احساس اور کردار

مہر رحمٰنؒ

[مہر رحمن صاحبہ کی یہ تحریر ہمیں کووڈ سے پہلے ملی تھی۔ افسوس ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران وہ اپنے رب سے جاملیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے رحم و کرم کی چادر سے ڈھانپ لے۔ آمین!]

تین دن بعد دھڑکتے دل سے آفس میں داخل ہوئی۔ خوفزدہ سی پریشان سی اور سہمی ہوئی۔ خیالات کے تانوں بانوں میں الجھی ہال سے گزرتے ہوئے کنکھیوں سے اسٹاف کا جائزہ لیتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی۔ ’’تجھے دیکھ کر ہنسیں گے سب۔ تجھ سے بات کرنا بھی کوئی پسند نہ کرے گا۔تیرے ٹیبل پر بہانے سے بھی کوئی نہیں آئے گا۔ کیونکہ — کیونکہ آفیسز میں کلرکس، ٹائپسٹ اور سکریٹریز حسین ترین ہوتی ہیں۔‘‘ دل کی دھڑکن ایسے ہی جملے دہرائے جارہی تھی۔ ’’صاحب کا کمرہ؟‘‘ اس نے بے خیالی میں چپراسی سے پوچھا جو اسے دیکھ کر کھڑا ہوگیا تھا۔ دل نے چٹکی لی یہ بھی مجھے گھور رہا ہے۔ یہ مجھے نئی سکریٹری مان ہی نہیں سکتا۔ تب ہی تو بے زار سا کھڑا ہے۔ دروازے پر ٹھٹکی۔ ’’مجھے دیکھ کر کہیں باس بھی—‘‘ اس سے آگے وہ سوچ نہ سکی۔ یا اللہ! میں یہ سب کیسے برداشت کرپاؤں گی۔ لوٹ جاؤں؟ جوائن نہ کروں؟ استعفیٰ تو ساتھ لائی ہوں۔ آرڈر کی بجائے اسے ہی سامنے کردوں؟ دوسرے ہی لمحہ اماں کی کراہیں، چھوٹی بہن کے یونیفارم کی خواہش بلکہ تقاضا، چھوٹے بھائی کی سائیکل کی ضد’’باجی اب تو سائیکل لے ہی لیں میں بہت چھک جاتا ہوں نا۔‘‘ سامنے ایک نوجوان کو بیٹھا دیکھ کر ہمت پھر ڈانواڈول ہوگئی۔ اتنا اسمارٹ باس مجھے اپنی سکریٹری بناکر خود کی ہنسی اڑوائے گا؟  وہ واپس جانے کو تھی کہ ایک رعب دار آواز نے قدم روک لیے۔ ’’کہیے کس سے ملنا ہے آپ کو؟‘‘

’’جی—جی— میں سائرہ خان ہوں۔‘‘ کہتی ہوئی سحرزدہ سی ٹیبل کے پاس پہنچ گئی۔

اوہ تو آپ ہیں مس سائرہ خان؟ ایک کاری ضرب پڑی دماغ پر۔ یہ بھی تجھے طنزیہ نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ کیا کروں لوٹ جاؤں؟ بھاگ چلوں یہاں سے۔ اسے بیٹھنے کو کہا جارہا تھا، ’’جی شکریہ‘‘ کہتی ہوئی گھبرا کر بیٹھ گئی۔

’’آپ تین دن بعد جوائن ہونے آئی ہیں، ہم تو سمجھے تھے آپ …؟‘‘

’’جی، ایسی کوئی بات نہیں ہے، مجھے ملازمت کی سخت ضرورت ہے۔‘‘ اس نے نہایت عجلت میں کہا۔

’’وہ میری والدہ بیمار تھیں۔‘‘

’’ٹھیک ہے آپ آج سے اپنا کام سنبھال لیں۔‘‘  دل نے پھر سرگوشی کی، اس نے تجھے غور سے دیکھا نہیں ورنہ … اس سے آگے سننے کی اس میں تاب نہ تھی۔ باس نے کھنکار کر کہا: ’’وہ رہا آپ کا کیبن!‘‘ کان پھر دل کی دھڑکن کی طرف متوجہ ہوئے۔ یہ کیا…؟ یہ معجزہ ہی ہے۔ اس نے تیری صورت پر دھیان دیا ہی نہیں … کیا ہوا…جو تو خوبصورت نہیں ہے۔ قسمت تیرا ساتھ دے رہی ہے۔ اپنے حسنِ سیرت سے باس کا دل جیت لینا۔ ہاں میں خوب دل لگا کر کام کروں گی۔ کسی کو اپنے چہرے کے بارے میں سوچنے کا موقع ہی نہیں دوں گا۔

