اولڈ ایج ہوم کے قیدی

جمیل نظام آبادی، نظام آباد

بس پوری رفتار سے منزل کی طرف دوڑ رہی تھی۔ آج اتوار کی تعطیل کی وجہ سے بس میں رش کم تھا۔ میں اپنے بھائی کی صحت کی خرابی کی اطلاع ملتے ہی اس سے ملنے اور اسے دیکھنے کے لیے جارہا تھا۔ بس اچھی رفتار سے دوڑ رہی تھی مگر مجھے اس کی رفتار کم لگ رہی تھی۔ میں چاہتا تھا کہ جلد سے جلد اپنے بھائی کی پاس پہنچوں۔ وہ اس شہر میں اکیلا تھا۔ بچے ابھی چھوٹے تھے۔ گھر کی پوری ذمہ داری اسی پر تھی۔ اپنا کاروبار چلانا، گھر کا سودا سلف لانا، صبح ناشتہ کرواکر بچوں کو اسکول پہنچانا۔ شام میں بچوں کو اسکول سے واپس گھر لانا، وہ اکیلا ہی سب کچھ کرلیتا تھا۔ اب وہ بیمار ہوکر دوا خانے میں تھا اور اس کے پاس وہاں بھی کوئی نہ تھا۔ اس کی بیوی گھر اور بچوں کی دیکھ بھال میں مصروف تھی۔ گھراور بچوں کو دیکھنا، دوا خانے میں بیمار شوہر کی دیکھ بھال بھلا اس اکیلی سے کیسے ہوتی۔ چنانچہ جب اس سے سنبھالا نہیں گیا تو اس نے فون پر اپنے شوہر کی بیماری کی اطلاع دی اور مجھے جلد آنے کے لیے کہا۔ میں نے فون پر اسے حوصلہ دیا اور کہا کہ میں ابھی یہاں سے نکل رہا ہوں، جلد ہی پہنچ جاؤں گا۔مجھے بس بھی جلد ہی مل گئی۔ میں اب تیزی سے اپنے بھائی کے شہر کی طرف جارہا تھا۔ بس جب بھی کسی چھوٹے گاؤں پر ٹھہرتی تو مجھے ناگوار لگتا۔ میرے خیالات بھی بس کی رفتار سے دوڑ رہے تھے۔ میں اپنے بھائی کی بیماری کے بارے ہی میں سوچ رہا تھا۔ پتہ نہیں اس کی حالت کیسی ہے اس کی بیوی نے کہا تھا کہ سینے میں سخت تکلیف ہورہی تھی۔ڈاکٹر نے معائنہ کے بعد دوا خانہ میں ایڈمٹ ہونے کو کہا تھا۔ سینے میں تکلیف کا صاف مطلب دل کا عارضہ ہے، میں نے سوچا، دل کے عارضے کا سوچ کر مجھے تشویش ہونا فطری بات تھی۔
بس جب ایک چھوٹے سے مقام پر جھٹکے کے ساتھ رکی تو میرے خیالات کو بھی جھٹکا لگا۔ میں نے کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا۔ یہ ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جو اس سارے علاقے میں ترکاری کی کاشت کے لیے مشہور تھا یہاں سے ترکاریاں دور دور بھجوائی جاتی تھیں۔ اچھی کاشت کی وجہ سے یہا ںکے لوگوں کی معاشی حالت بھی اچھی تھی۔
یہاں بس سے تین مسافر اترے اور دو نئے مسافر سوار ہوئے۔ دونوں ہی بڑی عمر کے تھے ۶۵ اور ستّربرس سے اوپرہی ہوں گے۔ میں نے انھیں غور سے دیکھا۔ وہ میری جانب ہی آرہے تھے۔ میں تین نشستوں والی سیٹ پر اکیلا بیٹھا ہوا تھا میرے بازوں کی دو سیٹیں خالی تھیں۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو سنبھالتے ہوئے میرے بازو میں آکر بیٹھ گئے۔ دونوں خوش پوش اور صحت مند تھے۔ پڑھے لکھے بھی لگ رہے تھے۔ بس چل پڑی۔ اُن میں سے ایک نے کنڈیکٹر کو اسی مقام کا ٹکٹ دینے کو کہا جہاں میں جارہا تھا۔ دوسرے ساتھی نے پیسے دینے چاہے تو پہلے نے منع کردیا اور خود دونوں کے ٹکٹ کے پیسے ادا کیے۔ جب کنڈکٹر ٹکٹ دے کر جاچکا تو ایک نے کہا: ’’عید کے کتنے دنوں بعد واپس آؤگے رحمت علی۔‘‘
ان میں سے ایک کا نام رحمت علی تھا۔ جواب میں رحمت علی نے کہا:
’’پرسوں عید ہے۔ رمضان کی عید کے بعد بھی دو تین دنوں تک ملنے ملانے کا سلسلہ چلتا رہتا ہے، دوست احباب رشتے دار ملنے اور عید کی مبارکباد دینے کے لیے آتے رہتے ہیں۔‘‘ رحمت علی کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔ انھوں نے کہا:’’میں پانچ دن کے بعد ہی واپس آسکوں گا ریڈی صاحب۔‘‘
اب مجھے دوسرے ساتھی کا نام بھی معلوم ہوگیا کہ یہ ریڈی صاحب ہیں۔ ایک مسلم اور دوسرا ہندو اور دونوں دوست ’’تو ہمیں پانچ دنوں تک آپ کے بغیر رہنا پڑے گا۔‘‘ ریڈی صاحب کہہ رہے تھے۔ ’’ذرا جلدی لوٹ آؤ بھائی۔ تمہارے بنا میرا دل نہیں لگے گا۔‘‘ پھر انھوں نے کہا: ’’سچ تو یہ ہے کہ اب ہم ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ بڑی مشکل سے اس اولڈ ایج ہوم میں خود کو ایڈجسٹ کرسکے ہیں۔ اب اپنا تو کوئی پرسانِ حال نہ رہا۔اب زندگی کے باقی دن ہم کو ایک دوسرے کے سہارے ہی کاٹنے ہیں۔ اگر تم نہ ہو تو یہ اولڈ ایج ہوم مجھے کاٹنے آتا ہے۔‘‘
’’ہاں ریڈی صاحب! آپ سچ کہہ رہے ہیں۔ رحمت علی نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا: ’’اب ہم ایک دوسرے کے دوست بھی ہیں اور خود اپنے اپنے بھی۔‘‘ وہ خالی خالی آنکھوں سے ریڈی صاحب کے چہرے کو گھورتے ہوئے کہنے لگے ’’اب اس دنیا میں کون ہے وہ جسے ہم اپنا کہہ سکیں۔‘‘
’’ہاں رحمت علی۔‘‘ ریڈی صاحب کہنے لگے ’’کیا نہیں تھا اپنے پاس۔ بیوی، بچے، بھرا پرا گھر، ایک بڑا خاندان دوست احباب، رشتہ دار، مگر اب کون اپنا رہا۔ سبھی اپنے بیگانے ہوگئے۔ اب اس عمر میں جہاں ایک شخص کو سب کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ ایک خاندان کا سربراہ بن کر تمام اپنوں کے بیچ جینا چاہتا ہے۔ مگر ہم ایسے بدنصیب ہیں کہ سب کچھ رکھتے ہوئے اس اولڈ ایج ہوم میں کسی پر کٹے پرندے کی طرح پڑے ہوئے ہیں اپنی موت کے انتظار میں۔‘‘ یہ کہتے کہتے ریڈی صاحب کی آنکھ سے آنسو چھلک پڑے۔
ان دونوں کی درد بھری باتیں سن کر مجھے ان میں دلچسپی پیدا ہوئی اور میں انجان بنا ان کی باتیں سننے لگا۔
پھر ریڈی صاحب نے کہا: ’’یہ جینا بھی کوئی جینا ہے۔ بے بس، بیکس، لاوراث‘‘
’’دل چھوٹا نہ کرو ریڈی صاحب‘‘ رحمت علی نے کہا۔ ’’ہم نے جس طرح خودداری سے اب تک جیا ہے آگے بھی جب تک زندگی ہے اسی طرح خودداری سے جئیں گے۔ دنیا والوں سے اپنا غم چھپائے ہوئے۔‘‘
