا۔ صبح سے بغیر کسی وقفے کے بمباری جاری تھی۔ میرا دل بری طرح گھبرا رہا تھا۔ میں نے اسپتال سے امل کو کئی بار فون کیا، مگر اس کا موبائل بند جا رہا تھا۔ میں ڈیوٹی ختم ہوتے ہی جلدی سے گھر کے لیے نکلا اور جب میں گھر لوٹا تو اپنے تباہ حال گھر کو دیکھ کر میرے سارے واہموں کی گویا تصدیق ہوگئی۔ اپنے برباد گھر کو دیکھ کر میں کچھ دیر سکتے کے عالم میں کھڑا رہا اور پھر بے ہوش ہوکر گر گیا۔
جب مجھے ہوش آیا، تو میں نے اپنے آپ کو اپنے آبائی گھر میں پایا۔ میرے دوست سیف نے مجھے بتایا کہ میں کئی ہفتے کومہ میں رہا ہوں اور وہ مجھے یہاں لے آیا تھا۔ ہوش میں آتے ہی اپنا شعلوں میں گھرا گھر میری نظروں کے سامنے آگیا اور میں چیخ چیخ کر امل اور بچوں کو آواز دینے لگا۔ سیف نے مجھے نیند کی گولی دی تو میں سوگیا۔ بہت دنوں تک میری حالت خراب رہی۔ میں زندہ نہیں رہناچاہتا تھا۔ میرے لیے اب زندگی بالکل بے معنی ہو گئی تھی، تب میرے دوست نے دوستی کا حق ادا کر دیا۔ اس نے آہستہ آہستہ مجھے میرا فرض یاد دلانا شروع کیا۔ میرا عہد ’’القدس کی مسیحائی‘‘ اس نے مجھے کہا کہ میں دوسروں کے زخموں پر مرہم رکھوں تاکہ میرے اپنے زخم مندمل ہوجائیں۔ پھر آہستہ آہستہ القدس کی محبت غالب آتی گئی اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ایک بار پھر القدس کی محبت سے میرا عہد جیت گیا۔ میں نے اپنے القدس کی مسیحائی کی خاطر اپنے زخموں کو اپنے سینے میں چھپا لیا اور رفاہ کے ایک اسپتال میں پھر سے زخموں پر مرہم رکھنے لگا۔
…٭…
آج مجھے اس اسپتال میں کام کرتے ہوئے تین سال ہوچکے ہیں۔ میں اس اسپتال میں آنے والے سارے بیماروں کی تیمار داری کو اپنا فرض سمجھتا ہوں، ان کی مسیحائی کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہوں۔ میرے مریض مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں۔ وہ مجھے بہت باہمت اور حوصلہ مند سمجھتے ہیں، میرے ساتھی ڈاکٹر مجھے ہمیشہ ہنستا مسکراتا دیکھتے ہیں۔ جب کبھی میں اپنے کسی مریض سے سنتا ہوں کہ ڈاکٹر بشر تو مسیحا ہیں، اپنے دکھوں کو بھلا کر ہمارے درد دور کرنے والا مسیحا، تو میں دھیرے سے مسکرانے لگتا ہوں کہ انہیں کیا معلوم کہ ان کے درد دور کرنے والا مسیحا رات کو جب تنہا ہوتا ہے تو اس کی سسکیاں القدس کی فضاؤں میں گونجنے لگتی ہیں۔ اس کے آنسو القدس کی مٹی میں ملنے لگتے ہیں کہ اس کی مسیحائی کرنے والا، تو کوئی بھی نہیں!!lll