وہ ملک جس نے سود ختم کر دیا

اوریا مقبول جان

سود کی حمایت اور سودی بینک کاری کو آج کے جدید دور کی اہم ترین ضرورت کے طور پر پیش کرنے والے سیاسی پنڈت اور سود خور بینک کار گزشتہ ایک سو سال سے سود کی مخالفت کرنے والوں سے ایک ہی سوال کرتے چلے آئے ہیں کہ اس نظام کا متبادل کیا ہے؟ یہ تو ایک عالمی معیشت کو چلانے کا طریق کار ہے۔ اگر اس نظام کو بغیر کسی متبادل کے ختم کر دیا گیا تو پوری دنیا کی صنعت و تجارت کا پہیہ رک جائے گا۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ ان دانش وروں سے پلٹ کر کوئی یہ سوال نہیں کرتا کہ یکم جولائی ۱۹۴۴ء سے ۲۲؍ جولائی ۱۹۴۴ء تک امریکا کے شہر برٹن ووڈ کے ماؤنٹ واشنگٹن ہوٹل میں منعقد ہونے والی کانفرنس کے نتیجے میں برٹن ووڈ معاہدے سے پہلے یہ عالمی معیشت کیسے چل رہی تھی؟ یہ کانفرنس اس وقت منعقد کی گئی جب اتحادی افواج نے نارمنڈی فتح کرلیا اور اب یہ معلوم ہوگیا کہ ہٹلر اور اس کے اتحادی شکست کھا چکے۔ ایسے میں دنیا کو سودی بینک کاری کے شکنجے میں جکڑنے کے لیے ۴۴ اتحادی ممالک کے ۷۳۰ نمائندے یہاں جمع ہوئے، جن کا مقصد یہ تھا کہ دنیا پر ایک نیا عالمی مالیاتی اور اقتصادی نظام کیسے مسلط کیا جائے۔ اس کے لیے یہ معاہدہ ترتیب دیا گیا۔

دنیا پر مسلط کئے گئے اس عالمی معاہدے کے تحت ایک بینک قائم کیا گیا جسے عالمی اقتصادی امور میں تصفیہ کا اختیار دیا گیا، جس کا نام International “Bank of Settlement” رکھا گیا۔ کاغذ کی جعلی کرنسی کو ہر ملک کے لیے لازمی قرار دیا گیا، جس کا لب لباب یہ تھا کہ ہر ملک ایک خوب صورت کاغذ پر ایک شاندار چھپائی کے ساتھ ایک تصویر چھاپے اور اس پر ایک مالیت لکھ دے۔ وہی کاغذ ایک روپے سے پانچ ہزار روپے کی مالیت کا بن جاتا ہے۔یہ تو ہر ملک میں لازمی قرار دیا گیا، لیکن عالمی منڈی میں کسی ملک کے اس جعلی کاغذ کی کتنی قیمت ہے اس کا اختیار اس بینک کو دے دیا گیا، جسے شرح تبادلہ Exchange Rateکہا گیا۔ اصول یہ تھا کہ جس ملک کے پاس جتنا سونا ہوگا وہ اتنے نوٹ چھاپے گا۔ یعنی یہاں تک تو اس نظام میں یہ حقیقت تھی کہ ان کاغذوں پر جو قیمت لکھی ہوئی ہے اس کے برابر سونا حکومت کے پاس موجود ہے۔ لیکن پہلے دن سے ہی اس نظام میں جھوٹ اور فریب کی گنجائش رکھی گئی اور اس فراڈ کو بھی عالمی قانون کا حصہ بنایا گیا۔ یعنی اگر ایک ملک اپنے پاس موجود سونے کے ذخائر سے زیادہ مالیت کے یہ جعلی کاغذ یعنی کرنسی نوٹ جاری کرتا ہے تو وہ دھوکا اور فراڈ نہیں ہے بلکہ یہ افراطِ زر ہے۔ کیا فریب کاری ہے کہ وہ کاغذ جن کی بجائے خود کوئی مالیت نہیں ان کی بہتات کو دولت کی بہتات یعنی افراط کہا گیا۔ لیکن صرف ۲۷ سال تک ان تمام ممالک نے اس جھوٹ اور فریب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اتنے کرنسی نوٹ چھاپ دیے تھے کہ اگر دنیا کا کوئی ملک اپنے پاس موجود کرنسی کے کاغذوں کے بدلے سونے کا مطالبہ کرتا تو وہ دے نہیں سکتا تھا۔ ایسا ہی مطالبہ فرانس کے صدر ڈیکال نے امریکہ کے صدر نکسن سے کر دیا۔ ایک دم جواب آیا ’’تم کیا سمجھتے ہو کہ یہ تصور اور معاہدہ اس لیے دنیا کے سامنے پیش کیا گیا تھا کہ ہم ان کاغذوں کے بدلے سونا واپس کریں؟‘‘ فورا ایک اور معاہدہ کیا گیا کہ اب ان کرنسی نوٹوں کے بدلے سونا رکھنے کی ضرورت نہیں، بلکہ یہ بینک جو تصفیہ کے لیے بنایا گیا ہے بتائے گا کہ کس کرنسی کی مالیت کتنی ہے… اور وہ سونے کے ذخائر کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک نیا لفظ نکالا گیا “Good Will” یعنی اس ملک کی دکان کتنی چلتی ہے… کی بنیاد پر طے کی جائے گی۔ عموماً روز مرہ میں ہم اس کا ترجمہ ’’پگڑی‘‘ کے طور پر کرتے ہیں۔ یعنی اس مکان میں کتنا مال روزانہ بکتا اور نیا آتا ہے۔ کتنی فصلیں، کارخانے اور کاروباری ادارے ملک میں کتنی پیداوار فراہم کرتے ہیں۔ یہ بینک بتائے گا کہ اس ملک کے نوٹوں کی قیمت کیا ہے۔ یوں اس بینک کو جو اختیار ملا تھا اس نے ثابت کیا کہ اس سے دنیا بھر کے سود خور کس طرح اس عالمی سیاسی معاشی نظام کے ذریعے اپنی دھونس مسلط کرتے ہیں۔ نائیجیریا کے پاس سعودی عرب سے زیادہ تیل ہے۔ اس کی کرنسی کی قیمت کمزور اور آئس لینڈ جہاں گھاس بھی ڈھنگ سے نہیں اگتی اس کی کرنسی مضبوط ہے۔

سودی بینک کاری کے وکیلوں سے کوئی یہ سوال کرے کہ صرف ۷۳ سال پہلے جب کاغذ کے نوٹوں کو عالمی حیثیت حاصل نہ تھی، سونے اور چاندی کے سکے چلتے تھے، ایسے سکے جو اپنے اندر اپنی قیمت رکھتے تھے تو کیا اس وقت عالمی معیشت اور تجارت نہیں ہوتی تھی؟ اس وقت تک آج کی جدید صنعت کی اکثر چیزیں ریل، کار، جہاز وغیرہ ایجاد ہوچکے تھے، دنیا دو جنگیں بھی لڑ سکتی تھی۔ عالمی منڈی بھی موجود تھی اور اس عالمی منڈی کے مقابلے میں دنیا میں ایک بہت بڑا بلاک موجود تھا جسے کمیونسٹ دنیا کہتے تھے۔

جب روس میں ۱۹۱۷ میں بالشویک انقلاب آیا تو انھوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ تمام سودی بینکاری کو ختم کر دیا، او ران کا غیر سودی بینک کاری نظام ۷۵ سال تک چلتا رہا۔ لیکن جب ان ’’عظیم‘‘ سیکولر، لبرل اور کارپوریٹ دنیا کے پروردہ دانش وروں کو قرآن کی یہ آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں جن میں کہا گیا ہے ’’جو لوگ سود کھاتے ہیں ان کی حالت ایسے ہے جیسے شیطان نے انہیں چھوکر باؤلا کردیا ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ بیع (کاروبار)بھی تو سود کی مانند ہے۔ حالاں کہ اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘ (البقرۃ:۲۷۵) پھر فرمایا: ’’اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اگر تم واقعی مومن ہو تو سود کا جو حصہ بھی باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو۔ اگر تم ایسا نہیں کروگے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ ہے۔‘‘ (البقرۃ:۲۷۹)

اس اعلانِ جنگ کے بعد بھی دنیا بھر میں بسنے والے یہ مسلمان ان کمیونسٹوں کے جتنی غیرت بھی نہیں رکھتے تھے کہ اپنا نظام معیشت خود ترتیب دے دیتے۔ پاکستان کی تو حالت ہی عجیب ہے کہ یہاں ۱۹۹۹ میں سپریم کورٹ کا فل بینچ سودی بینکاری کے خلاف فیصلہ دیتا ہے تو سب کے سب اس کے خلاف متحد ہوجاتے ہیں۔ ہر کوئی پوچھتا پھرتا ہے کہ کوئی متبادل ہے؟ بتاؤ ہم اپنی معیشت کیسے چلائیں؟ کس قدر متعصب ہیں یہ سود کی حمایت میں لکھنے اور سوچنے والے کہ جب ۲۰۰۶ میں دنیا بھر میں مالیاتی بحران ہوا تو تمام ممالک کے بینکوں نے سود مکمل طو رپر ختم کر دیا۔ لیکن یہ لوگ پھر بھی اس امید پر زندہ رہ رہے ہیں کہ ایک دن دنیا بحران سے نکلے گی تو سود پھر واپس آجائے گاـ۔

جاپان ایک ایسا ملک ہے جس نے گزشتہ ایک سال سے تمام بینکوں سے سود کا مکمل طو رپر خاتمہ کر دیا ہے۔ اگر آپ کسی بھی بینک میں اپنے پیسے رکھیں گے تو وہ الٹا آپ سے آپ کے سرمائے کی حفاظت کے لیے پیسے لے گا۔ کس قدر بدنصیب ہیں یہ لوگ کہ جاپان کے اس نظام کو غیر سودی نظام نہیں کہہ رہے، بلکہ اسے دنیا کے سودی معیشت کے علم بردار “Negativeinterest” (منفی سود) کہتے ہیں۔ یہ جاپان کی معیشت کا ایسا روپ ہے کہ لوگ اب بینکوں میں پیسے ہی نہیں رکھتے۔ گزشتہ سال جاپان میں ۱۰۳ ہزار ارب ٹن کی اشیاء لوگوں نے کیش پر خریدیں۔ اس میں کاریں، جہاز اور بڑی بڑی اشیاء بھی شامل تھیں۔ Seki Sul کمپنی لوگوں کو گھر بنا کر بیچتی ہے۔ اس نے دو لاکھ ملین ٹن کے گھر بنائے جو جدید ترین تھے۔ اس کمپنی نے بنانے کے لیے بینک سے قرضہ لیا، نہ اکاؤنٹ کھولا اور نہ ہی لوگوں نے خریدنے کے لیے اسے چیک دیے، بلکہ نقد ادائیگی کی۔ گزشتہ سال اشیائے صرف کی قیمتیں اتنی گری ہیں کہ ٹوکیو اب مہنگے کے بجائے سستے شہروں میں گنا جانے لگا ہے۔

جاپان کے حکومتی بینک نے تاریخ میں پہلی دفعہ دسمبر ۱۹۹۵ میں صفر سودی پالیسی (Zero Interst Rate Policy) نافذ کی تھی اور حکومتی سطح پر سود ختم کر دیا تھا، اور اب اس ملک کے پرائیویٹ بینکوں نے بھی سود کو خیر باد کہہ دیا۔ جاپان کی ترقی کو دیکھتے ہوئے یورپی سینٹرل بینک نے ۱۸ ماہ قبل حکومتی سطح پر منفی شرح سود کا آغاز کیا ہے، دیکھیں وہاں کے کمرشیل بینک کب صفر سے منفی پہ آتے ہیں اور بینک بھی سرمایہ رکھنے پر کٹوتی کرنے لگیں گے۔ یہ جاپان ہے جس میں آڈیو کیسٹ سے لے کر کاروں، ٹرکوں، بلڈوزروں، کمپیوٹروں اور شاید ہر قسم کی مصنوعات کے کارخانے پوری دنیا کو مصنوعات بیچتے ہیں۔ وہ بینکوں سے آزاد ہیں اور سود سے مبرا۔ جاپان کا نظام معیشت سود سے پاک ہوچکا ہے اور اس دنیا سے الگ بھی۔lll (جسارت: پاکستان سے ماخوذ)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں