اپنا بنا کے دیکھو

مجیراحمدآزاد،دربھنگہ

وہ بڑبڑاتی ہوئی صحن میں آئی اور تیزی سے گھر کے باہر نکل گئی۔ شدید گرمی اور تیزدھوپ کے سبب گلی سنسان تھی، اس کے باوجود اس کے قدم بڑھتے گئے اور دوسری گلی کے موڑ پر ایک مکان کے دروازے پر دستک دی۔ دروازہ کھلا تو سامنے ایک متوسط عمرکی عورت نے اسے پہلے توحیرت سے دیکھا پھر فوراً اندر لے گئی۔ ڈرائنگ روم میں دونوں آمنے سامنے بیٹھ گئیں تو میزبان نے دریافت کیا۔

’’اس وقت بھری دوپہر میں آپ کو میری یاد کیسے آگئی نصرت آپی؟‘‘ سب خیرت تو ہے!کچھ پریشان لگ رہی ہیں۔‘‘

’’اب ذرا سانس تو درست کرنے دو۔ بتاتی ہوں۔ اس کلموہی نے ظلم کررکھا ہے رضیہ۔‘‘ نصرت نے اپنے چہرے کے پسینے کی بوندوں کو خشک کیا اور لمبی سانس لی۔ اس درمیان رضیہ نے ایک گلاس ٹھنڈا پانی ان کے سامنے رکھ دیا۔ اسے سمجھنے میں دیرنہ لگی کہ نصرت آپی کی بہو سے کسی بات پر بحث ہوگئی ہوگی اسی لئے غصے میں ہیں۔ نصرت نے غٹاغٹ ایک گلاس پانی پیا اور اپنا سر صوفے کی پشت سے ٹکا کر لمحہ بھر کے لئے آنکھیں بند کرلیں۔ دھوپ کی تمازت میں یہاں تک آنا اس کے لئے آسان نہ تھامگر غصے کا عالم اور دل کی بھڑاس بھلا وہ کہاں نکالتی؟ اس لئے رضیہ کے گھر کی جانب اس کے قدم خودبخود اُٹھتے گئے تھے۔ رضیہ نہ صرف ان کی رشتہ دار تھی بلکہ دونوں مکتب میں ہم جماعت بھی رہی تھیں۔ یہ اور حسین اتفاق تھا کہ دونوں کی شادیاں بھی ایک محلے میں ہوئی تھیں اس لئے دونوں ایک دوسرے کو دکھ درد کی سہلی مانتی تھیں۔ جب بھی کچھ نیا ہوتا، پڑوس کی باتیں کانوں کان خبربن جاتیں تو دونوں ایک دوسرے سے ضرور شیئر کرتیں، لطف اندوزہوتیں اور ضعیفی کی جانب بڑھ رہی اس عمر میں ایک دوسرے کا خیال رکھتیں۔

’’نصرت آپی، آپ بیٹھیں میں ذراباورچی خانے سے کچھ لاتی ہوں۔‘‘ رضیہ کہہ کر جانا چاہ رہی تھی! نصرت نے اسے روکا۔

’’ارے بیٹھو، تم سے ملنے آئی ہوں اور تم چولہا چوکی سنارہی ہو۔ بہو سے بولو کہاں ہے مہارانی۔‘‘

رضیہ مسکراتی بیٹھ گئی تو نصرت نے آج کا واقعہ سنانا شروع کیا۔

’’کیا منحوس گھڑی تھی جب میں نے اپنے چاند سے بیٹے کے لئے اس نک چڑھی لڑکی کو چنا تھا، شروع میں تو باندی بنی رہی اب بات بات میں زبان لڑاتی ہے۔ مجھے اس کی ماں کے بارے میں علم نہیں تھا۔ ماں پر گئی ہے منھ ماری۔ اس کا بھی اپنی ساس سے نباہ نہیں ہوا تھا۔‘‘

’’کیا نصرت؟ تم بھی بس لٹھ لے کے دوڑ جاتی ہو اپنی بہو پر۔ اس کی حرکت سے اس کی ماں کاکیا تعلق ہے۔‘‘ رضیہ نے مسکراتے ہوئے ٹوکا۔

’’ہاں ہاں سو برائیاں تو ہم ہی میں ہے نا۔ مگر تم بنا جانے اس کا ساتھ مت دو۔ میں سمجھتی ہوں سب کچھ، تمہاری بھی دور کی رشتہ دار لگتی ہے نا۔ مجھ پر زیادتی ہورہی ہو اور تم مسکراکے میرے زخم پر نمک چھڑکو۔‘‘ نصرت نے کڑا سا جواب دیاتو رضیہ بڑی مشکل سے اپنی مسکراہٹ پر قابو پاسکی اور بولی۔ ’’نہیں نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ تم بتائو تو سہی کیا ہوا تھا۔‘‘

’’ارے ہونا کیا تھا۔ میری تقدیر پھوٹی تھی جو اس کو بیاہ کر لائی۔ ایک دو کام کیا کہہ دیتی ہوں، بس اس طرح جواب دیتی ہے کہ اپنا سا منھ ہو جاتا ہے۔ آج دن کے کوئی بارے بجے ہونگے وہ سورہی تھی۔ میں نے جگاکر پیتل کے برتن صاف کرنے کو کہا۔ اسی وقت پڑوسن آگئی تو شربت کے لئے کہہ دیا۔ اللہ اس کا برا حشرکرے۔ اس نے مجھے پڑوسن کے سامنے ذلیل کر دیا۔ میں مشین نہیں آدمی ہوں۔ جب دیکھئے حکم چلاتی ہیں بس۔ کیا بتائوں رضیہ کتنااول فول بولتی رہی۔ کہتی تھی مجھے نوکرانی بنا کر رکھاہے۔ آپ کو بہو نہیں نوکرانی چاہئے تھی۔ تو پھر نوکروں کا گھرانا دیکھ کر شادی کرتیں۔ میں نے جو گز بھر کی زبان دیکھی تو ہکا بکارہ گئی۔ اکبری چپ چاپ چلی گئی تو میں نے کہا کہ’’ تمہارے کلیجے میں ٹھنڈک پڑگئی نا۔‘‘ اس پر چلاّنے لگی۔ اب تم ہی بتائو رضیہ اس میں میرا کیا قصور ہے۔‘’

رضیہ کو سارا ماجرا سمجھ میں آگیا۔ وہ نصرت کو سمجھانا چاہتی تھی مگر اس کے مزاج سے واقف تھی اس لئے کچھ بولنا آسان نہ تھا۔ لمحہ بھر خاموش رہنے کے بعد اس نے ہمت جٹا کر نصرت سے کہا۔

’’تم کیوں حجت کر لیتی ہو بہو سے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کردینا چاہئے۔ آخر ہم اپنی بیٹیوں کی نادانی کو کیسے بھلادیتے ہیں۔‘‘

’’تمہارے حساب سے تو بہو کی جوتیاں کھائوں اور مزے سے رہوں یہی نا! چلو اچھا صلہ ملا بیٹا جننے کا۔ اب تو دوست سہیلی بھی انہی کی طرفداری کرنے لگی ہیں۔ ‘‘نصرت کا جملہ پورا ہی ہوا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ رضیہ نے رسیور اٹھایا، فون نصرت کی بیٹی کا تھا جو دبئی میں شوہر کے ساتھ رہتی تھی۔ سلام و دعا کے بعد اس نے بتایا کہ ’’دوپہر میں امّی کہیں نکلی ہوئی ہیں بھابھی بتا رہی تھیں تو مجھے لگا کہ آپ کے گھر کے علاوہ وہ کہاں جائیںگی اس وقت۔ اس لئے فون کرلیا، آپ سے بھی خیرو خیرت ہوگئی اور امّی سے بھی بات ہوجائے گی۔‘‘ رضیہ نے فون نصرت کو دے دیا اور اندر چلی گئی۔

ایک ٹرے میں کھانے پینے کے کچھ لوازمات لئے ڈرائنگ روم میں آئی تو نصرت اپنی بیٹی سے بات کر چکی تھی اور اس کا موڈ کچھ اچھا لگ رہاتھا۔ چند لمحے پہلے جو اضطراب ان کے چہرے پر تھا اس میں کمی آگئی تھی۔ اب وہ پر سکون لگ رہی تھیں۔ دونوں میں خوش گپیاں ہونے لگیں۔ اسی درمیان رضیہ کی بہو ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی۔ اس کے ہاتھ میں ایک ٹرے تھا جس میں دو گلاس جوس تھا۔ آتے ہی اس نے نصرت کو سلام کیا اور ٹرے ٹیبل پر رکھتے ہوئے رضیہ سے شکایت بھرے لہجے میں نرمی سے بولی۔

’’ممی آپ نے مجھ کو جگا کیوں نہ دیا۔ گھر میں مہمان آئے اور آپ کام میں لگ جائیں تو بھلا میں کس لئے ہوں؟‘‘

’’ارے نہیں بیٹا۔ صبح تمہاری طبیعت تھوڑی خراب تھی اسی لئے مجھے لگا کہ آرام کررہی ہوگی۔ کیا ہوا بیٹا تم بھی میری بیٹی ہونا۔ کوئی ماں بھلااپنی بیٹی کو تکلیف دینا کیوں چاہے گی۔ اور ہاں اب چاہو تو ہم دونوں کے لئے ایک کولڈکافی بنا لائو۔ ‘‘مسکراتی رضیہ بولی۔

شرماتے ہوئے رضیہ کی بہو باورچی خانے میں چلی گئی۔ نصرت حیرت کے مارے رضیہ کا منھ تکتی رہی۔ پھردونوں دوسری باتوں میں لگ گئیں مگر گفتگو میں اب وہ ربط نہیں تھا۔ نصرت کا ذہن کہیں اور چل رہاتھااور وہ بار بار پہلو بدل رہی تھی۔ شاید اسے اب گھرجانے کی جلدی تھی۔

رضیہ کے گھرسے واپسی پر اس کا چہرا نادم تھا مگر وہ ایک عزم کر چکی تھی جس کا خاکہ ذہن میں تیار ہورہا تھا۔ اس کے قدم اب گھرکی جانب پورے اعتماد کے ساتھ اٹھ رہے تھے۔

گھرمیں داخل ہوتے ہی نصرت نے ڈرائنگ روم کا رُخ کیا۔ اس نے دیکھا بہوبیگم اپنی دو سہیلیوں کے ساتھ بیٹھی باتیں کررہی ہیں۔ دونوں مہمانوں نے اچانک انہیں دیکھا تو ہڑبڑا گئیں۔ نصرت دونوں مہمانوں سے متعارف ہونے لگی تو درمیان میں اس کی بہو’’ آپ سب کے لئے کچھ لاتی ہوں‘‘ کہہ کر جانے لگی تو نصرت نے انہیں روکا اور بولی۔

’’تم بیٹھواور سہیلیوں سے باتیں کرو‘ میں دیکھتی ہوں۔ ‘‘بہوبیگم سمیت دونوں کی آنکھیں حیرت سے کھلی رہ گئیں۔ تینوں دیرتک دروازے کی جانب دیکھتی رہیں جہاں سے نصرت گئی تھی۔

ٹرے میں کھانے پینے کی چیزیں لے کر نصرت دوبارہ ڈرائنگ روم میں آئی، اس وقت تک تینوں بت بنی بیٹھی تھیں۔ان سب کو حیرت و استعجاب کے عالم میں دیکھاتو نصرت بولی۔

’’کیا ہوا تم سب کو میں نے بہو کو دل سے بیٹی مان لیا ہے۔ پھر سارا معاملہ ختم۔ تم سب اطمینان سے ناشتہ کرو۔ ‘‘دو پہر کا واقعہ یاد کرکے بہوبیگم کا چہرہ ندامت سے جھک گیا لیکن وہ اندر سے اپنی ساس کی تبدیلی پر نازاں تھیں۔ ——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146