ڈاکٹر ماریہ (ایک امریکی لیڈی ڈاکٹر کے قبول اسلام کی ایمان افروز روداد)

مقبول احمد ندوی

امریکہ کی ایک نوجوان لیڈی ڈاکٹر نے ترجمہ قرآن پاک کا ناقدانہ نظریے سے مطالعہ شروع کیا۔ دوران مطالعہ وہ اس کے اندر مغرب کی مزعومہ غلطیاں ڈھونڈتی تھی، لیکن اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اسے اس لازوال کتاب میں اپنے ان سوالات کا شافی اور تسلی بخش جواب مل گیا، جو بچپن ہی سے اس کے ذہن میں گردش کیا کرتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند ہی ماہ بعد اس نے اپنے قبول اسلام کا اعلان کردیا اور اب اس کا اسلامی نام ماریہ ہے۔

جواں سال ڈاکٹر ماریہ اپنی سرگزشت بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں:’’میری پرورش کلیولینڈ میں ایک متشدد کیتھولک گھرانے میں ہوئی، میں نے بی اے کی ڈگری نفسیات میں حاصل کی۔ اس کے بعد میں نے میڈیکل کالج میں داخلہ لیا جہاں اس وقت میں پوسٹ گریجویٹ مقالہ تیار کررہی ہوں۔ میں اپنے عقائد اور افکار و خیالات سے مطمئن نہیں تھی۔ مجھے ہمیشہ ایک مبہم سا کرب و اضطراب ستاتا رہا اور عقیدہ تثلیث کی ماہیت و حقیقت کے متعلق میرے ذہن میں طرح طرح کے سوالات اٹھتے رہے۔ میں سوچتی کیتھولک، پروٹسٹنٹ اور آرتھوڈکس فرقوں میں بٹ کر مسیحیت کا تصور کیوں مختلف ہوجاتا ہے اور ہر فرقہ مذہب کا ایک خاص مفہوم کیوں متعین کرتا ہے۔ میرا ایمان صرف ایک اللہ پر تھا اور میں حق اور ناحق کے درمیان امتیاز کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی، تاہم اسلام کے متعلق میں نے سنجیدگی سے کبھی نہ سوچا کہ یہ بھی کوئی قابل قبول اور قابل تقلید مذہب ہے۔ اسلام کے متعلق میرا تصور تھا کہ یہ جنگوں، دہشت گردی، تشدد پسندی اور بنیاد پرستی کا دین ہے اور یہ کہ مسلمان قتل و خونریزی اور ظلم و سفاکی کی خوگر ایک وحشی قوم ہیں۔‘‘

ڈاکٹر ماریہ مزید کہتی ہیں:

’’میرے قبول اسلام کی کہانی اس وقت شروع ہوئی جب میں نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور ترجمہ قرآن پاک کا تنقیدی نگاہ سے مطالعہ شروع کیا تاکہ مجھے یہ معلوم ہوسکے کہ آیا یہ حق ہے یا باطل۔ میں حیرت و مسرت کے ملے جلے جذبات میںڈوب کر رہ گئی جب میں نے دیکھا کہ اسلام کا عقیدہ تو نہایت واضح، روشن اور صاف ستھرا ہے اور اس کے اندر خدا کا جو تصور ہے وہ بھی بے اختیار ہے، یعنی ’’انما ہو الٰہ واحد‘‘ (تمہارا معبود صرف ایک ہے)۔

مطالعے کے بعد مجھے ایک طرح کی ذہنی آسودگی اور قلبی اطمینان حاصل ہوا اور جو جو سوالات میرے حاشیہ خیال میں گردش کررہے تھے، قرآن میں ہر ایک کا تشفی بخش جواب مل گیا۔ اس کے بعد میں نے قرآن پاک اور دیگر اسلامی موضوعات کے مطالعے کو اپنا محبوب مشغلہ بنالیا اور اسلام کو گہرائی کے ساتھ سمجھنے کے لیے اس کا اچھی طرح مطالعہ کیا۔ اس سلسلے میں پیغمبر اسلام ﷺ اور آپؐ کے مقدس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت اور اسلامی تاریخ کا بھی مطالعہ کیا۔ اسلام نے صنف نازک کو جو مقام و مرتبہ اور حقوق صدیوں سے دے رکھے ہیں، ان سے میری نگاہیں خیرہ ہوگئیں جب کہ امریکہ میں عورتوں کے اپنے حقوق کی بازیابی اور برابری کے مطالبے کی تاریخ چند سال سے زیادہ نہیں۔

دوسرا قدم میں نے یہ اٹھایا کہ مسلم مردوں، عورتوں اور ان کی عائلی وخانگی زندگی کا تجزیہ کرنا شروع کیا اور امریکہ کی اور ان کی معاشرتی و اجتماعی زندگی کا تقابل اور موازنہ کیا۔ میری خوش قسمتی کہ حسن اتفاق سے میری ملاقات بعض دیندار اور شریف مسلم گھرانوں سے ہوگئی۔ ان کے طریقہ زندگی، طرز معاشرت، خانگی آداب، بچوں کی نگہداشت اور ان سے شفقت و محبت کا برتاؤ دیکھ کر میں محسور ہوگئی۔ میں نے دیکھا کہ مسلمان میاں بیوی آپس میں ایک دوسرے سے پیار اور محبت کا معاملہ کرتے ہیں اور ہر ایک دوسرے کے تئیں اپنی ذمے داریاں محسوس کرتا ہے اور اس کے بالمقابل جو بھی کام کرتا ہے اسے قدرواحترام کی نظر سے دیکھتا ہے اور یہ وہ بات ہے جو امریکہ کے بیشتر گھرانوں میں عنقا ہے۔

آپ یہ بتائیے اسلام میں عورتوں کے ساتھ جو احکام مخصوص ہیں، ان میں سے کون سا حکم آپ کو سب سے زیادہ پسند آیا؟

اس کے جواب میںڈاکٹر ماریہ صاحبہ نے کہا: ’’حجاب! کیوںکہ مجھے مکمل یقین اور اطمینان ہے کہ عورت کا اپنے جسم کو ڈھکا رکھنا اس وجہ سے ضروری نہیں کہ وہ مردوں سے کم تر ہے، بلکہ یہ اس کے تحفظ اور احترام و اکرام کا خاص حق ہے۔ اسی طرح اسلام طلاق یافتہ عورت کو خاص مدت تک نفقہ دیتا ہے اور اسے شوہر کے گھر میں رہنے کی اجازت بھی عطا کرتا ہے۔ اگر امریکہ میں ایسا ہوتا تو ہزاروں مطلقہ عورتیں یوں بے گھر، دربدر، ماری ماری نہ پھرتیں۔ پھر یہ کہ اسلام نے عورت کی اصلی ذمے داریوں کی بھی وضاحت کے ساتھ تحدید کی ہے، مثلاً یہ کہ وہ اپنے گھر اور بال بچوں کی نگہداشت کرے، کیونکہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے وقت دینا دراصل تہذیب و تمدن کی تعمیر و ترقی کے مترادف ہے، بصورت دیگر بچے شتر بے مہار کی طرح کسی تربیت کے بغیر پرورش پائیں گے جیسا کہ آج کل امریکہ میں عام طور سے دیکھنے کو ملتا ہے۔

آپ کے خیال میں ہم امریکی معاشرے میں کس طرح اسلامی دعوت دے سکتے ہیں؟

اس کا جواب انھوں نے یوں دیا: ’’امریکیوں کے نزدیک اسلام کا تصور نہایت ہی گھناؤنا اور مسخ شدہ ہے جو بہت حد تک سیاست سے جڑا ہے۔ ذہنی طور پر وہ اسلام کو ایک جنگجو اور لڑاکا مذہب گردانتے ہیں جس کے پیرو کار ہمیشہ قتل اور خوں ریزی کے لیے آمادہ رہتے ہیں، چنانچہ وہ کبھی اسلام کو ایک نظام حیات کے طور پر نہیں دیکھتے۔ اس لیے ہمارے لیے سب سے زیادہ ضروری امر یہ ہے کہ ہم انہیں اسلام کا ہر زاوے سے تعارف کرائیں اور انہیںیہ بتائیں کہ اسلام ایک مکمل اور ہمہ گیر نظام حیات ہے اور ان کے سامنے عملی زندگی میں اچھا نمونہ پیش کریں اور سب مسلمان اپنے خاندانوں کی عمارتیں اسلامی اصولوں کی بنیادوں پر استوار کریں۔

(گفتگو پر مبنی مجلہ المسلمون)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں