ایمان کی تلاش ( علامہ اقبال کی زبانی قبولِ اسلام کا روح پرور واقعہ جو داعیوں کے لیے رہنما ہے) ۔ قسط ۲

قاضی عبدالمجید قریشی

جج کی بیوہ
۲۹؍اکتوبر ۱۹۳۰ء کو میں ڈاکٹر اقبال کی خدمت میں پھر حاضر ہوا۔ آپ آرام کرسی پر تشریف فرما تھے، حقہ چل رہا تھا۔ کل کی ملاقات میں آپ لیڈی بارنس کا واقعہ سنا چکے تھے، آج کوئی اور واقعہ سنانے کی فرمائش کی تو آپ نے پہلے ایک تمہیدی تقریر ارشاد فرمائی جس کا خلاصہ یہ ہے:
’’قبولِ اسلام میں اصل چیز ’دل‘ ہے۔جہاں دل ایک تبدیلی پر رضا مند ہوجاتا ہے اور کسی بات پر قرار پکڑ لیتا ہے تو بس باقی تمام جسم اس کے سوا کچھ نہیں کرتا کہ وہ اس تبدیلی کی تائید کے لیے وقف ہوجائے۔
ہمیں اسلام کے قدیم اور جدید مبلغوں میں ایک واضح فرق نظر آتا ہے۔ قدیم مبلغوں کا وار، غیر مسلموں کے دلوں پر تھا۔ وہ اپنی للہیت، بے نفسی، خوش خلقی اور احسان و مروت سے دلوں کو گرویدہ کرتے تھے اور اس طرح ہزارہا لوگ از خود بغیر کسی بحث و تکرار کے ان کے رنگ میں رنگے جاتے تھے مگر جدید مبلغوں کا سارا زور، دماغ کی تبدیلی پر مرکوز ہوتا ہے۔ وہ صداقت اسلام پر ایک دلیل دیتے ہیں، مقابلے میں دوسری حجت غیر مسلم پیش کردیتے ہیں۔ اس پر بحث و تکرار شروع ہوجاتی ہے۔ مسلمان اپنی بات پر اڑ جاتا ہے، غیر مسلم اپنے قول پر تن جاتا ہے۔ اس سے ضد پیدا ہوتی ہے اور ہدایت ختم ہوجاتی ہے۔
مبلغین اسلام کو دل کو متاثر کرنے کے لیے نکلنا چاہیے یا دماغ؟ اس کے فیصلے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم فطرت کی روش کی پیروی کریں۔ غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ فطرت، اپنی فتوحات حاصل کرنے کے لیے اپنا تعلق ہمیشہ دلوں سے جوڑتی ہے۔ فطرت کھانے میں لذت پیدا کرتی ہے اور آپ اسے بے اختیار کھا جاتے ہیں۔ اس وقت ایک بھی شخص دماغ سے یہ نہیں پوچھتا کہ یہ کھانا طبی لحاظ سے مفید ہوگا؟ آپ ایک ضروری کام پر جارہے ہوتے ہیں کہ ناگہاں پھولوں کا ایک کنج، خوشنما زمین اور لب جو ایک حسین نظارہ سامنے آجاتا ہے۔ آپ وہاں بے اختیار بیٹھ جاتے ہیں۔ وہیں ٹھنڈی ہوا کا ایک دلنواز جھونکا آتاہے اور آپ کو میٹھی نیند سلادیتا ہے۔ اس وقت کوئی شخص بھی دماغ سے یہ نہیں پوچھتا مجھے سونا چاہیے یا نہیں؟ مختصر یہ کہ فطرت ہر کام میں اسی طرح دلوں کو گرویدہ کرکے اپنا مطلب نکالتی ہے، وہ دماغوں کی طرف کبھی متوجہ نہیں ہوتی۔ اسلام چونکہ سربسر نور فطرت ہے، اس واسطے مبلغین اسلام کو چاہیے کہ اخلاق و محبت کی گہرائیوں سے دلوں کو اس طرح شکار کریں کہ ان میں سرکشی اور انکار کی سکت باقی نہ رہے، اس لیے ضروری ہے کہ مبلغ اسلام اسلامی کردار کی عظمت کے مالک ہوں تاکہ سرکش سے سرکش آدمی بھی ان کے سامنے اپنی گردنیں جھکا دیں۔ باقی رہے دماغی مباحث اور عقلی تکرار تو اس سے دل مطمئن ہوسکتے ہیں نہ منقلب اور نہ فطرت رام ہوسکتی ہے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے فرمایا: ’’اب دیکھئے کہ دل کی دنیا میں کیسی دلیلوں پر عمل کیا جاتا ہے؟ چند سال پہلے کا ذکر ہے کہ یہاں ایک ہندو جج کا انتقال ہوگیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد یکایک یہ خبر مشہور ہوئی کہ ان کی بیوہ مشرف بہ اسلام ہورہی ہے۔ یہاں کے ہندوؤں کو قدرتی طور پر اس واقعے سے تکلیف ہوئی۔ عورت کے عزیز و اقارب جمع ہوگئے اور اسے سمجھانے لگے۔ سب نے مل کر زور ڈالا کہ وہ مسلمان ہونے کے خیال سے دستبردار ہوجائے لیکن اس تمام دباؤ کے باوجود عورت کے ارادے میں ذرا بھی تزلزل نہ آیا۔
عزیزوں کی ناکامی کے بعد دوسرا قدم جو اٹھایا گیا یہ تھا کہ ہندو دھرم کے مذہبی پنڈت اور پیشوا بلائے گئے۔ انھوں نے کتھائیں سنائیں، تاریخی حوالے دیے، مذہبی احکام بتائے، ہندو دھرم کی سچائی کی دلیلیں پیش کیں۔ تعلیم و تعلم کا یہ سلسلہ کئی دن تک جاری رہا مگر عورت پر ذرا بھی اثر نہ ہوا۔ اس نے تمام مذہبی احکام سن لیے۔ آخر میں صرف یہ کہہ دیا کہ میں ضرور مسلمان ہوں گی۔
اب آریا سماج کے مبلغ بلائے گئے۔ انھوں نے مخالفت کا دفتر کھولا۔ مسلمانوں کے مظالم پیش کیے اسلامی احکام کی تردید کی، مسلمانوں سے نفرت دلائی۔ اورنگ زیب اور محمود غزنوی کا ذکر چھیڑا، گائے کے نام پر اپیل کی۔ یہ سلسلہ بھی کئی دن تک جاری رہا مگر عورت اب بھی اپنے ارادے پر محکم تھی۔
تیسراقدم یہ تھا کہ عورت کو ڈرا یا گیا، زد وکوب اور قتل کی دھمکی دی گئی۔ خوف کے ساتھ طمع کے مناظر بھی سامنے لائے گئے، مگر وہ عورت اب بھی متاثر نہ ہوئی۔ اب سوال وجواب شروع ہوئے۔ عورت سے پوچھا گیا۔ تم کیوں مسلمان ہوتی ہو؟ کیا تمہیں مال و دولت کی خواہش ہے؟‘‘
عورت نے کہا: ’’تم دیکھ رہے ہو، میرے گھر میں کسی بھی چیز کی کمی ہے؟‘‘
پھر پوچھا گیا: ’’تمہیں کیا کوئی نفسانی خواہش ہے؟‘‘
’’تم میری عمر کو دیکھ رہے ہو، میں تو اب چند روز کی مہمان ہوں۔‘‘ عورت نے جواب دیا۔
پھر پوچھا گیا: ’’کیا کسی مولوی یا مسلمان مبلغ نے تمہیں بہکایا ہے؟‘‘
’’پھر کوئی اسلامی کتاب پڑھی ہوگی۔‘‘ رشتہ داروں نے کہا۔
’’میں نے کوئی اسلامی کتاب دیکھی ہی نہیں۔‘‘ عورت نے کہا۔
اب لوگ متعجب ہوئے اور انھوں نے حیرت زدہ ہوکر پوچھا: ’’تو پھر تم کیوں مسلمان ہوتی ہو؟‘‘