پھر ریڈی صاحب نے کہا: ’’تمہارا ایک بیٹا ایسا تو ہے جس نے عید پر ہی سہی اپنے گھر بلایا تو ہے اور دوچار دن ہی کے لیے سہی تم اپنے بیٹے کے گھر جاتو رہے ہو، مجھے دیکھو، دو سال سے مجھے دیکھنے کے لیے کوئی نہیں آیا۔ میرے تو چار چار بیٹے ہیں۔ سب کے سب تعلیم یافتہ، اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں سب لیکن انھیں اپنے باپ کی فکر نہیں جس باپ نے انھیں پالنے پوسنے اور پڑھانے لکھانے میں اپنی زندگی بھر کی کمائی لگادی۔ انھیں اچھی ملازمتیں دلوائیں۔ اچھے گھرانوں میں ان کی شادیاں کروائیں۔ انھیں زندگی کا ہر سکھ فراہم کیا۔ اب ان میں سے کوئی امریکہ میں ہے کوئی ممبئی میں ہے تو کوئی چنئی میں۔ سب خوشحال اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف ہیں سب کو اپنے اپنے بچوں کی فکر ہے۔ بس فکر نہیں ہے تو اپنے باپ کی۔ انھیں وہ بوڑھا باپ یاد نہیں آتا جس نے انھیں پالا پوسا، پڑھایا لکھایا، بڑا کیا اور جس نے ان کی خوشی اور ان کے مستقبل کے لیے اپنا سب کچھ قربان کیا۔‘‘ ریڈی صاحب کی آواز پھر گلوگیر ہوگئی۔
اب مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے کہا:’’معاف کیجیے۔ میں آپ کی باتوں میں مداخلت کررہا ہوں۔ کیا آپ دونوں اولڈ ایج ہوم میں رہتے ہیں؟ کیا اس گاؤں میں اولڈ ایج ہوم بھی ہے؟‘‘
رحمت علی صاحب نے کہا: ’’ہاں، یہاں ایک اولڈ ایج ہوم ہے اور ہم دونوں اسی میں رہتے ہیں۔ ہمارے علاوہ اور بھی کئی لاوارث بوڑھے ہیں جو ماہانہ پانچ ہزار روپیہ ادا کرکے بحیثیت پے اینگ گیسٹ رہتے ہیں۔‘‘ رحمت علی صاحب بتاتے رہے کہ ’’ان بوڑھوں میں اکثر ملازمتوں سے ریٹائرڈ لوگ ہیں جو اپنے پنشن کی رقم میں سے ماہانہ پانچ ہزار روپیہ ادا کرکے یہاں رہتے ہیں۔ یہاں ہم بوڑھوں کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں ہے۔ بس ایک ہی تکلیف ہے سب کو کہ سب اپنوں سے دور تنہائی کا درد سہہ رہے ہیں۔‘‘
میں نے پوچھا: ’’آپ کی بیویاں کہاں ہیں۔‘‘
’’ہماری بیویوں کا انتقال ہوئے چار پانچ سال کا عرصہ ہوا۔‘‘ رحمت علی صاحب نے کہا’’جب تک ہماری بیویاں زندہ تھیں ہمارا اپنا ایک گھر تھا، ایک بڑا خوشحال خاندان تھا۔ میرے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ ریڈی صاحب کے چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ سب کو لکھایا پڑھایا، ملازمتیں دلوائیں سب کی شادیاں ہم نے دھوم دھام سے کیں۔ بیٹیوں کو اچھے گھروں میں بیاہا۔ میری دونوں بیٹیاں سعودی عرب میں اپنے شوہروں کے ساتھ ہیں۔ ریڈی صاحب کی بیٹی امریکہ میں رہتی ہے۔‘‘ رحمت علی صاحب تفصیل سے اپنے گھروں کے حالات بتانے لگے۔ میرے تینوں بیٹے سرکاری ملازم ہیں، اچھے عہدوں پر ہیں، بڑا بیٹا ریلویز میں ہے کلکتہ میں رہتا ہے۔ دوسرا بیٹا ایک امریکی کمپنی میں ملازم ہے، ممبئی میں رہتا ہے، چھوٹا بیٹا لیکچرار ہے، یہاں قریبی شہر ہی میں رہتا ہے۔ اسی نے عید منانے مجھے اپنے گھر بلایا ہے اور میں وہیں جارہا ہوں۔ ریڈی صاحب کا بڑا بیٹا امریکہ منتقل ہوگیا ہے۔ ایک بیٹا دوبئی میں رہتا ہے اور دو بیٹے چنئی میں رہتے ہیں۔ سرکاری ملازم ہیں، اچھے عہدوں پر فائز ہیں۔‘‘
ریڈی صاحب نے رحمت علی کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا’’لیکن یہ ہمارے کس کام کے۔ ان کے بڑے بڑے گھروں میں ہمارے رہنے کے لیے چھوٹی سی جگہ بھی نہیں ہے۔‘‘ ریڈی صاحب چشمہ نکال کر آنکھ صاف کرنے لگے۔
’’وہ تو اچھا ہے کہ ہم نے بھی سرکاری ملازمت کی ہے۔ اب ریٹائرڈ ہوگئے ہیں، اچھی پنشن ملتی ہے۔ ماہانہ پانچ ہزار روپیہ اولڈ ایج ہوم کو ادا کرنے کے بعد بھی ہمارے پاس ہزاروں روپئے بچ جاتے ہیں۔‘‘ رحمت علی صاحب کہہ رہے تھے ’’اب ہمارے اکاؤنٹ میں لاکھوں روپئے پڑے ہوئے ہیں، پیسوں کے معاملے میں ہم لکھ پتی ہیں، لیکن پیار محبت اور اپنائیت کے معاملے میں ہم کنگال ہیں۔‘‘
ریڈی نے کہا: ’’ذرا سوچئے! اگر ہماری پنشن نہ ہوتی تو ہمارا کیا ہوتا۔ ہم کہاں رہتے۔ اپنے بچوں کے ہوتے ہوئے بھی ہم ریلوے پلیٹ فارم پر لاوارث پڑے ہوتے۔ بھیک مانگ رہے ہوتے۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگئے۔ اُن کی آنکھیں کھڑکی کے باہر خلا میں اس طرح گھور رہی تھیں جیسے وہ اپنا کھویا ہوا گھر تلاش کررہی ہوں۔‘‘
تھوڑی دیر تک ہم تینوں بھی خاموش رہے۔ انھیں دلاسا دینے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں تھے۔ بس شہر کے حدود میں داخل ہورہی تھی۔ تھوڑی دیر میں یہ سفر ختم ہونے والا تھا۔
دفعتاً ریڈی صاحب نے مجھ سے پوچھا: ’’آپ کے کتنے بچے ہیں اور وہ کیا کرتے ہیں؟‘‘
میں نے نظر اٹھا کر ریڈی صاحب کی طرف دیکھا اور دھیمی آواز میں بولا: ’’مجھے اولاد نہیں ہوئی۔‘‘
یہ سن کر رحمت علی صاحب نے مجھے ہمدردانہ نظر سے دیکھتے ہوئے کہا: ’’بیوی ہے؟‘‘
میں نے کہا: ’’ہاں بیوی ہے میرے ساتھ ہی میرے چھوٹے سے گھر میںرہتی ہے۔ میری خدمت کرتی ہے۔‘‘
’’اللہ آپ دونوں کو سلامت رکھے۔‘‘ رحمت علی صاحب نے دعائیہ انداز میں کہا۔ ’’بھائی صاحب! آپ کو صرف ایک غم ہے کہ آپ کو اللہ نے اولاد نہیں دی۔ آپ ہماری طرح اولاد کے ستائے ہوئے تو نہیں ہیں۔‘‘
ریڈی صاحب نے کہا: ’’آپ کا چھوٹا ہی سہی گھر تو ہے ہماری طرح اولڈ ایج ہوم کے زخمی قیدی تو نہیں ہیں۔‘‘
بس ایک جھٹکے کے ساتھ رک گئی اور میں انھیں خالی نظروں سے دیکھتا ہوا بس سے اتر گیا۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146