عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ، قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ اِنَّماَ الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَ اِنَّمَا لِاِمْرَیئٍ مَانَوَیٰ، فَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہٗ اِلَی اللہِ وَ رَسُولِــہٖ فَہِجْرَتُہٗ اِلَی اللہِ وَ رَسُوْلِہٖ، وَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہٗ اِلٰی دُنْیَا یُصِیْبُھَا اَوِ امْرَأَۃٍ یَتَزَوَّجُھَا فَھِجْرَتُہٗ اِلٰی مَا ھَاجَــــرَ اِلَیْہِ۔
(بخاری و مسلم)
ترجمہ:’’ حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا فرمایا رسول اللہ ﷺ نے: اعمال کا دار و مدار صرف نیت پر ہے، اور آدمی کو وہی کچھ ملے گا، جس کی اُس نے نیت کی ہوگی، تو جس نے اللہ و رسول کے لیے ہجرت کی ہوگی۔ اُسی کی ہجرت واقعی ہجرت ہوگی، اور جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہوگی، تو اس کی ہجرت دنیا کے لیے یا عورت کے لیے شمار ہوگی۔‘‘
تشریح: نیت کے لغوی معنی ہوتے ہیں دل کا پختہ ارادہ کرنا۔جبکہ شریعت کی اصطلاح میں اللہ کی رضا کے لیے کسی عمل کے ارادے کو نیت کہا جاتاہے۔ مذکورہ حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص بظاہر نیک اعمال کرتا ہے مگر اس کی نیت خالص اللہ کے لیے نہ ہوبلکہ دکھاوے یا شہرت کی ہو تو اس کو اس کا اجر نہیں ملے گا۔ لیکن اگر کوئی شخص لوگوں سے چھپا کر بھی کوئی عمل خالص اللہ کے لیے کرتا ہے تو اس کو اس کا اجر ملے گا۔ یہاں ہجرت کی مثال دے کر بتایا گیاہے۔ ہجرت ایک بہت بڑی عبادت ہے۔ بشرطیکہ وہ خالص رضائے الٰہی کے لیے ہو، جب کوئی انسان ہجرت کرتا ہے تو وہ اپنا گھر بار چھوڑ تا ہے۔ اسے اپنا وطن اپنی بنیاد، رشتے دار غرض ہر چیز چھوڑنا پڑتی ہے، جس طرح کسی درخت کو جڑ سے اکھاڑا جائے اس طرح کا معاملہ مہاجر کا ہوتا ہے۔ لیکن اتنی قربانی دینے کے بعد بھی اگر انسان کی نیت اور ارادہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت نہ ہو تو بے کار ہے۔ اس سلسلے میں اس حدیث کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے جس میں ایک عالم، ایک مجاہد اور ایک انفاق کرنے والے کا ذکر ہے اور ان تینوں کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ کیوں؟ کیونکہ ان کی نیت یہ تھی کہ لوگ اسے بہادر کہیں، بڑا عالم کہیں اور کہیں کہ وہ بہت بڑا سخی ہے۔
یہ بھی دیکھیں!