ایک جاپانی طالبہ کا قبولِ اسلام

ماخوذ

[ایک جاپانی طالبہ کی داستان قبول اسلام جو دہلی کی معروف یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہندی زبان سیکھنے آئی تھیں اور اسلام سے سرفراز ہوکر وطن لوٹیں۔]

س: آپ بھارت کب گئیں اور وہاں مصروفیات کیا تھیں؟

ج: یہ ۱۹۹۸ء کا ذکر ہے۔ میں نے ہندی زبان سیکھنے کے لیے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے دو سالہ ڈپلوما کورس میں داخلہ لیا۔ درس و تدریس کا سلسلہ ایک دو بجے تک ختم ہوجاتا تھا اور تین بجے کے بعد میں فارغ رہتی تھی۔ بالعموم ہندی لٹریچر کا مطالعہ کرتی تھی۔ اس دوران میں کئی اردو افسانہ نویسوں کے افسانے نظر سے گزرے جو ہندی رسم الخط میں تھے یا ترجمہ کیے گئے تھے۔ مجھے بعض افسانے بہت اچھے لگے، خیال آیا کیوں نہ افسانوں کا براہِ راست مطالعہ اردو میں کیا جائے۔

س: کیا آپ نے اردو سیکھ لی تھی؟

ج: نہیں، اردو سیکھنا چاہتی تھی، اس لیے میں نے اردو اکیڈمی میں داخلہ لے لیا، جہاں اردو سکھانے کے لیے شام کو دو گھنٹے کی کلاس ہوتی تھی، یہ جگہ گھٹا مسجد کے قریب تھی۔ یہاں اردو کے لوگوں سے میل جول بڑھتا گیا۔ میں اردو سیکھتی رہی۔ اردو سیکھنے والے مقامی لوگوں نے مجھے اپنے ہاں آنے کی دعوت دی چنانچہ کئی بار خصوصاً عید کے تہواروں پر، میلاد النبیؐ کے موقع پر اور شادی بیاہ کی تقریبات میں مجھے مسلمانوں کے ہاں جانے اور ان کو سمجھنے کا موقع ملا۔ ہندو اور سکھوں کی بعض تقریبات میں بھی شمولیت کا اتفاق ہوا۔ جو چیز مجھے کھٹکی وہ ہندوؤں کی چھوت چھات تھی۔ وہ جھوٹا کھانا نہیں کھاتے تھے، ضائع کردیتے تھے۔ ہندوؤں کے کھانے کو کوئی دوسرا خاص طور پر مسلمان ہاتھ نہیں لگا سکتا تھا۔ اگر کسی کا ہاتھ لگ جاتا تو وہ کھانا پھینک دیتے تھے، یہ بات مجھے اچھی نہیں لگی۔

س: قبولِ اسلام کے لیے کس چیز نے آپ کو آمادہ کیا؟

ج: ایک بار یوں ہوا کہ ایک ہندو سہیلی کے ساتھ سنیما گھر میں فلم دیکھنے کا پروگرام بنا۔ ان دنوں میں شام کے وقت جاپان فاؤنڈیشن میں بھی کام کیا کرتی تھی۔ اس روز مجھے فوری اور ہنگامی نوعیت کا کام پڑگیا، اس لیے میں نے سہیلی کو اطلاع دی کہ آج میں فلم دیکھنے نہیں جاسکتی۔ اب اتفاق یہ ہوا کہ اُپہار سنیما میں جہاں ہمیں فلم دیکھنی تھی، اس میں عین فلم کے دوران آگ لگ گئی اور اس حادثے میں ساٹھ ستر لوگ مرگئے۔ میں شکر ادا کرنے لگی۔ ان دنوں میں ایک ہندو خاندان کے ساتھ (Paying Guest) کے طور پر قیام پذیر تھی۔ میں نے کہا: ’’میں اس حادثے سے بچ گئی ہوں، اب اظہارِ تشکر کا کیا طریقہ اختیار کروں؟‘‘ صاحبِ خانہ نے کہا: ’’بھگوان نے بچایا ہے، اس لیے اس کا شکر ادا کرو، اور بھگوان کو بطورِ نذرانہ مٹھائی پیش کرو۔‘‘

میں نے کہا: ’’راستے میں ایک چھوٹا سا مندر واقع ہے، میں کل جاتے ہوئے وہاں بھگوان کے لیے مٹھائی لے جاؤں گی۔‘‘ صاحبِ خانہ کہا: ’’وہاں مت جانا کیوںکہ وہ چماروں اور اچھوتوں کا مندر ہے۔‘‘ ان کی یہ بات سن کر مجھے دھچکا سا لگا۔ میں نے سوچا: کیا اچھوتوں کا بھگوان اور ہے؟ بڑوں کا اور ہے، چھوٹوں کا اور ہے؟ نہیں، بھگوان تو ایک ہی ہے… تو پھر یہ الگ الگ مندر کیوں ہیں؟ یہ تفریق کیا ہے؟ بھگوان تو سب کا ایک ہونا چاہیے۔ بہر حال مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی بلکہ بہت برا لگا، بے حد برا، میرے دل میں ایک مستقل خلش پیدا ہوگئی۔

اس کے برعکس اردو اکیڈمی میں، میں دیکھتی تھی کہ مسلمانوں کے ہاں اسلام ایک ہے، خدا ایک ہے، امیر غریب میں کوئی تمیز نہیں تھی۔ جب میں مسلم گھرانوں میں جاتی تو دیکھتی کہ سب لوگ مل جل کر کھانا کھاتے، تہواروں پر غریبوں کو ساتھ بٹھا کر کھانا کھلایا جاتا۔ میں دیکھتی کہ یونیورسٹی کے پروفیسر بھی غریب مسلمانوں کے ساتھ بیٹھ کر کھاتے ہیں۔ یہ بات مجھے بہت اچھی لگی… میں سوچنے لگی کہ یہ تو اچھا دین ہے، جس میں چھوت چھات نہیں، امیر غریب سب برابر ہیں۔ کبھی میں نظام الدین چلی جاتی اور یہاں مسلمانوں سے ملتی، بات چیت کرتی۔ جوں جوں میں مسلمانوںکے قریب ہوئی، بھائی چارے کی فضا مجھے اور بھی اچھی لگی۔ میں نے سوچا: شاید مجھے اللہ نے بلایاہے، اب میرا فرض ہے کہ مسلمان ہوجاؤں چنانچہ ایک روز اردو اکیڈمی والوں سے اپنے عندیے کا ذکر کیا، وہ خوش ہوئے اور دوسرے روز میں نے گھٹا مسجد جاکر، امام صاحب کے سامنے اسلام قبول کرلیا۔‘‘

س: ایک اجنبی ماحول میں، قبولِ اسلام کے بعد آپ کو کچھ مشکلات تو پیش آئی ہوں گی؟

ج: میری ہندوسہیلی نے مجھے روکا، بہت منع کیا کہ میں ایسا نہ کرو… مگر میں تہیہ کرچکی تھی، اس لیے میں نے اس کی ناراضی کی پروا نہیں کی۔ پھر یہ کہ اس اثنا میں، بہت سی مسلمان لڑکیوں سے میری دوستی ہوچکی تھی۔ تین ماہ بعد میرا کورس مکمل ہوگیا اور میں واپس جاپان آگئی۔‘‘

س: کیا گھر والوں نے آپ کے تبدیلیٔ مذہب کو قبول کرلیا؟

ج: جب میں نے امی کو بتایا تو وہ بہت ناراض ہوئیں۔ وہ بدھ مت پر یقین رکھتی تھیں اس لیے ان کا خیال تھا کہ اگر مجھے مذہبی ہونا ہے تو بدھسٹ بننا چاہیے، نہ کہ مسلمان۔ لیکن میرا عزم پختہ تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی۔ ایک مشکل یہ پیش آئی کہ میں صبح نمازِ فجر کے لیے اٹھتی، باتھ روم جاتی تو گھر والوں کی نیند خراب ہوتی، مجھے بھی احساس ہوتا کہ انہیں پریشان کرتی ہوں مگر فرض تو ادا کرنا تھا…

اللہ نے یہ مشکل اس طرح آسان کی کہ ایک ماہ بعد مجھے ناگانو (Nagano) میں ملازمت مل گئی۔ میں ملازمت میں ساتر لباس پہنتی تھی، کمپیوٹر پر کام کرتی تھی۔ کچھ عرصے بعد واپس ٹوکیو آگئی۔ اب مجھے یہ احساس ہونے لگا کہ میں مسلمان تو ہوگئی ہوں لیکن مجھے اسلام کا پورا علم ابھی تک نہیں ہوا۔ اس اثنا میں ایک سہیلی کے ساتھ بعض اسلامی ممالک کی سیروسیاحت کا موقع مل گیا۔ بھارت کے بعد ہم پاکستان، ایران، اردن، شام، مصر اور ترکی گئے۔ اس دورے میں مجھے مسلمانوں سے ملنے جلنے اور انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ بہت سی نئی باتوں کا علم ہوا۔ جاپان میں رہ کر ان سے واقفیت نہ ہوسکتی تھی۔ اس سے مجھے یہ احساس ہوا کہ میں مسلمان ہوں مگر قرآن نہیں پڑھ سکتی، سیکھنا چاہیے اور سمجھنا بھی چاہیے۔ اسی طرح حدیث بھی… اور اسلام کے علم کو بھی بڑھانا چاہیے۔

س: آپ مسلم ممالک میں گھومی ہیں تو لوگوں کو کیسا پایا؟ ان کا آپ کے ساتھ کیسا رویہ تھا؟

ج: ہم جہاں بھی گئے، ایک پرخلوص محبت کا جذبہ نظر آیا۔ لگتا تھا کہ وہ دل سے ہماری خدمت کرنا چاہتے تھے۔ خاص طور پر پاکستان والے تو بہت اچھے ہیں۔

اس سفر میں یہ بھی عجیب تجربہ ہوا کہ میری سہیلی سفر میں کبھی کبھی بیمار پڑجاتی اور کسی ڈاکٹر کے پاس جاتے، دوا لیتے، مگر وہ دوا کے پیسے نہیں لیتے تھے کہ آپ ہمارے مہمان ہیں… اگر ہم نے اصرار کیا تو بس پانچ روپے لے لیے۔

س: پاکستان کے بعد دوسرے ممالک کا سفر کیسا رہا؟

ج: وہ بھی بہت اچھا رہا… میری سہیلی کو مساجد دیکھنے کا شوق تھا۔ ہم جہاں بھی گئے ایران میں، شام میں، ترکی میں، بہت خوب صورت مسجدیں دیکھنے کو ملیں۔ خاص طور پر ترکی میں تو بہت شاندار تاریخی مساجد ہیں۔ شام میں ایک اسلامک انسٹی ٹیوٹ میں وہاں کے ایک پروفیسر سے ملاقات ہوگئی۔ انھوں نے میرا شوق دیکھ کر مشورہ دیا کہ واپس ٹوکیو جاکر عرب اسلامی انسٹی ٹیوٹ میں عربی زبان سیکھوں، تو واپس آکر میں نے وہاں رابطہ کیا مگر بعض مشکلات کی وجہ سے وہاں کلاسوں میں باقاعدگی کے ساتھ شریک نہیں ہوسکی لیکن میرا شوق تھا، اس لیے ایک اور جگہ عربی کلاس میں شامل ہوگئی۔

س: مشتاق صاحب سے رابطہ کیسے ہوا؟ اور شادی کیسے ہوئی؟

ج: (اس پر نسیمہ کچھ جھجکیں اور انھوں نے مشتاق صاحب کی طرف دیکھا، پھر کہنے لگیں:) عربی کلاس کے دوران میں ہی رابطہ ہوا، پھرشادی ہوگئی الحمدللہ۔

س: آپ کے والدین اس شادی پر رضا مند تھے؟

ج: شروع میں تو ناراض تھے لیکن اب مطمئن ہیں اور کبھی کبھی آتے ہیں۔ خاص طور پر امی… تو میں انہیں اسلام کے بارے میں کچھ بتاتی ہوں۔ اب ان کے خیالات کچھ بدل گئے ہیں۔

س: آپ کے والد کیا کرتے ہیں؟

ج: وہ ایک کمپنی میں نوکری کرتے تھے، اب ریٹائر ہوگئے ہیں۔

س: اور کوئی بہن بھائی۔

ج: ایک بڑی بہن ہے، اس کی شادی ہوگئی ہے۔

س: تو آپ اب قرآن پاک پڑھ سکتی ہیں؟

ج: جی ہاں، کافی پڑھ سکتی ہوں اور کیسٹوں کی مددسے بھی قرآن پاک سیکھتی ہوں۔ جو سورت یاد ہوجائے، اسے بار بار دہراتی ہوں اور نماز میں بھی پڑھتی ہوں۔ ٹوکیو مسجد میں مسلمان خواتین بھی نماز کے لیے آتی ہیں، وہاں جاتی ہوں اور ان سے ملاقات ہوتی ہے۔

س: آج کل آپ کی مصروفیات کیا رہتی ہیں؟

ج: (خیال رہے کہ انھوں نے شادی کے بعد، مشتاق صاحب کے مشورے اور ایما پر ملازمت ترک کردی تھی… یہ سوال اس پس منظر میں تھا) کہنے لگیں: ایک تو میں خود اسلام کو زیادہ سمجھنے اور سیکھنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہوں، دوسرے یہ خیال آتا ہے کہ دوسری بہنوں تک اسلام کی بات پہنچانا فرض ہے۔

اس مرحلے پر مشتاق احمد صاحب نے کچھ وضاحت کی۔وہ کہنے لگے: ’’آج کل یہ بعض نو مسلم خواتین کو نماز سکھانے اور دینی شعائر بتانے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں۔ کچھ تو خود مطالعہ کرتی ہیں، کتابوں، کیسٹوں اور کمپیوٹر، انٹرنیٹ کے ذریعے، پھر جاپانی نومسلم خواتین سے رابطہ رکھتی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارے مسلمان بھائی، جاپانی خواتین کو کلمہ پڑھا کر، ان سے شادی تو کرلیتے ہیں، مگر انہیں دین کون سکھائے؟ اول تو ہمارے بعض بھائی، معافی چاہتا ہوں یہ کہتے ہوئے کہ، دین سے فقط واجبی سی دل چسپی رکھتے ہیں، دوسرے: وہ نومسلمہ بیویوں کو نماز سکھانے، قرآن پڑھوانے اور دین کی تعلیم دینے کی ضرورت اور اہمیت سے غافل ہیں، شاید اس کا شعور بھی نہیں رکھتے، اس لیے نسیمہ ایسی نو مسلمہ خواتین سے تعارف پیدا کرتی ہیں۔‘‘

نسیمہ کہنے لگیں:’’بطور مسلمان کے، یہ ہمارا فرض ہے کہ جو نہیں جانتا، اسے ہم بتائیں، سکھائیں… تو میں ایسی خواتین کو گھر بلاتی ہوں، بلکہ ان کی دعوت کرتی ہوں، ہم اکٹھے کھانا کھاتے ہیں، باتیں کرتے ہیں۔ اس طرح وہ ہمارے قریب ہو جاتی ہیں، پھر میں انہیں نماز سکھاتی ہوں…‘‘

مشتاق صاحب نے وضاحت کی: ’’گزشتہ تین جمعوں سے یہ تین خواتین پر کام کررہی ہیں۔ پہلے کسی موضوع پر جاپانی زبان میں کچھ معلومات جمع کرتی ہیں، پھر کمپیوٹر کی مدد سے انہیں سمجھاتی ہیں۔ وہ آئیں تو پہلے انھیں کھانا کھلاتی ہیں پھر سبق دیتی ہیں۔ ابھی پچھلے جمعے کو انھوں نے مسلمان بیویوں کے حقوق و فرائض کے موضوع پر انہیں بہت کچھ سمجھایا، پڑھایا…‘‘

نسیمہ بولیں: ’’اصل میں مجھے خیال آتا ہے کہ یہدین اسلام اتنا اچھا ہے، تو اسے جاپانیوں تک پہنچانا چاہیے۔‘‘

س: جاپانی لوگ جو خود کشی کرتے ہیں، اس کی وجہ کیا ہے؟

میرا سوال اس تناظر میں تھا کہ یہ ایک خوش حال اور منظم معاشرہ ہے۔ غربت اور افلاس کے وہ مسائل نہیں ہیں، جن سے ترقی پذیر ممالک دو چار ہیں… پھر سیکنڈے نیوین ممالک (سویڈن، ڈنمارک، ناروے) بھی یورپ میں سب میں زیادہ خوش حال ہیں مگر سب سے زیادہ خود کشی بھی وہاں ہوتی ہیں۔)

ج: یہ مایوسی کی وجہ سے ہے۔ ایک تو یہ کہ ان کے سامنے بھگوان یا خدا کا تصور نہیں ہوتا، اس لیے جب کہیں ناکامی ہوتی ہے یا پریشانی ہوتی ہے تو سمجھتے ہیں، اب کوئی بچانے والا نہیں، مایوس ہوکر وہ خود کشی کرلیتے ہیں۔‘‘

س: یہاں تو کچھ بدھ مت کے پیروکار ہیں، کچھ شنتو مت کو مانتے ہیں تو کیا ان میں کسی خدا کا تصور نہیں ہے؟

ج: ہے مگر وہ کچھ رسمی سا ہوگیا ہے۔ زیادہ توجہ روپے پیسے کمانے پر ہے۔ ہر چیز کمرشیل ہوگئی ہے۔

س: یہاں جو بچے بڑے ہوجاتے ہیں تو والدین ان کی ذمہ داری کب تک اٹھاتے ہیں؟

ج: قانونی طور پر بیس سال کی عمر کے بعد والدین کی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے، لیکن اس کے باوجود والدین تعلیم میں بچوں کی مدد کرتے ہیں۔ اگر وہ یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں تو والدین خرچ دیتے ہیں، اور شادی کے وقت بھی دیتے ہیں۔ یعنی بیس سال کے بعد بالکل الگ کرکے چھوڑ نہیں دیتے ہیں۔

س: مگر کچھ طالب علم کہتے ہیں کہ ہم خود ملازمت کرتے ہیں اور اپنے اخراجات جمع کرتے ہیں؟

ج: ہاں، وہ ملازمت کرتے ہیں اور اس طرح جو رقم ملتی ہے اس سے اپنا شوق پورا کرتے ہیں یا سفر کرتے ہیں یا کپڑے بناتے ہیں۔

س: آپ نے پاکستان کا سفر کیا ہے اور ہندوستان میں بھی رہی ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہاں خاصی بددیانتی ہے، ان معنوں میں کہ موقع ملے گا تو لوگ بلا ٹکٹ سفر کریں گے، کسی چیز کے دام زیادہ لگالیں گے، دھوکا دیں گے… تو یہاں جاپان میں بالعموم ایسا نہیں ہوتا۔ لوگ دیانت دار ہیں اس کا سبب کیا ہے؟

ج: یہاں قانون پر سختی سے عمل ہوتا ہے یعنی اگرکوئی پکڑا جائے تو سزا ملتی ہے۔ دوسرے جاپان میں بچپن ہی سے دیانت، امانت، محنت کی تربیت دی جاتی ہے۔ والدین بھی اساتذہ بھی بچوں کو ذہن نشین کراتے ہیں کہ قانون کی پابندی بہت ضروری ہے۔

(میں نے محسوس کیا کہ نسیمہ کے اندر فہم دین کے لیے ایک پیاس موجود ہے اور شعائر دین کی اہمیت سے بھی وہ غافل نہیں ہیں۔ شوہر کا عندیہ پاکر ملازمت سے دست کش ہوگئیں۔ مشتاق صاحب کی معیت میں ان سے کئی بار ملنا ہوا۔ ان ملاقاتوں میں، کسی ریستوران میں چائے پیتے ہوئے یا ڈرائیونگ کرتے ہوئے بھی انھوں نے ہمیشہ ایک باوقار سنجیدہ خاتون کا تاثر دیا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ حجاب کا پورا پورا اہتمام کیا۔ اس انٹرویو اور کھانے کے دوران میں بھی یہ اہتمام برقرار رکھا۔ جاپانی معاشرہ قریب قریب ایک مغربی معاشرہ ہے، اس ماحول میں حجاب کا ایسا اہتمام ایک نایاب اور منفرد بات ہے۔)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں