دنیا حقیقت کی

رضیہ بٹ

اس نے اپنا گھونگھٹ ذرا سا سرکایا، جھکا ہوا سر اٹھا کر کمرے پر نگاہ ڈالی۔کمرہ خالی تھا۔ سب عورتیں جاچکی تھیں۔

کچے فرش اور دھواں سی چھت والا دالان نما یہ کمرہ اس کا حجلۂ عروسی تھا۔ کچی دیواروں پر نیا نیا فیروزی رنگ ہوا تھا۔ سامنے کونے میں مٹی کا بڑا سا مٹکہ تھا جس پر کانسہ کی کٹوری رکھی تھی۔ اسی دیوار کے ساتھ لوہے کا بڑا سا صندوق تھا جس پر پرانے سفید کپڑے کی کٹاؤ دار چادر پڑی تھی۔ دو پرانے ٹین کے بے رنگ صندوق بھی اوپر نیچے رکھے ہوئے تھے۔ ایک طرف کپڑوں کی بڑی سی گٹھری تھی۔ دیوار کے ساتھ کھونٹی پر بھی ایک بڑی سے گٹھری لٹک رہی تھی جس میں سے نئی دھنی ہوئی روئی جھانک رہی تھی۔ اسی دیوار پر کچھ کاغذی رنگین پھول ہاروں کی صورت لٹک رہے تھے، اور دو ایک قطعے بھی بھدے بھدے فریموں میں آویزاں تھے۔ صحن میں کھلنے والی دونوں کھڑکیاں بوسیدہ تھیں۔ ایک کھڑکی کے پٹ سے لکڑی اس طرح ٹوٹی ہوئی تھی کہ جھانکنے کو روزن سا بن گیا تھا جس میں میلاسا کپڑا ٹھونس دیا گیا تھا۔ اسی کھڑکی کے قریب ایک پرانی سی میز پر لالٹین ٹمٹمارہی تھی اور میز پر پڑے کروشیے کے رومال سے میز کی کالی سطح جھانک رہی تھی۔ وہ جس چارپائی پر بیٹھی تھی، رنگین پایوں والی تھی اور اس پر چوکور خانوں والا کھیس پڑا تھا۔ اس نے اپنے سرخ دہکتے ہوئے جوڑے پر نظر ڈالی۔ گوٹے کے خوبصورت کام سے بھرا ہوا جوڑا اور یہ کمرہ۔

اس کے چہرے پر ناخوشگوار تاثرات پھیل گئے اور اس کی آنکھوں میں ماحول سے مطابقت نہ کرنے والا الجھاؤ پیدا ہوگیا۔ اسے چھوٹے صاحب کی شادی کا خیال آگیا۔ ان کا حجلۂ عروسی جہاں ہر چیز چمک رہی تھی۔ ارغوانی قالین، ریشمی سنہری پردے، فوم کا بیڈ، آبنوسی میزیں، گدّے دار ویلویٹ کی کرسیاں اور پھولوں کی چادریں، رنگ و نور کے سیلاب تھے اور خوشبوؤں کی مہک بھی۔ اور وہ چھوٹے صاحب! کمخواب کی اچکن میں کسی شہزادے سے کیا کم لگ رہے تھے۔ کتنی ملائمت تھی ان کے سراپے میں! لیکن اس کے باوجود کتنے وجیہہ، کتنے پُروقار لگ رہے تھے۔

اس نے کئی شادیاں دیکھی تھی۔ کچھ ایسے ہی شہزادہ نما دولہے ہوا کرتے تھے۔ نجّو آپا کے دولہا۔ شمو باجی کے دولہا اور — اور کتنے ہی اور تھے۔ خاندان کی تقریباً ہر شادی میں وہ شامل ہوئی تھی۔ دولہے کا تصور اس کے ذہن میں نرم و ملائم، وجیہہ و باوقار قسم کے آدمی کا بن چکا تھا۔

لیکن آج! آج جب اس کی بارات آئی تھی تو سائرہ بی بی نے مذاق میں گھسیٹ کر اسے کھڑکی میں کھڑا کردیا تھا۔ نیچے چمن میں چند دیہاتیوں، مزدور نما مردوں اور سستی قسم کے چمکیلے کپڑوں میں ملبوس کالی کالی بدوضع عورتوں میں گھرا اس کا دولہا بیٹھا تھا۔ اسے دیکھتے ہی اس کے دل نے پوری قوت سے غوطہ کھایا تھا۔ اس کا دماغ چکرا گیا تھا۔ دولہے کا وہ تصور جو اس کے ذہن میں تھا، کرچی کرچی ہوگیا تھا۔ یہ دھواں کھائی لکڑی کی طرح سخت، کھردرا اور کرخت اس کا دولہا تھا۔ اس کے ذہن نے یہ بات قبول ہی نہ کی اور وہ پاگلوں کی طرح سائرہ بی بی کا خوبصورت چہرہ دیکھنے لگی۔

سائرہ بی بی اس کے دولہے کی تعریفیں کررہی تھیں۔ وہ لہراتی لہراتی اس پلنگ پر آبیٹھی جہاں اس کا سرخ گوٹے سے بھرا ہوا جوڑا پڑا تھا اور جہاں کچھ ہی دیر پہلے نجو آپا،شمو بھابی، فائزہ، ملیحہ اور گھر کی دیگر عورتیں اور لڑکیاں اسے گھیرے بیٹھی تھیں۔

وہ بوکھلائی ہوئی تھی کہ پلنگ کے سامنے پڑے قدآدم آئینے پر اس کی نگاہ پڑی۔ اپنی چمکتی ہوئی گہری سانولی رنگت، موٹے موٹے جامنی ہونٹ اور چھوٹی چھوٹی آنکھوں کو دیکھ کر پہلی بار احساس ہوا کہ وہ کوئی خوبصورت لڑکی نہیں ہے۔ اس احساس کے ساتھ اس نے دولہے کا کرچی کرچی تصور سمیٹ لینا چاہا اور سائرہ بی بی کی تعریفی باتوں کے سہارے دل کو تسلی دے لی۔

لیکن! یہ تسلیاں وہ کہا ںکہاں دے لیتی۔ ابھی ابھی اس کی سسرال عورتیں اور لڑکیاں اسے اس حجلۂ عروسی میں بٹھا کر گئی تھیں۔حجلۂ عروسی جسے اس کا ذہن کسی طرح بھی حجلۂ عروسی قبول نہیں کررہا تھا اور یہ سب عورتیں گھنٹہ بھر اس کا دماغ چاٹتی رہی تھیں۔ اس کا ذہن جھٹکے کھا رہا تھا۔ اسے بار بار اَن گنت شادیوں پر دیکھی سسرالی عورتیں یاد آرہی تھیں۔

اس کا ذہن پھر ان عورتوں کا موازنہ فائزہ کی شادی پر جمع ہونے والی خواتین سے کررہا تھا۔ فائزہ جب لال ٹیشو کے بھاری بیڈ پر بیٹھی تھی تو نوجوان سہاگنیں اسے چھیڑ رہی تھیں۔ کتنی شائستگی سے، کتنے میٹھے اورسہانے انداز میں اور جب فائزہ ان باتوں سے شرما کر کچھ اور سمٹ جاتی تو ان عورتوں کے لطیف قہقہے کس سلیقے سے کمرے میں بکھر جاتے تھے۔ ہنسی کی پھوار کتنی نرمی اور کیسے تسلسل سے پڑنے لگتی تھی۔

اس نے گھبرا کر پھر چاروںطرف نگاہ ڈالی۔ اس کا تصور اسے پھر جہازی سائز محل نما کوٹھی میں لے گیا جس کے ہر بیڈ روم میں فوم کے خوبصورت بیڈ تھے اور جہاں چھوٹے صاحب، شکیل بھیا اور انور صاحب جیسے خوبرو اور باوقار مرد رہتے تھے اور — جہاں— اس نے اپنی زندگی کے گیارہ سال گزارے تھے۔

وہ پانچ چھ برس کی ہوگی، جب اس کا مزدور باپ لکڑی کی سیڑھی سے پھسل کر چل بسا۔ بیوہ ماں پر بوڑھی ساس، جوان نند اور دو بچیوں کا بار آن پڑا۔ ماں نوکری پہلے بھی کرتی تھی لیکن اب تو دن رات ایک کرکے بھی گزر بسر مشکل تھی۔ ان ہی بے چارگی کے دنوں میں کسی خانساماں کی وساطت سے وہ اس جہازی سائز کی کوٹھی میں کپڑے دھونے پر مامور ہوگئی۔ یہ امیر گھرانہ شہر کے چوٹی کے گھرانوں میں سے تھا۔ اسے معقول پیسے کے ساتھ کھانا اور کپڑا بھی میسر آنے لگا۔ دولت کے ساتھ ساتھ یہاں شرافت بھی تھی۔ بڑی بیگم اپنے چار بیٹوں، دو بہوؤں اور تین بیٹیوں کے ساتھ یہاں رہتی تھیں۔ ان کی کوٹھی میں بڑی گہما گہمی تھی۔ وہ بھی ماں کے ساتھ جایا کرتی تھی اور خوبصورت باغ میں پھول سے بچوں کو رنگ برنگے پیارے پیارے کپڑے پہنے دیکھا کرتی تھی۔ یہیں سے اس کی دوستی سائرہ بی بی سے ہوگئی تھی۔ وہ اسی کی ہم عمر تھی۔ یہ دوستی اتنی بڑھی کہ سائرہ بی بی نے رات کو بھی اسے اپنے پاس رکھنے کی ضد شروع کردی۔ وہ سب سے چھوٹی اور انتہائی لاڈلی بیٹی تھی۔ بڑی بیگم نے اسے باقاعدہ ملازمت میں لے لیا۔ وہ اب دن رات کوٹھی ہی میں رہنے لگی۔ اسے نہیں پتہ تھا کہ اس کی ماں اس کی کتنی تنخواہ وصول کرتی ہے۔ اسے تو اب یہ خوشی تھی کہ وہ اب بڑی پیاری جگہ پر رہتی ہے اور اس کے پاس سائرہ بی بی کے خوبصورت فراک، سویٹر اور جوتے ہیں۔ سائرہ بی بی کی ساری اترنیں اسے ہی ملا کرتی تھیں۔ اس کے ذمے کوئی خاص کام نہیں تھا۔ پھر بھی بڑے بھیا کے دوسرے بیٹے منوّ میاں کو کھلانے میں اسے بڑا مزہ ملتا تھا۔ گول مٹول چھ سات ماہ کا بچہ اٹھائے پھرنے میں اسے بڑا سرور ملتا تھا اور یوں بھی جب سارے بچے گاڑی میں بیٹھ کر سیر کو جاتے تو موٹر میں بیٹھنے کا اس کا پاس معقول بہانہ ہوتا۔ وہ منے میاں کو کولہے پر بٹھائے آجاتی اور پھر نرم نرم گدوں والی موٹر میں گھس جاتی۔ اسے موٹر میں بیٹھنے کا اتنا مزا ملتا کہ کبھی اماں کی گود میں بھی نہ ملا ہوگا۔ بڑی بہو کو بھی بچے کی کھلائی مل گئی تھی۔ وہ بھی اس کا خاص خیال رکھنے لگی تھیں، چونکہ ان کا بچہ اس کے پاس رہتا تھا، اس لیے صفائی ستھرائی کا وہ خود خیال رکھتیں، کپڑے صاف پہناتیں۔ انھوں نے اسے بالوں میں روزانہ کنگھی کا حکم دیا تھا اور دانت صاف کرنے کے لیے منجن بھی منگوادیا تھا۔اس طرح صابن، تولیہ اور کنگھی بھی الگ دے دیے تھے۔ ننگے پاؤں پھرنے کی عادت تو وہ بھول ہی گئی۔

مہ و سال گزرتے گئے اور کوٹھی کے امیر بچوں کے ساتھ ساتھ کام بھی بدلتے گئے۔ منّو میاں بڑے ہوگئے تو سمکی کی دیکھ بھال اس کے سپرد کردی گئی۔ بچوں کے کپڑے دھونے اور استری کرنے کا کام بھی اس کے ذمہ کردیا گیا۔ پھر وہ سب بچوں کی وارڈن بنادی گئی۔ گھر میں کئی نوکر موجود تھے۔ بیرا، خانساماں، مالی و جمعداران۔ اس کے ذمہ کبھی کوئی بڑا کام نہیں آیا لیکن چھوٹے چھوٹے کاموں کی نگرانی کرتے کرتے وہ بڑی ہوتی گئی۔ کچھ بڑی بیگم کا جذبۂ ترحم تھا توکچھ سائرہ بی بی کی دوستی۔ اسے نوکر ہونے کا احساس نہ دلایا گیا۔ ایک مرکزی حیثیت لیے وہ نوکروں میں شامل رہی۔

وہ بارہ تیرہ برس کی تھی کہ کسی نوکر نے اس سے غیر شائستہ سا مذاق کیا۔ اس نے بڑی بیگم کو بتادیا تو جیسے طوفان آگیا۔ اسی وقت اس نوکر کو برطرف کردیا گیا۔ اب وہ بڑی بیگم کے پاس رہتی تھی۔ ان ہی کے چھوٹے موٹے کام کرتی تھی، بستر صاف ستھرا رکھتی، کرسیاں برابر کرتی، الماری میں کپڑے استری کرکے لٹکا دیتی اور رات بیگم کے پاؤں دباتے دباتے ان ہی کے کمرے میں سوجاتی۔

یہاں ملازمت کے بعد یہ اس کی زندگی کا خوشگوار تجربہ تھا۔ اتنا خوبصوت آراستہ و پیراستہ کمرہ جو سردیوں میں بڑے سے ہیٹر سے گرم رہتا اور گرمیوں میں ایئر کنڈیشنرز سے ٹھنڈا رکھا جاتا اس کا مسکن تھا۔ کام میں اس نے کبھی کوتاہی نہ برتی تھی۔ اس کی وجہ سے بیگم کو بڑا آرام مل رہا تھا۔ بیٹے بیٹیاں تو اپنی زندگیوں میں بٹ چکے تھے۔ وہی ان کے لیے سکون فراہم کررہی تھی۔ سائرہ بی بی سے تھوڑا بہت لکھنا پڑھنا بھی سیکھ لیا تھا۔ ذہانت قدرتی تھی۔ وہ اس ضمن میں بھی مراحل طے کرتی گئی اور اب اخبار، رسالے پڑھ کر بیگم کو سنانا اس کا مشغلہ تھا۔ غیر محسوس طریقے سے وہ بہت کچھ سیکھتی بھی جارہی تھی۔ اس کی معلومات میں بے پناہ اضافہ ہوگیا تھا۔ دنیا کس رنگ میں تھی، کن حالات سے گزر رہی تھی، سیاسی چکر کیسے چل رہے تھے، حکومتیں کیسے بن بگڑ رہی تھیں، اسے سب معلوم تھا۔

سائرہ بی بی کی سہیلیاں آتی یا وہ سہیلیوں کے ہاں جاتیں تو وہ ان کا بیگ اٹھائے ساتھ ہوتی۔ گھر پر ان کی سہیلیوں کی خاطر مدارات اسی کے ذمے تھی۔ اسے وقت کے اعتبار سے خاطر و مدارات کرنے کا سلیقہ آگیا تھا۔ اسے پتہ تھا کہ چائے کس وقت پیش کرنا ہوتی ہے، مشروب کس وقت دیا جاتا ہے۔ ٹرالی سجانا اسے بے حد مرغوب تھا۔

اس کے لیے رمضان کا رشتہ خوش بختی کی علامت قرار دیا گیا تھا۔ گلاس فیکٹری میں معقول تنخواہ پانے والا رمضان جس کے پاس شہر کے قریبی گاؤں میں اپنا ذاتی مکان بھی تھا اور جس کے گھر ہر وقت بوری دو بوری گیہوں چاول ضرور رہتے تھے، سب کی نظروں میں موزوں اور اچھا رشتہ تھا جبھی تو سارے خاندان والے اس شادی میں ہاتھ بٹا رہے تھے۔ کسی نے کپڑے دیے، کسی نے برتن ، کوئی پلنگ لے آیا، کوئی کرسیاں، کسی نے بستر بنانے اور کوئی بارات کا کھانا اپنے ذمے لے بیٹھا۔ نجو آپا نے سونے کی بالیاں دیں۔ بیگم صاحبہ نے لڑکے کے لیے سونے کی انگوٹھی بنوائی۔ دو جوڑے مردانہ کپڑے بنائے۔ سائرہ بی بی نے تو گوٹے والا لال جوڑا بڑی چاہت سے بنواکر دیا تھا۔

لیکن — لیکن! وہ جیسے کسی آزمائش سے دوچار تھی۔ اس سسرالی گھر کو وہ ذہنی طور پر قبول نہ کرسکی۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا۔ اس کی حالت کسی مغویہ کی سی تھی اور پھر …

وہ کیا کرے گی؟ وہ کیا کرے گی؟؟ سر ہاتھوں میں تھامے سوچتی رہی۔ اس زنداں میں زندگی کیسے کٹے گی۔ زندگی کے لوازمات، جن کی وہ عادی ہوچکی تھی، کہاں سے پائے گی۔ اپنے جِلاپائے ذہن کو پھر کیسے دھندلائے گی؟ اس کا جی چاہا یہاں سے بھاگ جائے۔ اس سخت دنیا سے نکل کر پھر اپنی دنیا میں پہنچ جائے، نرم و نفیس ملائم دنیا میں لیکن …

وہ نڈھال ہوکر بستر پر گر گئی۔ وہ فیصلہ نہ کرسکی کہ یہ دنیا اس کی ہے ،یاوہ — وہاں تو وہ ملازمہ تھی — اور یہاں مالکہ لیکن اس ملازمت کا احساس ہی کسی نے کب دلایا تھا۔اسے بڑی بیگم پر غصہ آنے لگا۔ اس نے سائرہ بی بی کو کوس ڈالا۔ اس نے نجو آپا، فائزہ، شمو بھابھی، سب ہی کو دل میں برا بھلا کہا لیکن پھر بھی اس کی ذہنی کوفت کم نہ ہوئی۔ بھلا ان بے چاروں کا کیا قصور؟ ان کی شفقتیں اتنی کم تو نہ تھیں کہ کوسنے دینے سے یہ بار ہلکا ہوجاتا۔

وہ سارا دن گم صم رہی، اس کے چہرے پر نئی سہاگن کی ضوفشانی تھی۔ وہاں تو کسی حرماں نصیب بیوہ کا سا سناٹا تھا۔ ایک اکتاہٹ اور بیزاری کا احساس تھا۔ یہاں ہر چیز اس کی ذہنی سطح سے کم تر تھی۔ اس سے کھانا بھی نہ کھایا جاسکا۔ سفید مٹی کے پیالے میں سالن، میلی سی چنگیر میں موٹی سی گھی والی روٹی اور پیتل کے لمبے سے گلاس میں لسّی۔ اس کا جی چاہا ہر چیز پھینک دے۔کیا دلہن کی خاطرداری ایسے ہوتی ہے۔ اس نے جلے دل و دماغ سے سوچا اور اس کے ذہن میں ٹیشو کے بھاری بھاری غراروں، کام دار دوپٹوں اور طلائی زیوروں سے لدی دلہنیں گھوم گئیں۔ ان کی خاطر داریاں، ناز برداریاں۔

لیکن—؟ اچانک، بالکل اچانک اس کی نظروں میں اپنا آپا گھوم گیا۔ وہ دلہن بھی تو ویسی نہ تھی۔ چمکیلی گہری سانولی کلائی پر کانچ کی سرخ چوڑیاں، پیتل کی دو انگوٹھیاں، کانوں میں آپا کی دی ہوئی بالیاں، بدن پر چھوٹی بیگم کا دیا ہوا جوڑا۔ پہلی بار اسے احساس ہوا کہ وہ سائرہ بی بی، نجو یا فائزہ نہیں، بشریٰ ہے۔ بشیراں جو ایک بیوہ ماں کی بیٹی ہے اور جو بڑے گھر کی بیٹی نہیں بلکہ صرف ملازمہ ہے۔ اسے بڑے گھر کی بیٹی کے انداز میں سوچنے کا کوئی حق نہیں۔

اور پھر شام تک اسی انداز میں سوچتی رہی۔ اس کے خیالات ٹوٹتے بکھرتے رہے۔ اس نے عہد کرلیا کہ وہ اپنے آپ کو اس ماحول میں ڈھال لے گی۔ اس کی ماں ایک غریب بیوہ ہے۔ اس سے تو یہاں کی حالت بہت بہتر ہے۔ وہ پاگل ہے جو یہاں کا موازنہ اس جہازی سائز محل نما کوٹھی سے کررہی ہے۔ ہزاروں دلیل دے کر اس نے اپنے آپ کو مطمئن کرلینا چاہا۔ شام کو اس نے کھانا بھی کھالیا۔ نوالے حلق میں پھنستے رہے اور وہ ہونٹوں پر لہو لہان مسکراہٹ لیے کھانا کھاتی رہی۔ رات اس نے رمضان کو بھی مسکرا کر دیکھا۔ وجیہہ و شکیل دولہے اس کی نظر کی آڑ میں آتے رہے لیکن وہ ان تصوراتی دولہوں کو کچل کر رمضان کے قریب آتی گئی۔ صبح اس کا شوہر ہشاش بشاش تھا۔ خوشی سے اس کی باچھیں کھل جاتی تھیں۔ اس کی خوشی کی خاطر اس نے کتنے بہلاوے، کتنے فریب دیے تھے اپنے آپ کو۔ وہ اپنے اوپر خول چڑھانے میں کامیاب ہوگئی تھی۔

اگلے دن اس کی ماں اور پھوپھی ملنے آگئیں۔ سیر بھر مٹھائی کا ڈبہ لیے جب وہ اس کے کمرے میں آئیں تو اسے ایک بار پھر سے بڑے گھر کا جھٹکا لگا۔ سیروں مٹھائیاں، ڈھیروں پھل، قیمتی جوڑے، ایک آدھ زیور اور بہت سے پیسے بھلا اس کی غریب ماں کے پاس کہاں سے آجاتا؟

ماں نے بڑے پیار سے اسے گلے لگایا۔ اس کے انداز میں تفاخر کی جھلک تھی۔ اس نے بشیراں کو اتنے اچھے گھر میں بیاہ دیا تھا۔ چار پائی پر بیٹھے بیٹھے اس نے کمرے کا جائزہ لیا۔ گیہوں اور چاول کی بوریاں، کانسی اور پیتل کے برتن، لحاف رکھنے کا بڑا صندوق، دھنی ہوئی روئی، اور رنگین پایوں والی چارپائیاں، ماں خوشی سے پھولی نہ سمارہی تھی۔ اس نے سرگوشی کے انداز میں نند کو ساری چیزیں دکھاتے ہوئے کہا: اپنی بشیراں خوش بخت ہے۔

وہ کھوئی کھوئی ماں کے پہلو سے لگی سہمی رہی۔ اچانک اسے اپنی چھوٹی بہن کا خیال آگیا: ’’ماں صابراں کو بھی لے آتیں۔‘‘ اس نے شاکی نظروںسے ماں کو دیکھا۔

’’وہ کوٹھی گئی ہوئی تھی۔‘‘ ماں نے اک شانِ استغناء سے جواب دیا۔

’’کیوں؟‘‘ بشیراں سیدھی ہوکر بیٹھ گئی۔

’’تمہاری جگہ بڑی بیگم نے اسے رکھ لیا ہے۔‘‘ ماں نے ہنس کر جواب دیا۔

’’ماں — !‘‘ بشیراں ایک دم چیخ اٹھی: ’’اسے کیوں بھیج دیا وہاں—؟‘‘

’’کیوں کیا ہوا بیٹی؟‘‘ ماں اور پھوپھی دونوں حیران ہوکر اسے دیکھنے لگیں۔

’’اسے واپس بلا لو ماں، خدا کے واسطے اسے واپس بلالو۔‘‘ بشیراں نے دونوں ہاتھوں سے سر تھام لیا۔

’’بشیراں!‘‘ ماں گھبرا گئی، دل دھک دھک کرنے لگا۔ وہ ہراساں نظروں سے بیٹی کو دیکھنے لگی۔

’’ابھی جاکر اسے واپس لے آؤ — اسے وہاں نہیں بھیجنا۔ خدا کے واسطے وہاں نہ بھیجنا، نہیں تو — نہیں — تو ‘‘ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

’’نہیں تو — کیا؟‘‘ ماں کا رنگ فق ہوگیا۔ اس نے بشیراں کا کندھا جھنجھوڑ ڈالا۔

’’نہیں تو، نہیں تو صابراں کے خول میں بھی سائرہ گھس جائے گی ماں، اسے صابراں ہی رہنے د و۔ صابراں ہی رہنے دو۔‘‘

وہ بے اختیار ہوکر رونے لگی۔ ماں اور پھوپھی پاگلوں کی طرح اس کا منھ تک رہی تھیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں