آخری صف کا نمازی اور مٹھائی کا ڈبہ

سیف عزیر، جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی

کہتے نمازی اورمٹھائی کا ڈبہ ایسے ہی ہے جیسے مغرب ، مشرق اور بحر ہند کا کوئی ٹاپو ۔۔۔ اگر آپ کو ان تینوں کے درمیان تعلق کی کوئی لاجک سمجھ میں آجائے تو ہمیں بھی بتا دیں۔البتہ اتنا ضرور ہے کہ نماز صرف نمازی پڑھتا ہے مگر مٹھائی بے نمازی اورنمازی دونوں مل کر کھاتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ وہ آدمی جولکھنوی پان منھ میں دبا کر سرسید اور اقبال کے نظریے کوایک ساتھ سمجھتا ہے وہ اسے ضرور سمجھتا ہوگا۔ عام نماز اور تراویح ایسے ہی ہے جیسے ڈیژل انجن اور بلیٹ ٹرین، لیکن بھیڑ کے سلسلے میں معاملہ بالکل الٹا ہے۔ بلیٹ ٹرین کی بھیڑ ایسے ہوتی ہے جیسے عام دنوں کے نمازی اور تراویح کی حالت ایسے جیسے بہار جانے والی ٹرین کی جنرل بوگی۔ جمعہ کی نماز کی بات الگ ہے مگر تراویح کی آخری صف ایسی ہوتی ہے جیسے غریب رتھ کا آخری ڈبہ۔

مجھے ٹرین کی سواری قطعی پسند نہیں ہے البتہ اگر کوئی حفظ الرحمن جیسا’’صحت مند‘‘ ڈرائیور ہوتو غالب کا یہ شعر پڑھتے ہوئے سوار ہوجاتا ہوں۔

چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیزرو کے ساتھ

پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں

پا بہ رکاب نہ سہی جیسے تیسے آج ٹکٹ بدست سوارہو ہی گیا ۔ آخری صف میں آخری نمازی کی صورت میں جا کے ایسے کھڑا ہوا جیسے بلی پاخانہ دبا کے بیٹھ جاتی ہے۔ ایسی نوبت آتی ہی کیوں؟ وہ تو بھلا ہو ڈرائیور صاحب کا انھوں نے اس پیغام کے ساتھ بلا بھیجا تھا کہ ٹرین رکنے کے بعد ہر ہرسواری کو ایک ایک ڈبہ مٹھائی ملے گی۔ میری دادی کا نام مٹھائی ہے اس لئے ایسے مواقع چھوڑ دینے سے خاندان کی عزت لٹ جانے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے اور میں ایسا ناخلف بھی نہیں جو خاندان کی عزت جانا گوارا کرلوں۔ سو آخرمیں ہی سہی جاکے کھڑا ہوگیا۔ مطمح نظر کیونکہ دوسرا تھا، اس لئے جہاں بیس رکعت تراویح ہوتی ہے ہم نے دورکعت پڑھ کے ہی کام چلا لیا۔ ٹرین رکنے کے بعد اسٹیشن ماسٹر نے وزٹ اگین کے توقع کے ساتھ چند مفاد آمیز جملے کہے جو مجھے یاد نہیں۔ خیر جملہ کون سنتا تھا ہم تو روح افزا سے اس دماغ کو ٹھنڈا کر رہے تھے جو تھوڑی دیر میں گرم ہونے والا تھا۔ میں توسہم گیا جب اسٹیشن ماسٹر نے کہا کہ جو بیچ سے سوار ہوئے ہیں وہ مسافر نہیں مانے جائیں گے ۔ ہم نے من ہی من میں کہا :’’ بھائی تو بس مٹھائی کا ڈبہ دے دے ۔۔۔ مان نہ مان کون منواتا ہے۔‘‘

گلاس پہلومیں رکھا بھی نہیں تھا کہ چند لوگ بے دریغ ایسے گھس آئے جیسے سعودی خفیہ ایجنسی کا عملہ گھس آیا ہو۔ بعد میں حلیہ سے پتہ چلا نہیں یہ تو حالت خراب کرنے آئے ہیں۔ ایک گھنٹہ ایسے گزرا جیسے کسی بائک سوار کو ٹریفک پولیس نے پکڑ لیا ہو۔ ویسے یہ ٹریفک پولیس نہیں اللہ میاں کی پولیس تھی۔خیر ایک طرف مٹھائی کا ڈبہ بٹنا شروع ہوا اور دوسری طرف لوگ حافظ صاحب سے بھر ہاتھ مصافحہ کے ساتھ ایک ایک کرکے رخصت ہونے لگے۔ مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے کہا:’’حافظ صاحب ! سب لوگ آپ سے ہاتھ ملا رہے ہیں، آخیر میں آپ مجھ سے ملا لیجئے گا۔‘‘

انھوں نے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے ان کی لنکا میں کوئی روان گھس آیا ہو۔ڈبے میں بالوشاہی تھی۔ ہمارے یہاں ایک مٹھائی لال ہوا کرتے تھے مگر ان کی زبان بہت تیکھی تھی۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ مٹھائی کی دکان اورمرچ کی کھیتی ایک ساتھ کرتے ہیں۔ اور دونوں نہیں کھاتے۔ ایک بار کسی نے پوچھ لیا کہ مٹھائی لال کھیتی اور دکان دونوں کی کرتے ہومگرکھاتے ایک بھی نہیں۔ دیکھا جائے تو آپ نے ایک طرح سے انصاف ہی کیا ہے مگرنام صرف مٹھائی لال رکھا ہے۔ کہنے لگے :’’سالا میرا باپ بے ایمان تھا۔ میں ضرور انصاف کروں گا۔ اپنے پہلے بیٹے کانام مرچ داس نہ رکھا تو میں بھی مٹھائی لال نہیں۔تراوِیح میں حافظ صاحب کا قرآن ختم ہوچکا تھا ۔ میں نے بالو شاہی کھائی۔ موقع ملتے ہی بریانی پر بھی ہاتھ صاف کردیا ۔ افسوس صرف اس بات کا ہے کہ حافظ صاحب کی جیب صاف نہیں کرسکا ۔جو آج کافی پھولی ہوئی تھی۔ان کی چھ روزہ تراویح میں بڑے بڑے بلڈر اور پیسے والے لوگ آیا کرتے تھے۔ کیوں نہ آتے؟  انھوںنے رمضان کے تیس دن کی تراویح کو محض چھ دن کی زپ فائل میں جو کردیا تھا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں