اہل خانہ کی اصلاح کیوں؟

پروفیسر ظفر الاسلام اصلاحی

آیت قوا انفسکم و اھلیکم ناراً۔میں اپنے ’ اہل‘ کو نارِ جہنم سے بچانے کا حکم دیا گیا ہے، یعنی اپنی اصلاح کے ساتھ ’اہل‘ کی اصلاح کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ لفظ ’اہل‘ سے کون لوگ مراد ہیں؟ اس آیت کے علاوہ دیگر متعدد آیات میں یہ لفظ آیا ہے اور مختلف معانی (بیٹا، اولاد، بیوی، افراد ِ خانہ ،گھر والے، اہلِ خاندان) میں استعمال ہوا ہے۔ ان سب آیتوں پر غور وفکر کا ما حصل یہ ہے کہ اس کا عمومی اطلاق ان تمام افرا د پر ہوتا ہے جو ایک ساتھ کسی گھر میں رہتے ہیں ۔ اُردو میں اس کی جامع و عام فہم تعبیر ’ گھر والوں ‘ سے کی جا تی ہے۔ اہم بات یہ کہ بیش تر اردو مترجمینِ قرآن نے ’اہل‘ کا ترجمہ گھر والوں یا اہل و عیال کیا ہے۔ اور بعض مفسرین کی رائے میں’اہل‘ کے دائرہ میں غلام، مستقل ملازمین و خادمین کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ (معارف القرآن، ج۸، ص ۵۰۲) بہرحال ’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘ ہو یا’تواصی بالحق‘، اس ذمہ داری کی انجام دہی سب سے پہلے اپنے گھر والوں کی نسبت سے مطلوب ہے۔
اسی ضمن میں یہ بات بھی لائقِ توجہ ہے کہ زیرِ بحث آیت میں اپنے کو او ر اپنے گھر والوں کو جہنم سے بچانے کے لیے ’ امر‘ کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے،یعنی تاکید کے لیے جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے اس نے اس کام کو فرض کا درجہ دے دیا ہے۔ مقصود یہ کہ ا پنی اور گھر والوں کی اصلاح کے لیے کوشش محض مطلوب نہیں ، بلکہ ضروری ہے۔ آیت میں جہنم کی آگ کے بھڑکنے کے ذرائع ذکر کر کے اس کام ( نارِ جہنم سے بچانے) کی ضرورت و اہمیت کو اور بڑھا دیا گیا ہے۔ سچ پوچھئے تو اس سے بڑھ کر ضروری و اہم کام اور کیا ہوسکتا ہے کہ اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو حقیقی کامیابی سے ہم کنار کرنے کی بھر پور کوشش کی جائے۔ اس آیت کی تشریح میں مولانا امین احسن اصلاحی ؒ نے بجا تحریر فرما یا ہے : ’’ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ اپنے کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ کی آگ سے بچانے کے لیے جو کچھ کر سکتا ہے اسے اٹھائے نہ رکھے۔ جب بھی دیکھے کہ ان کے اندر اللہ کی شریعت سے بے پروائی راہ پارہی ہے،فوراً اس کے سدِّ باب کی فکر کرے‘‘(تدبر قرآن، ج۸، ص۴۶۹)۔
جب یہ آیت وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ۝۲۱۴ (الشعراء :۲۶:۲۱۴) نازل ہوئی ( یعنی آپؐ کو اپنے قبیلہ و خاندان کے لوگوں کو علانیہ انذار کا حکم ہوا) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلۂ قریش کی تمام شا خو ں کے لوگوں کو جمع کیا اور ایک ایک شاخ کے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم لوگ اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچائو، میں ( روزِجزا) تمھارے کچھ کام نہیں آسکتا۔آخر میں حضرت فاطمہؓ سے ان الفاظ میں مخاطب ہوئے : وَ یَا فَاطِمَۃُ بِنْت مُحَمَّد! سَلِیْـنِیْ مَا شِئْتِ مِنْ مَالِیْ ،لَا اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللہِ شَیْئًا (صحیح بخاری،کتاب التفسیر، سورۃ الشعراء باب وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ ) ’’اے محمدؐ کی بیٹی فاطمہؓ! تم بھی اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچائو، میرے پاس جو کچھ مال ہے اس میں جو چاہو لے سکتی ہو،لیکن( یاد رکھو کہ) میں قیامت کے دن اللہ کے مقابلے میں تمھارے کچھ کام نہ آسکوں گا۔‘‘ حقیقت یہ کہ گھر والوں کی تذکیر اور انھیں نارِ جہنم سے بچانے کی راہ میں کوشش کی نسبت سے اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہم سب کے لیے بڑی عبرت و نصیحت ہے اور ان مختصر جملوں میں انذار کے پہلو سے جو جامعیت ہے وہ اپنی جگہ مسلَّم ہے۔
گھر کے نگران کی جواب دہی
مذکورہ بالا آیت کے مطابق گھر والوں کو جہنم سے محفوظ رکھنے کی ذمہ داری کس کی ہے ؟ بیش تر مفسرین اس کا مخاطب گھر کے سرپرست و نگراں کو قرار دیتے ہیں ، یعنی گھر کے لوگوں کی اصلاح یا ان کے احوال کی درستی کی ذمہ داری اصلاً گھر کے نگراں و سرپرست یا بڑے بوڑھوں کی ہے کہ وہ گھر کے لوگوں کو سمجھائیں۔انھیں دین کی باتیں بتائیں، اچھے کاموں کی طرف توجہ دلائیں اور بُرے کاموں پر انھیں متنبہ کرتے رہیں۔ اس ضمن میں وہ حدیث بھی نقل کی جاتی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور اس سے ان لوگوں کے بارے میں باز پرس ہوگی جو اس کی کفالت/ نگرانی میں رہتے تھے ( صحیح بخاری)۔
اس سے انکار نہیں کہ گھر کے لوگوں کی اصلاح یا ان کے حالات درست کرنے یا انھیں راہِ راست پر لانے کی اصل ذمہ داری سرپرست یا نگراں کی ہی ہوتی ہے، لیکن آیت میں اپنے اہل و عیال کو نارِ جہنم سے بچانے کا حکم عمومی انداز میں دیا گیا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چھوٹے بڑے،جوان ،بوڑھے ، مرد و عورت کی تفریق کے بغیر گھر کے تمام لوگوں سے یہ مطلوب ہے کہ وہ موقع و محل کی رعایت کے ساتھ حسبِ استطاعت ایک دوسرے کو اچھی باتیں بتا ئیں، نیک کاموں کی طرف متوجہ کریں اور برے کاموں پر متنبہ کرتے رہیں، یعنی یہ سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
والدین کا کردار
دوسرے یہ امر بھی غور طلب ہے کہ کسی کے ’اہل‘ میں اس کی اولاد لازمی طور پر شامل ہوتی ہے اور یہ بات محتاجِ وضاحت نہیں کہ اولاد کی اصلاح، ان میں اخلاقِ حسنہ کی آبیاری، اچھی عادتوں کی پرورش میں سب سے اہم کردار والدین کا ہوتا ہے ۔ اس لیے اس میں کسی شبہہ کی گنجایش نہیں کہ اولاد کی نسبت سے اصلاحِ احوال کی بنیادی ذمہ داری والدین کی ہی ہوتی ہے۔ ا ولاد کے آرام و سکون کے لیے والدین تمام ممکن سہولتیں فراہم کرتے ہیں اور ہر قسم ( وقت ،مالی وسائل، جسمانی قوت و ذہنی صلاحیت ) کی قربانی کے لیے تیار رہتے ہیں۔ اسی طرح دینی و اخلاقی لحاظ سے ان کی زندگی کو سنوارنا بھی ان کا بڑا اہم و خوش گوار فریضہ ہے۔ اس ضمن میں اس حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ بہت بر محل معلوم ہوتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اولاد کے لیے والد کا بہترین تحفہ یہ ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرے،بالخصوص انھیں حسنِ ادب کی تعلیم دے۔ حضرت ابن سعدؓ سے مروی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ِ مبارک ملا حظہ فرمائیں: مَا نَحَلَ وَالِدٌ وَلَدًا مِنْ نَحْلٍ اَفْضَلَ مِنْ اَدَبٍ حَسَنٍ اَدَبٍ (جامع ترمذی، ابواب البر والصلۃ) ’’کسی والد کا ( اپنی) اولاد کے لیے حسنِ ادب سے بہتر کوئی اور تحفہ نہیں ہے۔‘‘
آج کل تقریباً ہر گھر میں اولاد یا زیرِ نگرانی بچوں کی نسبت سے یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ان کی تعلیم پر خاص توجہ دی جاتی ہے، اس کے حصول میں محنت و مشقت و سنجیدگی کے لیے انھیں باربار نصیحت کی جاتی ہے، ان کی خوب سرزنش ہو تی ہے، ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی ہے۔ ان سب میں کوئی حرج نہیں،اس لیے کیریئر بنانے اور دنیوی زندگی کی تعمیر و ترقی کے لیے تعلیم کا حصول، اس میں انہماک اور اچھی کارکردگی ضروری ہے، لیکن لمحۂ فکریہ ہے کہ والدین و سرپرستوں کی یہ نصیحت و یاددہانی، سختی وسرزنش،دینی معاملات میں کوتاہی و فرض عبادات کی ادائیگی میں غفلت، اخلاقی تعلیمات کی خلاف ورزی اور بُری حرکتوں کے عا دی ہونے کی صورت میں کم ہی نظر آتی ہے، بلکہ بعض اوقات والدین یا سرپرست انھیں ایسی سہولیات مہیا کرتے ہیں، جو بے کار و لایعنی باتوں میں غیرمعمولی دل چسپی، وقت کے ضیاع اور بُری عادتوں کے جڑ پکڑنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔

مزید پڑھیں!

اصلاح معاشرہ میں ماں کا کردار

اصلاح معاشرہ

اصلاح معاشرہ کا مختصر خاکہ

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146