انسان جتنا تنہا آج ہے، کبھی نہیں تھا۔ انتہائی مصروف زندگی گزارنے کے باوجود انسان اندر سے تنہائی کا شکار ہے۔ یہ تنہائی آج کے ترقی یافتہ دور کی مشینی زندگی کا تحفہ ہے۔ اس کے نتیجے میں لوگ افسردگی (ڈپریشن) اور نفسیاتی امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جرائم اور خود کشیوں کا ارتکاب کرتے ہیں۔ کیوں کہ خود غرض معاشرہ ان کے دکھوں کا مداوا نہیں کرتا، ان کو سہارا نہیں دیتا، ان کو ہمدردی اور محبت نہیں دیتا، جس کی ان کو تلاش ہوتی ہے۔
امام غزالیؒ نے اسلام کے نظام اخوت کی تفہیم کراتے ہوئے آج سے ہزار سال پہلے ان اصولوں کی نشاندہی کی، جن پر چل کر ایک ہمدرد اور غم گسار معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ یہ اصول محض نظریاتی یا خیالی نہیں تھے، بلکہ عملاً ایک زندہ معاشرہ وجود میں آیا تھا، جس نے وہ مثالیں قائم کیں جو رہتی دنیا تک لوگوں کے لیے ایک ماڈل اور نمونہ ہیں۔
’’میںنے جب پیغمبر اسلام کے حالات زندگی اور اپنے صحابہؓ کے ساتھ ان کا رویہ تاریخی واقعات کی شکل میں پڑھا تو میری آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ مجھے ذاتی طور پر بھی مختلف ممالک کے مسلمانوں سے مل کر یہ احساس ہوا کہ آج کے اس گئے گزرے دور میں بھی مسلمانوں میں عالمگیر اخوت اور ہمدردی کا جذبہ نسبتاً کہیں زیادہ ہے۔ یہی چیز اسلام سے میری وابستگی کا باعث بنی۔
اخوت، اسلامی معاشرے کا ایک بنیادی پتھر ہے۔ تمام اہل ایمان ایک جسد خاکی کی طرح ہیں۔ مشرق کا مسلمان مغرب کے مسلمان کی تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔
اسلامی اخوت
اسلام میں اخوت کا تصور بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ تمام اہل ایمان کو ایک عالمگیر برادری کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ قرآن (49:10) میں کہا گیا ہے کہ تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔خواہ وہ کسی رنگ، نسل اور زبان سے تعلق رکھتے ہوں۔ جنگ بدر نے خونی رشتوں پر تلوار چلادی تھی۔ وہاں باپ بیٹا، چچا بھتیجا، بھائی بھائی کے مقابلے پر تھا۔ مدینہ کا واقعہ ہے۔ کچھ کافر جنگی قیدی کے طور پر لائے گئے۔ ایک قیدی نے اپنے مسلمان بھائی کو یا اخی کہہ کر آواز دی اور کہا: ’’میرے ہاتھ کی رسیوں کو ذرا ڈھیلا کردیں۔‘‘ اس کے بھائی نے بلا توقف کہا: ’’خدا کی قسم! تم میرے بھائی نہیں ہو۔ مسلمانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، یہ میرے بھائی ہیں۔‘‘
امام غزالی نے اپنی کتاب احیائے علوم الدین میں ان آٹھ اصولوں کا ذکر کیا ہے، جن کی دو مسلمان بھائی پابندی کرنے کا عہد کرتے تھے۔
ان میں پہلا عہد یہ ہے کہ دونوں بھائی ایک دوسرے کے ساتھ مادی تعاون کرنے کے پابند ہوں گے۔ اس میں تین درجے ہیں۔ سب سے کم ترین درجہ یہ ہے کہ ایک بھائی زائد از ضرورت سامان یا مال اپنے بھائی کو دے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ ایک بھائی دوسرے کو اپنے برابر سمجھے اور اپنی ملکیت میں اس کو برابر کا حصہ دار سمجھے۔ سب سے اعلیٰ درجہ ہے کہ اپنے بھائی کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر ترجیح دے۔ یہ درجہ صدیق کہلاتا ہے۔ قرآن میں ہے:
’’اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں، خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں۔‘‘
ایک روایت ہے کہ کسی خلیفہ کے عہد میں کچھ صوفیا کے گروہ کے بارے میں غلط سلط اطلاعات خلیفہ تک پہنچائی گئیں۔ اس نے ان کو موت کی سزا کا حکم دے دیا۔ جب یہ لوگ قطار میں پھانسی کا انتظار کر رہے تھے تو ایک صوفی بھاگ کر قطار کے آگے آگیا اور کہا سب سے پہلے مجھے پھانسی دیجائے تاکہ زندگی کے چند لمحے میرے ساتھیوں کو مل جائیں۔ اس بات پر خلیفہ کی غلط فہمی دور ہوگئی۔ اس نے سب کو رہا کر دیا۔
میمون ابن مہران کا کہنا ہے کہ جو شخص اپنے بھائی کو اپنی ذات پر ترجیح نہیں دیتا وہ اہل قبور کا بھائی ہے۔ ایک شخص اپنے بھائی کے پاس گیا اور چار ہزار کی رقم مانگی۔ اس کے بھائی نے کہا، دو ہزار لے لو۔ اس پر اس شخص نے پیشکش ٹھکرادی اور کہا… ’’تم نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی ہے۔‘‘ ایک روایت ہے کہ ایک شخص اپنے بھائی کے گھر آیا ار بتایا کہ اسے کچھ رقم کی ضرورت ہے۔ گھر کی ملازمہ مالک کی پیسوں والی تھیلی لے کر آئی۔ اس شخص نے اس میں سے کچھ رقم نکالی اور چلا گیا۔ جب ملازمہ نے مالک کو یہ واقعہ سنایا تو اس نے خوشی کے باعث اس کو آزاد کر دیا اور کہا شکر ہے اس کے بھائی نے اس کے مال کو اپنا مال سمجھا۔
*ایک دفعہ ایک شخص حضرت ابو ہریرہؓ کے پاس آیا اور کہا میں آپ کو اپنا دینی بھائی بنانا چاہتا ہوں۔ آپ نے پوچھا: کیا تم جانتے ہو، اس کا تقاضا کیا ہے؟ اس نے کہا ’نہیں‘ آپ نے بتایا کہ تمہارے دل پر میرا اتنا ہی حق ہوگا جتنا تمہارا ہے۔ اس نے کہا میں ابھی اس درجے تک نہیں پہنچا۔ آپ نے کہا: ’’پھر آپ تشریف لے جائیں۔‘‘
*علی ابن حسینؓ نے کسی سے پوچھا: ’’کیا آپ کا بھائی آپ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر جو چاہے لے سکتا ہے، جواب ملا ’نہیں‘ آپ نے فرمایا: پھر آپ حقیقی بھائی نہیں ہیں۔‘‘
*ایک شخص ابراہیم بن ادہم کے پاس آیاور کہا : ’’میں آپ کا ہم سفر بننا چاہتا ہوں انہوں نے کہا، صرف اس شرط پر کہ میرا تمہارے مال پر تم سے زیادہ حق ہوگا۔ وہ نہیں مانا۔ آپنے کہا میں تمہاری صاف گوئی کی تعریف کرتا ہوں۔‘‘
ایک دفعہ ایک سفر میں کسی شخص نے ابراہیم بن ادھم کو یخنی کا پیالہ پیش کیا۔ آپ نے پی کر ساتھی کے تھیلے سے کچھ چرمی تسمے نکال کر اس کے پیالے میں دال دیے۔ ایک اور موقع پر آپ نے ساتھی کا گدھا ایک شخص کو دے دیا، جو پیدل چل رہا تھا۔ آپ کے ساتھی نے واپسی پر نہ گدھے کے بارے میں پوچھا نہ برا مانا۔
*ایک دفعہ ایک صحابی کو کسی نے بھیڑ کی سری بھجوائی۔ انہوں نے یہ سوچ کر کہ دوسرے بھائی کو اس کی زیادہ ضرورت ہے، اس کو بھجوا دی۔ یہ سری سات گھروں سے ہوتی ہوئی پھر پہلے صحابی کے پاس پہنچ گئی۔
*روایت ہے دو دوست مقروض تھے۔ دونوں نے ایک دوسرے کا قرض بغیر بتائے ادا کر دیا۔
*ابو سلیمان الرزانی کا قول ہے: ’’اگر میں تمام دنیا اپنے بھائی کے منہ میں ڈال دوں، پھر بھی اس کو معمولی بات سمجھوں گا اور جو نوالہ میں اپنے بھائی کے منہ میں ڈالتا ہوں اس کا ذائقہ اپنے منہ میں محسوس کرتا ہوں۔ بھائی پر خرچ کرنا غریبوں کو زکوٰۃ دینے سے بہتر ہے۔ حضرت علیؓ کا قول ہے: ’’اگر بیس درہم میں اپنے بھائی کو دوں تو وہ دو سو درہم سے بہتر ہے جو کسی محتاج کو دوں۔ اپنے بھائیوں کی کھانے کی دعوت کرنا غلام آزاد کرنے سے بہتر ہے۔
’’دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دینے کا سبق ہمیں حضور اکرمﷺ کی سیرت مبارکہ سے بھی ملتا ہے۔ ایک دفعہ حضور ﷺ نے دانتوں میں خلال کرنے کے لیے کسی جھاڑی سے دو کانٹے توڑے۔ ایک ذرا ٹیڑھا تھا، دوسرا بالکل سیدھا۔ آپ نے سیدھا کانٹا اپنے صحابیؓ کو دیا اور ٹیڑھا خود رکھ لیا۔ صحابیؓ نے عرض کی: ’’حضورؐ! آپ سیدھے کانٹے کے زیادہ مستحق ہیں۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’جب کوئی ہم سفر ساتھ ہو، خواہ ایک گھنٹے کا ہی کیوں نہ ہو، تو اس سے اس بات کی باز پرس ہوگی کہ اس نے بھائی کے لیے کیا کیا۔
*ایک دفعہ آپﷺ کسی کنوئیں کے پاس نہانے کے لیے گئے تو حذیفہؓ ابن یمان نے چادر تان کر پردے کا انتظا کیا۔ جب حذیفہ کی باری آئی تو آپ چادر تان کر کھڑے ہوگئے۔ حذیفہؓ نے بہت اصرار کیا کہ آپؐ ایسا نہ کریں، لیکن آپ نہ مانے۔ آپؐ نے فرمایا، ’’جب دو لوگ سفر میں ہوتے ہیں تو خدا کی نگاہ میں وہ زیادہ عزیز ہوتا ہے، جو دوسرے بھائی سے زیادہ مہربانی سے پیش آتا ہے۔
*بھائی کے گھر کو اپنا گھر سمجھنا، اس کی عدم موجودگی میں کچھ کھا پی لینا اور بے تکلفی سے کام لینا، دونوں کے گہرے تعلقات کی غمازی کرتا ہے۔
اسلامی معاشرے کے افراد ایک دوسرے سے کس قدر مربوط اور ایک دوسرے کے لیے کیسے معاون اور مددگار ہوتے ہیں اس کا اندازہ ان باتوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس معاشرے میں جہاں لوگ نفسی نفسی کے عالم میں جیتے ہیں اور ایثار و قربانی کے بجائے ایک دوسرے کے منہ کا نوالہ چھین لینا چاہتے ہیں۔ یہ تعلیمات زندگی کا پیغام ہیں۔ ایسے معاشرے میں جہاں یہ کیفیت ہو بھلا لوگ تنہائی اور ڈپریشن کا شکار کیسے ہوسکتے ہیں۔ بالمقابل موجودہ معاشرے کے جہاں ہر چوتھا آدمی کسی نہ کسی نوعیت کے ذہنی مرض میں مبتلا ہے۔
(مختار ہالینڈ کی کتاب: Duties of Brotherhood in Islam کے ایک باب کا ترجمہ)۔lll