غمزدہ شاہین راکھ کے ڈھیر کے پاس کھڑی اپنی لاپرواہی کو کوس رہی تھی۔ اسے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ خود ہی زندگی کی آخری دہلیز پر ہے۔ وہ اپنے بچوں کے بغیرزندہ نہیں رہ سکتی۔ وہ اپنی بڑی بیٹی ۱۲ سالہ زینب کو محلے کے چند گھروں میں کام کے لیے چھوڑ آئی تھی۔ اسی سے اس کے اخراجات پورے ہوتے تھے جس کے لیے اسے تین بچوں دوسالہ نازنین، پانچ سالہ زینت اور سات سالہ زلیخا کو گھر میں تنہا چھوڑ کر آنا پڑا تھا۔
شاہین ایک بیوہ خاتون تھی۔ اس کے شوہر کا چند سال قبل ایک حادثہ میں انتقال ہوگیا تھا۔ اب اسے تن تنہا بچوں اور گھر کی تمام ذمہ داریوں کو نبھانا تھا۔ اس مصیبت کی گھڑی میں کوئی رشتہ دار بھی اس کی مدد کے لیے تیار نہ ہوا۔ایسے میں شاہین نے محلے کے گھروں کے کام کرکے زندگی کی گاڑی کو کھینچنے کا عزم کیا۔
اس کی خواہش تھی کہ وہ بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائے لیکن حالات سازگار نہ ہوسکے اور یہ خواہش خواب بن کر رہ گئی۔ اس نے اپنی بڑی بیٹی زینب کو سرکاری اسکول میں داخلہ دلادیا لیکن چند ماہ بعد ہی تعلیمی اخراجات کی تکمیل نہ ہونے کے سبب یہ کوشش لاحاصل ثابت ہوئی۔
زینب اپنے معاشی حالات سے واقف تھی۔ وہ روزانہ اپنی ماں کے ساتھ محلے میں کام پر جاتی اور گھر کے کام میں بھی ماں کا ہاتھ بٹاتی۔ اس طرح وہ اپنی ماں کے کام کا بوجھ کم کرنے کی کوشش کرتی۔ شاہین کے گھر کے اخراجات بمشکل پورے ہورہے تھے۔ وہ بچوں کے لیے ماں اور باپ دونوں کا کردار ادا کررہی تھی۔ اس نے اپنے بچوں کو کبھی باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ چاروں بچے بھی اسے بہت چاہتے تھے۔
آج شاہین کو نیند سے بیدار ہونے میں تاخیر ہوگئی تھی جبکہ روزانہ وہ فجر کی اذان کے ساتھ ہی بیدار ہوجاتی تھی۔ گھڑیال نے سات بجائے تو وہ گھبرا کر اٹھی اور زینب کو بیدار کیا۔ ’’زینت آج تم پہلے چلی جاؤ میں گھر کا کام نمٹا کر آتی ہوں۔ دیر ہوجانے پر مالکن غصہ ہوں گی۔‘‘ زینب نے ماں کی باتوں پر سرجھکادیا۔
شاہین نے جلدی جلدی گھر کا کام نمٹایا۔ پھر چولہے پر چائے چڑھا کر گھر کو تالا لگایا اور ڈیوٹی پر نکل گئی۔ عجلت میں وہ چولہے کے پاس ہی موجود گیس سیلنڈر اور مٹی کے تیل کا ڈبہ ہٹانا بھول گئی۔ تھوڑی دیر بعد ہی گیس اور تیل نے آگ پکڑلی جو آہستہ آہستہ بڑھتی گئی۔ محوِ خواب نازنین، زینت اور زلیخا کو آگ نے گھیر لیا۔ ان کی چیخ و پکار اور مدافعت کی تمام ترکیب ناکام ثابت ہوئی اور وہ موت کی آغوش میں جاپہنچے۔ شاہین نے گھر میں اپنے بچوں کو اس حالت میں پایا تو اس کے ہاتھ پاؤں شل ہوگئے۔ وہ چیخ مار کر گرپڑی۔ زینب بھی اس منظر کی تاب نہ لاسکی اور اپنی ماں کے بے ہوش وجود سے لپٹ کر روپڑی۔