’’جی شکریہ!‘‘ یہ کہہ کر وہ اپنے کیبن میں چلی گئی۔ ہر کوئی اسے گھورتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ یا اللہ اس ماحول میں، یہ سب مجھ سے کیسے برداشت ہوگا؟ ایک ادھیڑ عمر شخص مسکراتا ہوا اس کے ٹیبل کے قریب کھڑا تھا، دل نے چٹکی لی یہ تیرا مذاق اڑانے آیا ہے۔

’’آج پہلا دن ہے آپ کا مس خان۔ آپ کا سب سے تعارف تو ہوجائے۔‘‘ اللہ یہ سب مل کر میرا مذاق اڑائیں گے تو؟ وہ گھبرا کر کھڑی ہوگئی۔ ’’جی … جی ضرور…‘‘ اسٹاف کے سب ہی ممبرس جمع ہوگئے۔

’’یہ مسٹر رحمٰن ہیں سینئر کلرک، ان سے ملیے یہ مسٹر ونود کمار ہیں ہیڈ کلرک، سب کے بڑے بابو— میں رویش پانڈے، یہ مسٹر شیخ، یہ مسٹر صدیقی، اور یہ ہیں ہمارے آفس کی سب سے جاندار شخصیت اجے سکسینہ۔‘‘

’’جی خوشی ہوئی آپ حضرات سے مل کر۔‘‘ اجے سکسینہ نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔ ’’لیکن ہمیں …‘‘ دل حلق تک اچھل کر آگیا، یہ یہی کہیں گے لیکن ہمیں خوشی نہیں ہوئی۔ اجے سکسینہ کا جملہ سنا’’لیکن ہمیں خوشی ہی نہیں بہت خوشی ہوئی۔‘‘ اللہ شکر ہے تیرا!

’’اب ان سے ملیں مس خان یہ ہیں ہمارے بدری نارائن جی۔ عہدے سے جو بھی ہوں، ہیں ہم سب کے بزرگ، غمگسار، صلاح کار۔‘‘

’’جی نمستے‘‘ اس نے شفیق سے چہرے والے سفید بالوں والے بدری جی کی طرف دیکھا۔

’’دیکھو بیٹا! یہاں بے فکر ہوکر کام کرنا۔ صاحب کی سکریٹری ہو تمہارا عہدہ ہم سب سے بڑا ہے، لیکن نہ تو ہمیں چھوٹا سمجھنا نہ ہم تمھیں۔‘‘ اوہ مجھے دھمکی دے رہے ہیں۔ خیر انھیں دیکھ لوں گی۔ مسٹر رحمٰن کہہ رہے تھے’’ہاں مس خان اپنے آفس کا ماحول ہم نے ایسا ہی بنا رکھا ہے۔ ہم سب ایک دوسرے کی چھوٹی بڑی باتیں مل کرشیئر کرتے ہیں۔ آپ پہلی سکریٹری ہیں جن سے ہم اتنی جلدی گھل مل گئے ہیں۔ ورنہ آپ سے پہلی تو اپنے حسن کے غرور میں چور…‘‘

دے دیا نہ آخر طعنہ حسن کا! کان پھر مسٹر رحمٰن کی طرف متوجہ ہوئے۔

’’نہ جانے کیا سمجھتی ہیں ایسی لڑکیاں اپنے آپ کو، بھئی ہم بھی بیوی بچوں والے ہیں، ہونہہ سمجھتی ہیں ان سے فلرٹ کرنے آفس میں آتے ہیں۔ وہ کیا نام تھا بھلا سا ، ہاں مس مایا سمجھنے لگی تھیں ہم ان کے حسن کے مایا جال میں پھنس جائیں گے۔ ‘‘

یہ مجھے طعنہ دے رہے ہیں۔ یا اللہ میں کیا کروں؟ اجے بابو کہہ رہے تھے۔

’’کیا بات ہے مس خان آپ کچھ پریشان نظر آرہی ہیں؟بس ایک requestہے ہمیں ایسا ویسا نہ سمجھیں۔ ہم میں کوئی بھی آپ سے …….

وہ چلا پڑی، بس آگئے اپنی اوقات پر آپ لوگ۔ اچھا ہوا آج پہلے ہی دن یہ سب کہہ دیا۔ میں جارہی ہوں اپنا استعفیٰ دینے ۔ آپ میں سے کوئی مجھ جیسی لڑکی سے متاثر ہوگا بھی کیوں بھلا۔ آپ لوگوں کی توقع کے خلاف جو ہوا۔ ایک لپی پتی ناز و انداز دکھاتی فیشن ایبل خوبصورت سی سکریٹری کا انتظار تھا نہ آپ لوگوں کو۔ میں جانتی تھی میرے ساتھ یہ سب ہوگا۔ یہ … یہ رہا میرا استعفیٰ۔ نہیں بن سکتی میں کسی کی سکریٹری۔ نہیں کرسکتی میں کسی آفس میں کام… میں…. میں… وہ چکرا کر گرنے کو تھی کہ بدری جی نے بڑھ کر تھام لیا۔ باس بھی کیبن سے نکل آئے۔ یہ کیا … اور بے ہوش مس خان کو دیکھ کر… بدری جی نے بڑھ کر سرگوشی کرتے ہوئے مس خان کا استعفیٰ باس کے ہاتھوں میں دیا۔ باس نے انھیں کچھ سمجھایا۔ ٹیکسی منگوائی گئی۔ وہ نڈھال سی نیم بے ہوشی کی حالت میں گھر پہنچائی گئی۔ ٹیکسی میں جتنے سما سکتے تھے اس کے ساتھ تھے۔ بوڑھی ماں نے سب کا شکریہ ادا کیا۔ بے ہوشی کی وجہ پوچھنے پر ٹھنڈی سانس لے کر ماں نے کہا: ’’کیا بتائیں بیٹا ہمارے سر سے اس کے ابو کا سہارا اٹھ گیا ہے۔ بھائی بہن اور مجھ بوڑھی کا بوجھ اٹھانے والے یہ ناتواں کاندھے۔ زمانے کی چال دیکھ کر احساسِ کمتری کا شکار ہوگئی ہے۔ فیشن ایبل نہیں ہے۔ بہت حسین نہیں ہے نا۔ تین دن سے اسی کشمکش میں تھی کہ اس جیسی لڑکی کو کوئی آفس میں کیونکربرداشت کرے گا ۔ آج حالات کا سامنا کرنے ہمت کرکے نکلی۔ لیکن … وہی ہوا جس کا ڈر تھا… اب اسے یہاں بھی ملازمت …‘‘

بدری جی بول پڑے:’’ایسا کچھ نہیں ہے ماں جی! آپ کی بیٹی ہماری بیٹی ہے۔ وہ ہمارے آفس میں ہی کام کرے گی۔ اجے بھیا، پانڈے جی … ہم عجلت کرگئے۔ جو بات ہمیں وقت وقت سے بتانی تھی ایک ہی دن میں کہہ بیٹھے اور بٹیا ہمیں غلط سمجھ بیٹھیں۔‘‘

’’خیر ماں جی! انھیں آرام کرنے دیں کل میں آفس جاتے وقت بٹیا کو اپنے ساتھ آفس لے جاؤں گا۔ آپ فکر نہ کریں ہر آفس کا ماحول ایک جیسا نہیں ہوتا ہے۔ ہمیں بٹیا جیسی سکریٹری کی ہی ضرورت تھی۔‘‘

اسے اس آفس میں کام کرتے ہوئے دو سال مکمل ہوگئے ہیں۔ بدری جی نہیں آفس کے تمام لوگ اسے اپنی بیٹی مانتے ہیں اور باس کا تو یہ عالم ہے کہ جیسے باپ کا سایہ ہو۔ اس نے بھی اپنے کردار اور عمل سے پورے آفس کا دل جیت لیا ہے۔ وہ ایک دن کی چھٹی پر ہو تو ہری کمار چپراسی سے لے کر باس تک اس کی ماں کو فون کرکے خیریت اور نہ آنے کی وجہ معلوم کرتے ہیں۔

مزید افسانے پڑھیں!

https://hijabislami.in/7015/

https://hijabislami.in/7159/

https://hijabislami.in/7301/

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں