اپنا دکھ
صبح ہوتے ہی بیٹے نے ملازمہ کے ہاتھوں ایک چٹھی دے کر اپنی والدہ کے پاس بھیجا… چٹھی میں لکھا تھا: ’’امی جان! کل آپ ہمارے گھر آئیں اور ہمارے بیٹے عاصم کو لے کر چلی گئیں۔ اگر ہم موجود ہوتے تو شاید اُسے آپ کے ہمراہ جانے نہ دیتے کیوں کہ وہ ہمیں جان سے زیادہ عزیز ہے۔ اس کے بغیر ایک دن گزارنا ہمارے لیے محال ہے۔ وہ نہیں تھا تو کل شام کا کھانا بھی کھایا نہ جاسکا۔ رات میں اس کی امی اور میں سو نہ سکے۔ ملازمہ کو بھیج رہا ہوں ہمارا بیٹا لوٹادو۔‘‘
ماں نے اپنے پوتے کو لوٹا دیا۔ مگر ساتھ میں ایک چٹھی بھی دی۔ جس میں لکھا تھا۔
’’تمہیں اپنے بیٹے سے دوری کا کس قدر احساس ہوا۔ اب تمہیں معلوم ہوا ہوگا کہ بیٹے کی جدائی کا غم کیا ہوتا ہے۔ اپنی شادی ہوجانے کے بعد تم نے ہمارا چہرہ بھی دیکھنا گوارا نہ کیا۔ تمہارا ایک دن میں یہ حال ہوا ہے…
ذرا سوچو! تم مجھ سے دس سال سے جدا ہو، میرا کیا حال ہورہا ہوگا؟‘‘
٭٭٭
نابینا مسافر
وہ جس راستے پر چل رہا تھا خود نہیں جانتا تھا کہ وہ صراطِ مستقیم ہے یا پھر گمراہی کا راستہ۔ اسے راہ میں ایک شخص ملا بھی تھا اس نے یہ کہہ کر اسے اپنے ساتھ لیا تھا کہ تم راستہ بھول گئے ہو۔ آؤ میں تمہیں تمہاری منزل تک پہنچادوں۔
بے چارہ نابینا مسافر کرتا بھی کیا وہ تو اپنے راستے کے نشانات خود نہیں دیکھ سکتا تھا چاپ چاپ اس کے پیچھے ہولیا۔ لیکن راستہ چلتے چلتے جب منزل قریب آگئی تو پتہ چلا کہ وہ جس راستہ سے چل کر آیا ہے وہ تو گمراہی کا راستہ تھا اور راہ میں جس شخص نے اس کی راہنمائی کی تھی وہ خضر نہیں بلکہ شیطان تھا وہ حواس کھوبیٹھا۔ حیف…! دنیا تو دنیا آخرت بھی تباہ ہوگئی۔
اب وہ پچھتا رہا تھا اے کاش کہ وہ جاہل نہ ہوتا علم کی آنکھیں اس کے پاس ہوتیں تو وہ ان آنکھوں کی روشنی میں اپنی کامیاب زندگی اور آخرت کے لیے سفر کاآغاز صراطِ مستقیم سے کرتا۔ صحیح اور غلط سے واقف ہوتا سفر میں وہ نہ راستہ بھولتا اور نہ ہی کوئی بہکا سکتا… لیکن اب پچھتانے سے کیا حاصل؟ بہت دیر ہوچکی تھی زندگی کا سفر ختم ہوچکا تھا۔ اب تو جہنم ا سکا انتظار کررہی تھی!!
ڈاکٹر اشفاق احمد ، ناگپور
……
ملنے کے بعد
رات کے تیسرے پہر جب آنکھ کھلی تو مسجد کے اندر سے تلاوت کرکے کچھ لوگ بارگاہِ الٰہی میں گڑگڑاتے ہوئے آنسوؤں سے لبریز آواز میں اپنے گاؤں کی خوشحالی کے لیے دعائیں مانگ رہے تھے۔
دراصل اُن کے گاؤں میں چاروں طرف بے بسی کا عالم تھا ہر گھر مفلس اوربے حال نظر آتا۔ اس گاؤں میں ایک چھوٹی سی مسجد تھی جو نمازیوں کے اعتبار سے ہمیشہ چھوٹی محسوس ہوتی تھی جہاں بیشتر لوگ ساری ساری رات عبادتوں میں مصروف رہتے اور اپنے بچوں کی خوشحال زندگی کے لیے دعائیں مانگتے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہی اللہ نے ان کی دعائیں قبول کرلیں اور گاؤں کا ہر گھر خوشحالیوں سے بھر گیا اور چاروں طرف عالیشان عمارتیں نظر آنے لگیں۔
پھر گاؤں کے نوجوانوں نے مل کر چھوٹی مسجد کو شہید کرنے کے بعد ایک بڑی سی تین منزلہ بے انتہا خوبصورت مسجد تعمیر کردی جسے دور دراز سے لوگ دیکھنے کے لیے آنے لگے جسے محسوس کرکے گاؤں کا ہر شخص نہال ہواٹھتا۔
البتہ اب رات کے کسی پہر نہ مسجد سے تلاوت کی آواز آتی نہ ہی کسی کے گڑگڑانے کی جبھی تو ایک صبح فجر کی نماز میں امام صاحب کو مائک کھول کر یہ اعلان کرنا پڑا کہ ’’صرف ایک ہی نمازی کے ہونے کی وجہ سے باجماعت نماز پڑھانا ممکن نہیں، اس لیے گاؤں کے معزز حضرات سے گزارش ہے کہ مسجد میں کم سے کم ایک شخص تشریف لے آئیں تاکہ نماز ادا کی جاسکے۔‘‘
٭٭٭
غلام
میرے بندو! تم میری جستجو کرو، تم نے چمڑے پر محنت کی اور اسے ساری دنیا میں پھیلادیا۔ تم نے لوہے پر محنت کی اور اسے ہوا میں اڑادیا۔ تم نے دانہ پر محنت کی اور اس سے باغیچے سجادیے۔ تم نے پتھر پر محنت کی اور اس سے خوبصورت گھر بنادیے۔ تم نے دھاگے پر محنت کی اور اس سے کپڑے بنادیے۔ تم نے مردہ چیزوں پر محنت کی اور ان میں زندگی کی برقی لہریں دوڑادیں۔ میں تو زندہ حقیقت ہوں جب میں مل جاؤں گا تو تمہیں سب کچھ مل جائے گا۔ ابھی تو تم …… صرف چیزوں کے غلام بنے ہوئے ہو۔