عورت نے کہا: ’’میرے پتی سالہا سال تک سبب جج رہے۔ وہ بیسیوں شہروں میں گئے اور میں بھی ان کے ساتھ تھی۔ جس جگہ میں گئی، ہمیشہ اعلیٰ خاندان کی ہندو عورتوں کے ساتھ ہمارا تعلق رہا۔ مسلمان عورتیں بھی کبھی کبھی ہمارے گھر میں آتی تھیں مگر یہ سب خدمتگار ہوتی تھیں۔ کبھی اسمٰعیل کے بہشتی کی بیوی ہمارے ہاں آجاتی، کبھی دھوبن کی لڑکیاں آجاتیں، کبھی کسی مسلمان پنساری کو ہم خود بلا لیتے تھے۔ بس، اس سے زیادہ اسلام اور مسلمانوں کے متعلق مجھے کچھ معلوم نہیں۔‘‘
سامعین میں ذرا امید پیدا ہوئی اور انھوں نے کہا: ’’پھر تو کوئی وجہ نہیں کہ تم مسلمان ہوجاؤ۔
عورت نے بیان کیا: ’’بے شک! جن مسلمان عورتوں سے میں ملی، وہ اکثر غریب، محتاج اور میلی تھیں۔ متمول گھرانے کی مسلمان عورتوں سے ملنے جلنے کا مجھے اتفاق نہیں ہوا مگر ہندو عورتیں جن کے ساتھ رات اور دن میری نشست و برخاست تھی، سب امیر، متمول اور روشن خیال تھیں۔ اس تفاوت کے باوجود میں نے ہر جگہ ہندو اور مسلمان عورتوں میں ایک واضح فرق دیکھا۔‘‘
’’اس آخری جملے پر تمام سننے والوں کے دل دھڑکنے لگے، سب کی نگاہیں بے اختیار عورت کی طرف اٹھ گئیں۔ ہر شخص حیرت اور اضطراب کی تصویر بن گیا اور دوسرے جملے کا انتظار کرنے لگا۔ عورت نے اپنا سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’فرق یہ کہ جس قدر بھی ہندو عورتوں سے ملی ہوں ان کے جسموں سے مجھے ایک قسم کی بو ضرور آئی مگر اس کے ساتھ یہ بھی میں نے ہر جگہ دیکھا کہ غریب سے غریب مسلمان عورتوں کے جسم میں یہ بو موجود نہ تھی۔ میں اپنے پتی کی زندگی سے لے کر اب تک اس تفاوت پر غور کرتی رہی ہوں لیکن سبب معلوم نہیں کرسکتی۔ اب چند روز ہوئے میں نے اس راز کو معلوم کرلیا ہے، میں نے معلوم کرلیا ہے کہ مسلمان چونکہ خدا پرست اور ایماندار ہیں اور ان کی روح پاک ہے، اس واسطے ان کے جسموں سے بو نہیں آتی۔ وہ صاف کپڑے پہنیں یا ناصاف، ان کے جسم ضرور بو سے پاک ہوتے ہیں، لیکن اس کے برخلاف ہندو مشرک ہیں اور ان کی روح پاک نہیں، اس لیے خواہ وہ کس قدر بھی صاف اور پرتکلف لباس پہنیں، ان کے جسم بو سے پاک نہیں ہوتے۔‘‘ اس اعلان کے بعد عورت کی آنکھیں ڈب ڈبا گئیں۔ اس کے چہرے پر جوشِ ایمان کی سرخیاں دوڑنے لگیں اور اس نے آہ بھری اور بھرائی ہوئی آواز میں اپنے رشتے داروں کو متنبہ کیا: ’’مجھے اپنے حال پر چھوڑ دو۔ میں توحید کے نور سے اپنی روح کو پاک کرنا چاہتی ہوں۔ اس واسطے میں ضرور مسلمان ہوں گی۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے فرمایا: ’’اسی وقت عورت نے اپنے غضب ناک رشتہ داروں کے سامنے کلمہ پڑھا۔ وہ عورت کے بیان پر بہت سٹپٹائے مگر کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ عورت اپنے اصرار پر قائم رہی اور بالآخر مسلمان ہوگئی۔‘‘
——

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں