٭ صاف ستھرے رہیے، چہرے اور ہاتھوں کو دن میں کم از کم دو بار دھوئیے، گندے ہاتھ کبھی آنکھوں کو نہ لگائیے، مکھیوں وغیرہ کو دور رکھئے، خاص کر بچوں کے چہرے پر مکھیاں نہ بیٹھنے دیں۔ مشترکہ تولیہ صابن اور رومال استعمال نہ کیجیے۔
٭ متوازن غذا کھائیے جس میں کاربوہائیڈریٹ، فیٹ اپروٹین اور وٹامن وضروری معدنیات شامل ہوں،جو دودھ، دہی، مکھن، انڈا، مچھلی، گوشت، دالوں، سبزیوں، پھلوں، خشک میوؤں کی مناسب مقدار سے حاصل ہوسکتے ہیں۔ بازاروں میں دستیاب مرکبات وغیرہ ضروری نہیں ہیں۔
٭ کبھی کبھی ایک آنکھ کو بند کرکے دیکھ لیجیے کہ آیا دونوں آنکھوں کی نظر یکساں / پہلے جیسی ہے یا کچھ فرق ہے، اگر فرق محسوس ہو تو آنکھوں کے ڈاکٹر سے مشورہ کیجیے۔
٭ پڑھائی لکھائی کے دوران کاپی کتاب کو ایک سے ڈیڑھ فٹ کے فاصلے پر رکھئے ۔
٭ ٹی وی سے تقریباً ۹ فٹ کے فاصلے پر بیٹھے۔
٭ کمپیوٹر اسکرین ۲۰ سے ۲۶ انچ کی دوری پہ رکھیے اور کام کے دوران سیدھے بیٹھے۔ کمپیوٹر اسکرین کو آنکھوں کی سطح پر رکھئے، ہر گھنٹہ کام کے بعد تھوڑی دیر آنکھوں کو آرام دیجیے اور اسکرین کے آگے حفاظتی شیشہ لگا کر رکھئے۔
٭ اگر آپ ایسے پیشے سے وابستہ ہیں، جہاں تیز روشنی، ویلڈنگ، بھٹی یا دوسری شعاعوں سے واسطہ پڑتا ہو تو ضرور حفاظتی چشمے، شیلڈ وغیرہ استعمال کیجیے۔
٭ جس کی آنکھیں آئی ہوئی ہوں ایسے آدمی سے مصافحہ کرنے سے پرہیز کیجیے، ملانا ہی پڑے تو ملا کر ہاتھ دھولیجئے۔ جن لوگوں کی آنکھیں آئی ہوں وہ خود دوسروں سے ہاتھ ملانے سے احتراز برتیں، بہتر ہے اپنا عذر بتادیا جائے۔
٭ کم/ مدھم روشنی میں پڑھائی لکھائی نہ کیجیے۔
٭ پڑوسی، دوست وغیرہ کے مشورے پر آنکھ بند کرکے عمل نہ کیجیے ضروری نہیں ان کا مشورہ ٹھیک ہی ہو یا ان کو بھی آپ ہی والا عارضہ رہا ہو۔
٭ دوسروں کی دوائیاں، قطرے استعمال نہ کریں، وہ ان کے لیے فائدہ مند ہو سکتے ہیں مگر ضروری نہیں آپ کے لیے بھی فائدہ مند ہوں الٹا نقصان بھی کرسکتے ہیں۔
٭ کوئی بھی قطرے یا آئی ڈراپ ڈاکٹر کی تجویز کے مطابق اور اتنے ہی عرصے کے لیے استعمال کیجیے۔ اپنے طور پر خرید کر دوائیاں استعمال کرنا خطرناک ہوسکتا ہے یہاں تک کہ نا بینا بھی کرسکتا ہے۔
٭ تیز اوزار مثلاً چا قو، چھری، تیز کھلونے، تیر کمان وغیرہ سے بچوں کو دور رکھئے۔
٭ خطرناک کھیلوںمثلاً گلی ڈنڈا، کانچ کی گولیاں، کھیلنے سے بچوں کو دور رکھئے۔
٭ (ہولی اور دشہرہ میں گلال وغیرہ آنکھوں میں نہ پڑنے دیجیے۔) پٹاخوں وغیرہ سے بچوں کو بھی اور خود بھی دوررہیے /احتیاط کیجیے۔
٭ جہاں ریت، اینٹ وغیرہ کا کام ہورہا ہویا ویلڈنگ ہورہی ہو، ایسی جگہ سے دور رہیے۔
٭ جہاں ہتھوڑے سے پتھر توڑنے، کیل ٹھونکنے وغیرہ کا کام ہورہا ہو وہاں سے لازماً دور رہیے۔
٭ جہاں چونا، سفیدی ہورہی ہو یا Acidاور دوسرے کمیکلس ہوں ایسی جگہ سے خود دور رہیے اور بچوں کو دور رکھئے۔
٭ مباشر(سیدھے) تیز روشنی ، سورج اور لیزر (پنسل نما لال رنگ کی روشنی) کی طرف ہرگز نہ دیکھئے یہ عوامل آنکھ کے پردے ’شبکہ‘ کو محروک کرسکتے ہیں، جس کا علاج ناممکن ہوسکتا ہے اور ہمیشہ کے لیے معذوری کا سبب ہوسکتا ہے۔
٭ آنکھوں میں کچھ گرجانے پر آنکھ کو نہ ملیے اور نہ ہی کسی کو ہاتھ لگانے دیجیے بلکہ آنکھ کے ہسپتال یا ڈاکٹر سے ملئے۔
٭ آنکھ میں چوٹ آنے پر آنکھ پر کسی طرح کا دباؤ نہ ڈالئے اور نہ ہی کھول کر خود دیکھنے کی کوشش کیجیے۔ ہوسکتا ہے ایسا کرنے سے آنکھ کو زیادہ نقصان ہوجائیے ۔ مریض کو سیدھا ہسپتال یا آنکھ کے ڈاکٹرکود کھائیے۔
٭ اگر چونا، سفیدی یا کوئی ایسڈ Acidیا دوسرا کمیائی مادہ آنکھ میں گر جائے تو صاف پانی کی لگاتار دھار سے دھوتے رہیے جب تک آنکھوں کے ہسپتال یا ڈاکٹر تک نہ پہنچ جائیں۔ خیال رہے کہ متاثرہ آنکھ سے بہہ کر پاٹی سالم آنکھ میں نہ گرے یعنی اگر دائیں آنکھ میں چونا وغیرہ گرا ہے تو چہرے کو ایسے رکھیے کہ دائیں آنکھ بائیں کے مقابلے میں نیچے ہو، تا کہ پانی زمین پر گرے نہ کہ بائیں آنکھ جو ٹھیک ہو اسی کی طرف بہے۔ آنکھ کو ہاتھ وغیرہ سے نہ ملیے۔
٭ کاجل استعمال نہ کریں تو بہتر ہے۔
علامات جو آنکھ کی بیماری ظاہر کرتی ہیں
٭ سردرد،سردرد اور الٹی، آنکھ میں درد، لال ہونا، پانی آنا۔
٭ ڈرائیونگ میں- خصوصاً رات کو دقت پیش آنا، دھوپ میں کم نظر آنا۔
٭ بچوں کا- کاپی کتاب چہرے کے پاس رکھ کر پڑھنا لکھنا۔
٭ ٹی وی نزدیک سے دیکھنا، آنکھیں بند کرکے / بھینچ کر یا قریب ہوکر دیکھنے کی کوشش کرنا۔
٭ بچوں کا رنگوں پر دھیان نہ دینا۔
٭ سر کو ٹیڑھا کرکے /گردن مروڑ کر دیکھنے کی کوشش کرنا۔
٭ آنکھوں کا مسلسل ہلتے رہنا۔
٭ بچوں کا نظر کے استعمال کا تقاضا کرنے والی کھیلوں سے دور رہنا ۔
علامات جو بینائی کے لیے نہایت خطرناک ہوسکتی ہیں
٭ آنکھیں لال ہونا، درد ہونا، آنکھوں سے پانی بہنا۔
٭ نظر کی کسی بھی طرح کی شکایت۔
٭ موٹا چشمہ استعمال کرنا (ان لوگوں میں انفصال شبکہ Retinal detachmentہوسکتا ہے ایسے لوگوں کو چھ ماہ میں ایک بار مستند و معتبر ماہرِ امراضِ چشم کو دکھانا چاہیے۔ ایسے افراد کی نظر اچانک جاسکتی ہے۔
٭ آنکھ کی پتلی میں کسی بھی طرح کی سفیدی۔
٭ چیزوں کا دو دو نظر آنا۔ ازدواجیہ
٭ آنکھ / آنکھوں کے آگے تیرتے ہوئے مچھر نما دھبے نظر آنا جو نظر کے ساتھ گھومتے رہتے ہوں ،یہ دھبے اچانک بھی آسکتے ہیں اور کبھی کافی عرصہ سے ہوتے ہیں مگر اچانک زیادہ ہوجاتے ہیں۔
٭ آنکھوں / آنکھ کے آگے شرارے یا چنگاریاں نما روشنی نظر آنا۔
٭ آنکھ کے سامنے پردہ سا چھا جانا۔
٭ محیط ِنظر(Field of Vision) کا کم ہوجانا۔ چیزوں کا صرف مرکز حصہ نظر آنا اور آس پاس کا حصہ نظر نہ آنا۔
٭ آنکھ کا چھوٹا یا معمول سے بڑا ہونا، آنکھ کا ابھار اور بھینگا پن۔
٭ وہ افراد جن کے خاندان میں نابینا افراد ہوں۔
٭ ایسے افراد جن کا سفید موتیہ کا آپریشن ہوا ہو لینز(Lens) لگایا گیا ہو یا نہ لگایا گیا ہو، ٹانکے والا آپریشن ہو یا بغیر ٹانکے کا، یا Phaco emulsification(مشین سے آپریشن ہوا ہو) ایسے لوگوں کو کم از کم سال میں ایک بار ضرور ماہر امراضِ چشم سے معائینہ کروانا چاہیے۔ اور اگر چنگاریاں یا مچھر نما دھبے آنکھ کے سامنے آئیں تو فوراً ہی ماہرِ امراض چشم سے رجوع کرنا چاہیے۔
٭ ایسے افراد جن کو ذیابیطس کی بیماری ہو۔
٭ ایسے افراد جن کو بلڈ پریشر کی بیماری ہو۔
٭ ٹی بی کے مریض ،علاج کروارہے ہوں یا بغیر علاج کے۔
٭ آنکھ میں کسی چیز کا گرنا۔
٭ آنکھ میں چوٹ آنا۔
٭ آنکھ میں چونا، سفیدی، ایسڈ یا کسی کیمکل کا گرجانا۔
٭ کالا موتیہ (ایسے افراد جن کے گھر و خاندان کے کسی فرد کو کالا موتیہ ہو)
اگر گھر کے ٹی وی، فرج یا کمپیوٹر میں ذرا سی خرابی آجائے تو اسے فوراً ٹھیک کروایا جاتا ہے مگر آنکھیں، جن سے ان ساری چیزوں کو استعمال کیا جاتا ہے ان کے سلسلے میں لاپرواہی برتی جاتی ہے۔
بازار میں آنکھ کی نہ تو پکچر ٹیوب نہ مدر بورڈ اور نہ ہی کیمرہ مل سکتا ہے، نہ اس کی وارنٹی یا گارنٹی ہے۔ ایک بار نظر گئی تو واپس نہیں آسکتی۔ آنکھوں پر لگا پیسہ آپ کی جائداد ہے۔
حفظِ ماتقدم کے طور پر بچوں میں سال میں دو دفعہ، اور بڑوں میں ایک دفعہ کم از کم ماہرِ امراضِ چشم سے معائنہ کروانا لازم ہے، اس کے سوا ضرورت پڑنے پر۔