شعر و ادب کی دنیاکی ایک معروف شخصیت مغرب سے کچھ دیر قبل کمزوری کے عالم میں خراماں خرماں چلی جارہی تھی۔ مضمون نگار نے انہیں دیکھ کر سلام کیا اور خیریت دریافت کی۔ کہنے لگے : ’’کیا بتائیں؟ پریشان ہیں بڑھاپے کے اس عالم میں۔‘‘ دوسروں کے لیے تو اولڈ ایج ہوم ہیں مگر ہمارے لیے وہ بھی نہیں۔ اول تو ہم جیسوں کو کوئی لیتا نہیں اور اگر مل بھی جائے تو وہاں نہ نماز، نہ دینی ماحول! کیا یہاں جماعت کے پاس ایسا کچھ ہے یا کسی اور شہر میں! طبیعت کو ایک جھٹکا لگا اور کئی روز تک ان کا کرب ذہن کو اذیت دیتا رہا۔
کوئی دو سال قبل سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہوئی جس میں اسکول کے کئی بچے تھے۔ ان میں سے ایک بچی ایک بڑھیا سے گلے مل رہی تھی اور دونوں زارو قطار رو رہے تھے۔ دراصل یہ بڑھیا اس بچی کی دادی تھی، جن سے وہ بچی بہت محبت کرتی تھی، اور وہ بڑھیا اس بچی سے۔ بڑھیا کئی ہفتوں سے گھر سے غائب تھی۔ پوچھنے پر اس کے باپ بتاتے تھے کہ وہ اپنے رشتہ دار کے یہاں گئی ہوئی ہیں اور آجائیں گی۔ مگر نہیں آئیں۔ ایک روز اسکول کی جانب سے بچوں کے لیے ایک اولڈ ایج ہوم کا وزٹ طے ہوا تھا۔ اس دوران بچی نے اپنی دادی کو اولڈ ایج ہوم میں دیکھا تو دونوں گلے مل کر زاروقطار رونے لگیں۔اُف! کس قدر جذباتی منظر تھا!
یہ ہمارے سماج کی دو تصویریں ہیں۔ ایک تصویر میں ایک بے سہارا ادیب بڑھاپے کی ایام گزارنے کے لیے مناسب جگہ کی تلاش میں ہے اور اسے سماجی ضرورت قرار دیا جائے۔ اور دوسری تصویر میں ایک خوش حال اور تعلیمی اعتبار سے ’مہذب‘ خاندان اپنی بڑھیا ماں کو اولڈ ایچ ہوم میں دھوکے سے چھوڑ آتا ہے۔ بڑھیا اپنے پوتے پوتیوں کو بہت چاہتی ہے اور وہ بھی اپنی دادی سے بے حد محبت کرتے ہیں اور اس کی کمی کو شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ ہاں ان بچوں کا باپ اور اس بڑھیا کا بیٹا اس محبت اور جذباتی لگاؤ سے محروم ہے۔ وہ بڑھیا کو بھی دھوکہ دے چکا ہے اور اپنے بچوں سے بھی غلط بیانی کررہا ہے۔ یہ سنگ دلی، فرض ناشناسی اور خودغرضی ہے۔
ویڈیو دیکھنے کے لیے کلک کریں!
بزرگوں کی خدمت اور اسلام-مولانا رضی الاسلام ندوی
ان دو تصویروں کے علاوہ سماج کے پاس ایک بڑا تصویروں کا البم بھی ہے جس میں بے شمار ایسے معذور، مجبور اور پریشان بزرگوں کی تصویریں ہیں جوگھر کے کسی کونے میں کسمپرسی کی حالت میں زندگی کی سانسیں گن رہے ہیں، ان کے اپنے، جو اسی گھر میں رہتے ہیں ان کی خبر نہیں لیتے۔ عبرت کے لیے اس البم سے ایک تصویر اور دکھاتے ہیں۔ قارئین یہ نہ سوچیں کہ کس مذہب کے ماننے والے کی تصویر ہے۔ یہ ایک انسان کی ہی تصویر ہے اور بس! تصویر دیکھئے!
جیت رام (بدلا ہوا نام) اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہے۔ بڑی زمین جائدادکی مالک۔ یہ زمین جائداد اسے باپ ہی سے ملی ہے۔ جیت رام ایک پلیٹ میں دال چاول رکھ کر بوڑھے باپ کے پاس لے جاتا ہے، ’لوکھالو! قبل اس کے کہ باپ وہ پلیٹ پکڑتا وہ اپنا ہاتھ بوڑھے کی طرح کپکپاکر زمین پر گرادیتا ہے۔ باپ دیکھتا ہے یہ کیا ہوگیا۔ وہ کہتا ہے (طنز کے ساتھ) : ’’یہ تو گرگئی۔‘‘ پھر ہاتھ گھما کر پوچھتا ہے: ’’یہ تو گرگئی اب کیا کھاؤگے؟‘‘ وہ دو تین بار یہی سوال کرتا ہے۔ باپ کہتا ہے: ’’بیٹا جو تو دے گا وہی کھالوں گا۔‘‘ بیٹا جواب دیتا ہے: ’’تمہارے لیے تو بس یہی تھی اور یہ گر گیا اب شام تک انتظار کرو۔‘‘
سماج کے البم میں موجود تصویروں میں سے ہر ایک اسی قدر سنگدلی، ناشکری اور ظلم و جبر کی ہو ضروری نہیں مگر کسمپرسی، بے چارگی اور مجبوری کی تصویریں تو ہر قاری نے کسی نہ کسی صورت ضرور دیکھی ہوں گی۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ غوروفکر کی چیز ہے۔ انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ یہ کسی صحت مند سماج، بلند اقدار کے حامل معاشرے یا صحت مند سوچ رکھنے والے افراد یا خاندان کی تو نہیں ہوسکتیں۔ ہم بزعم خود یہ سوچ بلکہ کہہ بھی سکتے ہیں کہ مسلم سماج میںایسانہیں ہوتا۔ عرض ہے کہ ہوتا ہے یا نہیں اس کا دعویٰ بے جا ہے۔ کیونکہ مسلم سماج بھی اسی سماج کا حصہ ہے جس میں یہ سب ہوتا ہے اورہورہا ہے۔
موجودہ دور میں منظم طریقے سے چلائے جانے والے ’اولڈ ایج ہوم‘ بنیادی طور پر مغرب کی دین ہیں جو ایک سماجی ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔ مغرب کی خصوصیت یہ ہے کہ اپنے خاندانی نظام کے کمزور پڑنے کے سبب بزرگوں کو اس حالت زار سے نکالنے کے لیے اس نے کچھ انتظام تو کیا ہے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ وہاں حکومتیں اور ادارے دونوں ہی سماجی ضرورتوں اور انسانوں کو ہونے والی پریشانیوں کے لیے حساس اور ذمہ دار ہیں اور دوسرے سماج اور باقی دنیا کی حکومتیں اس سلسلے میں نہ حساس ہیں اور نہ ذمہ دار چنانچہ ہمارے یہاں حالت خراب ہے۔
‘SAMARTH’ نام کی ایک این جی او کی تحقیق کے مطابق، جو اس نے 2018میں کی تھی، اس وقت ملک میں 97000 سیٹیں اولڈ ایج ہومس میں دستیاب ہیں جبکہ اندازے کے مطابق 2028 تک 900000 سیٹوں کی ضرورت ہوگی۔ 2016 میں ملک میں اولڈ ایج ہومس کی کل تعداد تقریبا 500 تھی جو 2021 میں بڑھ کر 728 ہوگئی۔ ان میں 325 ہی ایسے ہیں جہاں بزرگوں کو مفت قیام و طعام اور صحت سے متعلق سہولیات مفت دستیاب ہوتی ہیں۔ باقی تمام ایسے ہیں جہاں ہر قسم کی خدمات کے عوض ادائیگی کرنی ہوتی ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اولڈ ایج افراد کے سلسلے میں ملک کی سب سے تعلیم یافتہ ریاست کیرلا سرِ فہرست ہے جہاں اس طرح کی ڈیمانڈ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اولڈ ایج ہوم میں بڑھاپے کے دن گزارنے کی سوچ اور اس سلسلے کی معلومات صرف پڑھے لکھے اور خوشحال خاندانوں کے افراد ہی کو ہوتی ہیں۔ رہے گاؤں دیہات کے ناخواندہ اور غریب افراد، تو ان کو یہ معلوم ہی نہیں ہو پاتا کہ ان کی عمر کے افراد کے لیے اولڈ ایج ہوم جیسی بھی کوئی سہولت ہے۔
اوپر ہم نے ’مذہبی معاشروں کا ذکر کیا تھا اور کہا تھا کہ مسلم سماج یہ سوچ سکتا ہے کہ وہ اس سے محفوظ ہے۔ جبکہ حقیقت یہ نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے پڑوسی ملک پاکستان سے متعلق معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی جو ایک مسلم ملک ہے۔ اسی طرح سعودی عرب سے متعلق بھی اعداد و شمار دیکھے جنھیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں مسلم اور غیر مسلم سماج کی تفریق بہت زیادہ معنی نہیں رکھتی۔ ضرورت ہر جگہ یکساں ہے اور سرکاری و غیر سرکاری ادارے اس سمت میں کام کرنے کی ضرورت محسوس کررہے ہیں۔ پاکستان میں ایدھی فاؤنڈیشن، سینئر سیٹیز فاؤنڈیشن اور نجات ٹرسٹ جیسے ادارے اس محاذ پر کام کررہے ہیں۔ حکومت پنجاب (پاکستان) کا شعبہ سماجی بہبود ’عافیت گھر‘ کے نام سے ریاست میں کم از کم 6 عافیت گھر چلاتی ہے۔ صرف لاہور شہر کے 8 اولڈ ایج ہومس میں 700 سے زیادہ افراد مقیم ہیں۔ اسی شہر کے بارے میں یہ بات بھی کہی گئی ہے 1989 میں یہاں نیوکلیر خاندانوں کا تناسب 54% تھا جو 2020 میں بڑھ کر 89 فیصد ہوگیا۔ جبکہ کراچی میں اس وقت کم از کم 5 ایسے اولڈ ایج ہومس ہیں جن میں کئی ایک ہزار افراد مقیم ہیں۔ عرب نیوز کے مطابق صرف جدہ شہد میں 62 اولڈ ایج ہومس ہیں جنھیں سعودی حکومت کا شعبۂ صحت عامہ چلاتا ہے۔ اسی طرح کے گھر ریاض اور دمام میں بھی موجود ہیں جن میں سعودی شہریت رکھنے والے افراد کے علاوہ کچھ دیگر افراد بھی قیام کرتے ہیں ۔
صورت حال کے اسباب
وریشا شرما اولڈ ایج ہوم کے ٹرسٹی پرمود سنگھ سے جو پوچھا گیا کہ لوگ یہاں کیوں آتے ہیں تو ان کا کہنا تھا:
’’لوگ، خاص طور پر شادی شدہ جوڑے، اس دور میں اکیلے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کی اولادیں دوسرے شہروں یا ملکوں میں کام کرتی ہیں اور وہ یہاں اکیلے رہنے پر مجبور ہیں، کچھ لوگ وہ بھی ہیں جو اپنے بوڑھے ماں باپ کی دیکھ بھال کی زحمت اٹھانا نہیں چاہتے۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں:
’’وہ (شادی شدہ جوڑے) اپنی پرائیویسی میں دخل اندازی نہیں چاہتے اور اسی گھر میں بوڑھے والدین کا رہنا ان کی پرائیویسی میں دخل انداز ہوتا ہے۔‘‘
مدر ٹریسا اولڈ ایج ہوم، حضرت گنج لکھنؤ میں مقیم ایک بزرگ نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ:
’’آج میں جس جگہ قیام پذیر ہوں، وہاں رہنے کا خرچ برداشت نہیں کرسکتا تھا، اگر یہ اولڈ ایج ہوم چیرٹیبل نہ ہوتا۔میرے بچوں نے مجھے چھوڑ دیا کیونکہ وہ میرے علاج کا خرچ برداشت نہیں کرسکتے تھے۔‘‘ وہ اپنے اس قیام کو خوش قسمتی تصور کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ :
’’یہاں ہماری زندگی پہلے سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ ہر فرد ایک خاندان کی طرح محسوس کرتا ہے۔ میں ان کے ساتھ ہر قسم کی بات چیت کرسکتا ہوں، لوگ ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں اور کبھی تنہائی کا احساس نہیں ہوتا۔‘‘
اوپر ہم نے جو بیانات درج کیے ہیں ان سے یہ بات تو صاف ہے کہ یہ اسباب ہماری اپنی سوچ اور طرزِفکر و عمل نے تشکیل دیے ہیں۔ اگر اولاد والدین سے جذباتی لگاؤ رکھتی ہو، دل میں محبت کی قدر ہو اور رشتوں کا احترام قائم ہو تو پرائیویسی جیسی چیزیں بہت معمولی قربانی ہے۔ اسی طرح اگر نئی نسل بزرگوں کی محنت اور شفقت کو جو انھوں نے بچپن میں اولاد کو دی، سمجھنے کی کوشش کرے تو روزگار کے لیے حائل دوری کو بھی ختم کیا جاسکتا ہے اور کیا جانا چاہیے۔ وہ والدین کو ساتھ رکھ کر بھی ختم کی جاسکتی ہے اور والدین کے ساتھ آکر رہنے سے بھی ختم کی جاسکتی ہے مگر اس کے لیے سینے میں دھڑکتا دل جذبہ محبت و قربانی مطلوب ہے۔ جو موجودہ نسل میں بتدریج کم یا ختم ہورہا ہے۔
ہمارے ملک میں اولڈ ایج ہومس موجودہ وقت میں کوئی ایک لاکھ افراد کو یا کچھ زیادہ کو قیام کی سہولیات فراہم کررہے ہیں۔ اگر سماج کے باشعور لوگ ترجیحی بنیادوں پر اسے بڑھا کر مزید کئی لاکھ بھی کردیں تو کیا سماج کے تمام بزرگوں کا مسئلہ حل ہوجائے گا؟ یہ سوچنے کی چیز ہے۔ حقیقت میں کئی لاکھ لوگوں کے قیام کے انتظام کی صورت میں بھی ملک و سماج کے تمام بزرگوں کی حالت زار درست نہیں ہوسکے گی اگر ہوگی بھی تو محض چند لاکھ افراد کی۔ جبکہ بزرگوں کی تعداد تو اس سے کہیں زیادہ ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ یہ کچھ لوگوں کو تو شیلٹر فراہم کررہے ہیں مگر لاکھوں بلکہ اس سے بھی زیادہ ہمارے سماج کے بزرگ مرد و خواتین اس کے محتاج ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ایسے لوگ ہمارے پڑوس میں ہی موجود ہوں اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ ہمارے اپنے گھر میں بھی کوئی بزرگ اجنبیت محسوس کررہا ہو اور اسے ہمارے خصوصی تعلق، جذبۂ محبت اور خدمت کی ضرورت ہو اور ہم اس کی ضرورت کو محسوس نہ کرپا رہے ہوں۔ کوئی ضروری نہیں کہ آپ کے آس پاس جیت رام والا برتاؤ کرنے والا ہی نظر آئے تو آپ محسوس کریں یا دادی اور پوتی جیسا منظر دیکھے تبھی آپ بزرگوں کی خدمت اور دیکھ بھال کی طرف متوجہ ہوں۔ اپنے پاس پڑوس میں دیکھئے، اپنے ہی گھر میں جھانکئے اور اخیر میں اپنے ہی دل سے پوچھئے کہ کیا وہ اپنے گھر کے بزرگوں کےساتھ ویسا ہی معاملہ کررہے ہیں جیسا اس عمر میں پہنچ کر اپنے ساتھ ہونے کی خواہش رکھتے ہیں؟ ہم اور آپ ابھی اس مرحلے میں نہیں لیکن مستقبل تو وہیں سے ہوکر گزرنے والا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اپنے سینے میں ایک ایسے دل کی اللہ سے توفیق مانگئے جس میں جذبۂ محبت ہو، جذبۂ خدمت ہو اور جو بزرگوں کی خدمت کرکے اپنی دنیا وآخرت کی فلاح کا طلب گار ہو۔ رہی بات سماج کے بزرگوں کی تو ان کے ساتھ پیار و محبت کی گفتگو، حوصلہ اور تسلی کے الفاظ اور تھوڑی سی خدمت ان کے لیے بھی زندگی کو آسان کرسکتے ہیں اس کے لیے رشتہ داری ضروری نہیں اور نہ ہی بزرگ کا ہم مذہب ہونا لازمی ہے۔ یہ محض انسانی جذبہ کا محتاج ہے۔ اس طرح کی خدمات یقیناً آپ کو بھی زندگی کی لذت سے ہم کنار کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ آگے کی سطح کیا ہوسکتی ہے اور ہم آپ کیا کرسکتے ہیں یہ تو انفرادی طور پر سوچنے اور کرنے کی بات ہے۔
اتنا طے ہے کہ اولڈ ایج ہوم سماج کی ضرورت بن گئے ہیں مگر یہ کچھ لوگوں کی ضرورت ہی پوری کرسکتے ہیں مگر پورے سماج کی ضرورت تو اسی صورت میں پوری ہوسکتی ہے جب اپنے گھروں کو ہی بزرگوں کے لیے جنت اور عافیت کا گھر بنائیں اور اپنے دل و دماغ، اپنی تجوریوں اور اپنے جذبۂ محبت کو ان کے لیے کھول کر رکھیں آخر ہم اور ہمارا مال بھی تو بنیادی طور پر انہی کی ذات کا مرہون منت ہے۔
یہ بھی پڑھیں!
https://hijabislami.in/1168/
https://hijabislami.in/7651/
https://hijabislami.in/1970/