’’ایکسکیوزمی! کیا آپ کے پاس ٹوٹے ہوئے پچاس سینٹ ہوں گے؟‘‘ آواز صاف تھی اور بات بھی چونکا دینے والی نہیں تھی، پھر بھی میں پل بھر کو چونک کر رہ گئی۔ یہ جملہ میں نے پہلے بھی کہیں سن رکھا تھا مگر کہاں؟ کچھ یاد نہ پڑتا تھا۔ میں نے گردن گھما کر دیکھا۔ اس لڑکی نے اونچی ہیل والے نوکیلے سینڈل پہن رکھے تھے اور بالوں کو پنک (punk) اسٹائل میںترشوا رکھا تھا۔ وہ سولہ سترہ برس سے زیادہ کی دکھائی نہیں دیتی تھی مگر چہرے سے بچپن کی معصومیت غائب تھی۔ اس نے سرخ منی اسکرٹ اور تنگ سویٹر پہن رکھا تھا۔ وہ فٹ پاتھ کے ایک نیم تاریک کونے میں کھڑی ایک دوسرے راہ گیر کے سامنے ہاتھ پھیلا کر پھر وہی جملہ دہرا رہی تھی۔
وہ رات بھی عجب رات تھی۔ امریکہ میں کئی سال گزار لینے کے باوجود ابھی تک کچھ چیزیں، کچھ باتیں مجھے ہر وقت حیران و پریشان اور کچھ سوچنے پر مجبور کردیتی تھیں۔ اس رات میں نیویارک کی مشہور زمانہ فورٹی سیکنڈ اسٹریٹ سے گزر رہی تھی۔ یہ بات نہیں تھی کہ میں نے فورٹی سکینڈ اسٹریٹ کبھی دیکھی نہیں تھی یا مجھے اس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا، لیکن انسانوں کی منڈی، جہاں جسم بکتے ہوں اور لذتوں کا سودا ہوتا ہو، مجھے ہمیشہ سے انسانی نفسیات کے بارے میں کنفیوژ کردیتی تھی۔
مئی کی خوبصورت گرمائی رات تھی۔ چاروں طرف لوگ ادھر ادھر چلتے نظر آرہے تھے۔ گورے، کالے، امریکی، ایشیائی، چینی، غرض ہر قوم اور نسل کے لوگ دکھائی دے رہے تھے۔ زیادہ تر لوگوں کے ہاتھوں میں بیئر کے ڈبے تھے جو وہ وقفے وقفے سے منہ سے لگا لیتے۔ راک موسیقی کی آوازیں کانوں کے پردے پھاڑے دیتی تھیں۔ بڑے بڑے اشتہاری بورڈ اور ان پر بنے مرد و زن کے کٹ آؤٹ، روشنیوں میں بھیگے ہرگزرنے والے کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہورہے تھے۔
جب اس لڑکی نے تیسری بار بھی ایک راہ گیر کے سامنے ہاتھ پھیلا کر وہی سوال دہرایا تو میں سکتے میں رہ گئی۔ مجھے یکدم کچھ یاد آگیا تھا۔
’’کیا آپ نے اس لڑکی کو پہچانا؟‘‘ میں نے اپنے میاں کا بازو تقریباً جھنجھوڑ ڈالا۔
’’نہیں، نہیں تو۔ کون ہے یہ؟‘‘ انھوں نے لاعلمی ظاہر کی۔
’’یہ وہی باربرا ہے نا، باربرا، روتھ کی بیٹی۔‘‘ میں نے یاد دلانے کی کوشش کی۔
’’اوہ، وہ بار برا، مڈل ٹاؤن والی روتھ کی۔‘‘ انھوں نے کچھ سوچتے ہوئے حیرانی سے کہا۔ ہم دونوں نے اس لڑکی کو بغور دیکھا، واقعی وہ باربرا تھی، لیکن اس چھ سات سالہ بچی سے کس قدر مختلف جسے میں نے دس برس پہلے دیکھا تھا۔
باربرا کی ماں روتھ ہماری ہمسائی تھی۔ ہمارے بالکل ساتھ والے اپارٹمنٹ میں اس کا گھر تھا۔ وہ میکسیکن تھی۔ اسے میکسیکو سے آئے ہوئے تقریباً دس برس ہوچکے تھے۔ وہ اوراس کا شوہر اپنے خاندان کا مستقبل بہتر بنانے کا خواب پورا کرنے کے لیے امریکہ ہجرت کر آئے تھے۔
شروع شروع میں تو اس کا شوہر اپنی بیوی اور چار بچوں کے لیے دن رات محنت مزدوری کرتا رہا مگر آہستہ آہستہ اس نے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے گریز کرنا شروع کردیا۔ وہ شراب اور عیاشی کا رسیا ہوگیا اور ایک دن روتھ اور اس نے اپنی زندگی کی راہیں جدا کرلیں۔ اس کا شوہر گھر چھوڑ گیا اور روتھ نے گزر اوقات کے لیے ایک اسٹور میں ملازمت کرلی۔
ایک دن اسٹور سے واپسی پر روتھ نے دیکھا کہ اس کا گھر شعلوں کی لپیٹ میں ہے۔ اس وقت بچے اسکول گئے ہوئے تھے ورنہ کیا سے کیا ہوجاتا۔ روتھ کی آنکھوں کے سامنے اس کا گھر، سامان سمیت جل کر راکھ ہوگیا اور اسے مجبوراً ایک اپارٹمنٹ میں منتقل ہونا پڑا۔ اس کے پاس چونکہ گھر کا کوئی سامان بچا نہ تھا، اس لیے ہمسایوں نے امداد کے لیے چیزیں دے دیں۔ فرنیچر، کپڑے، برتن جو کچھ کسی سے ہوسکا، اس نے دیا۔ شوہر سے جدائی کے بعد اس نے اپنے ہم عمر ایک دوسرے مرد سے تعلقات بنالیے اور جب وہ ہمارے پڑوس میں آئی تو وہ بھی اس کے ساتھ رہتا تھا۔
روتھ اور میں اکثر آتے جاتے ایک دوسرے کو ہیلو کہتے اور حال چال پوچھ لیا کرتے تھے۔ وہ بڑی خوش اخلاق اور ہنس مکھ عورت تھی۔ اتنے مصائب کا سامنا کرنے کے باوجود اس کے چہرے پر ہمہ وقت ایک مسکراہٹ کھیلتی رہتی۔ کبھی کبھار میں اور وہ اپنے گھر کے باہر بنے چھوٹے سے پورچ کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگتے۔ چار بچوں کی ماں ہونے کے باوجو دوہ ایک نوجوان عورت کا سا جسم رکھتی تھی۔ حالانکہ اس کی عمر پینتیس برس کے قریب تھی۔ اس کے چہرے کی گلابی رنگت اور بلند قدوقامت اسے بہت شاندار شخصیت بخشتے تھے۔
ان کے گھر سے اکثر گالی گلوچ اور مار پیٹ کی آوازیں آیا کرتیں تو مجھے بڑا افسوس ہوتا لیکن پوچھتے اچھا نہ لگتا۔ اس کا دوست اور لڑکے جن کی عمریں بارہ اور تیرہ برس کی تھیں، اکثر الجھ جاتے۔
ایک دن باتوں باتوں میں روتھ نے ذکر کیا کہ اس کا ساتھی اس کی پندرہ سالہ بیٹی میگی پر بری نظر ڈالتا ہے اور گھر میں اس وجہ سے خاصے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہ تو میں نے بھی محسوس کیا تھا کہ میگی عام ٹین ایجر لڑکیوں کی طرح خاصی خود سر تھی اور اس کا رویہ باغیانہ تھا۔ اکثر وقت بے وقت باہر لڑکوں لڑکیوں کی ٹولیوں میں چست اور نامناسب کپڑے پہنے پھرا کرتی تھی۔ اس کے بال بے حد لمبے اور چمکدار سنہری رنگ کے تھے، جنھیں وہ کبھی باندھ کر نہ رکھتی تھی۔ اس کے بھائی بھی اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ ادھر ادھر آوارہ گردی کرتے نظر آتے تھے۔ صرف ایک چھوٹی بچی باربرا ہی تھی جو ہر وقت ماں کے ساتھ چپکی رہتی تھی۔
باربرا کی عمر پانچ چھ سال کی ہوگی مگر وہ بالکل ننھی سی بے بی کی طرح ماں کو محبوب تھی۔ ماں بیٹیاں اکثر اکٹھی رہا کرتی تھیں۔ ایک دن میں اور روتھ حسب معمول شام کو پورچ کی سیڑھیوں پر بیٹھے تھے کہ میرے کسی سوال کے جواب میں روتھ نے بڑے آرام سے بتایا کہ اس کے پیٹ میں کینسر ہے۔
’’کیا؟‘‘ میں سن کر اچھل پڑی اور اسے حسرت اور خوف سے تکنے لگی۔ میرا رواں رواں کانپنے لگا لیکن وہ جذبات سے عاری نظر آتی تھی۔ اس کی آنکھوں میںالبتہ جس ہولناک یاسیت نے اپنے نوکیلے پنجے گاڑ رکھے تھے، وہ مجھ سے چھپی نہ رہ سکتی تھی۔ مجھے دم بخود دیکھ کر وہ کہنے لگی:
’’تم کو شاید پہلے میں نے بتایا نہیں۔ مجھے خیال نہیں رہا ہوگا۔ تم پریشان مت ہو۔ مجھے سب معلوم ہے۔ میری زندگی زیادہ لمبی نہیں۔‘‘
’’مگر…؟‘‘ میں اس سے کوئی سوال نہ کرسکی۔ کیسے پوچھتی کہ کب مررہی ہو۔
’’بھئی، اب تو دو سال ہوچکے ہیں مجھے یہ بیماری لگے ہوئے۔ ویسے تو مجھے کوئی خاص تکلیف نہیں ہوتی، صرف کبھی کبھار بلیڈنگ زیادہ ہوجاتی ہے۔ اور میں علاج کے لیے اسپتال تو جاتی رہتی ہوں۔ مجھے بس بچوں کی فکر ہے۔ میگی تو یوں بھی میرے اختیار میں نہیں، اس لیے جہاں چاہے چلی جائے گی۔ بیٹوں کے لیے میں نے ان کے باپ سے استدعا کی ہے کہ انھیں دوبارہ اپنی سرپرستی میں لے لے مگر ابھی تک نے اس نے ہامی نہیں بھری۔ باربرا کی البتہ مجھے بہت فکر ہے۔ وہ میری بے بی جوٹھہری۔‘‘
اسی لمحے میری نظریں سامنے کے بڑے لان میں کھیلتی باربرا پرجا ٹکیں۔ وہ ایک بڑے سے رنگین بیچ بال سے کھیلنے میں مصروف تھی۔ بال بہت بڑا تھا، اسے اچھالتے اور پکڑتے ہوئے باربرا کی شوخ ہنسی دور تک سنائی دے رہی تھی۔
’’باربرا کے رہنے کا انتظام میں ابھی تک نہیں کرسکی کہ وہ میرے بعد کہاں رہے گی۔‘‘ روتھ نے بات آگے بڑھائی ’’اب تو میری امی نے بھی جاب شروع کردی ہے، اس لیے وہ بھی اسے رکھنے سے قاصر ہیں۔ شاید کوئی فوسٹر ہوم (سوتیلے بچوں کاگھر) اسے لے لے۔ ویسے کوئی نہ کوئی حکومتی ادارہ اسے کہیں نہ کہیں سیٹ کر ہی دے گا۔ کیا کروں؟ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔‘‘
روتھ کی بات ابھی جاری رہتی مگر اسی لمحے باربرا منہ بسورتی ماں کے پاس آن کھڑی ہوئی۔
’’مام! میرے بال میں سوراخ ہوگیا ہے۔ دیکھیں نا!‘‘
اس کی ماں نے اسے گود میں لے کر بے تحاشا پیار کیا، بال سنوارے اور میں اس بڑے سے رنگین پلاسٹک کے بال کی طرف دیکھنے لگی جس سے ہوا دھیرے دھیرے نکل کر، اسے بے جان بنا رہی تھی۔
’’ارے ہاں، تم سناؤ تمہارے ہاں بے بی کی پیدائش کب متوقع ہے؟‘‘ روتھ نے شگفتگی سے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
اس وقت میں امید سے تھی اور میرے ہاں تین چار ماہ میں ولادت ہونا تھی۔ روتھ سے افسوسناک خبر سننے کے بعد میرے ہاں ایک نئی زندگی کی ولادت کا تذکرہ مجھے بے جا سا لگا۔ میں نے ہوں ہاں کرکے مختصر سا جواب دے دیا لیکن اپنی خوش آئند بات کا اظہار کرنے کی ہمت نہ پیدا کرسکی۔
اس رات نیند مجھ سے کوسوں دور تھی۔ روتھ کی افسوسناک خبر نے مجھے بے آرام رکھا۔ میں کتنی ہی دیر تک بستر پر کروٹیں لیتی رہی۔ جی اداس ہوگیا۔ غیر ملک میں تنہائی تو ہمیشہ سے میری ساتھی رہی تھی، اس رات اپنا ملک، اپنے لوگ بہت یاد آئے۔ نہ جانے کیوں دنیا کی بے ثباتی کا احساس شدت سے ڈسنے لگا۔ کینسر، بچے، موت، زندگی، یہ سب خیالات بھیانک عفریت بنے منہ کھولے ڈرانے لگے۔رات کا ایک بج چکا تھا۔ کمرے میں حبس سا محسوس ہوا تو میں نے کھڑکی ذرا سی کھول دی تاکہ تازہ ہوا اندر آسکے، میری طبیعت کی بے چینی کچھ کم ہو۔
دھیمی دھیمی باتوں کی آوازیں آنے لگیں۔ شاید کوئی باہر پورچ کی سیڑھیوں پر بیٹھا تھا۔ آوازیں ایک لڑکی اور لڑکے کی تھیں: ’’مارک، مجھے تمہارے مضبوط سہارے کی سخت ضرورت ہے۔ میں بکھر کر رہ گئی ہوں۔‘‘ لڑکی سسکیاں لے رہی تھی۔ میں نے اپنا حلق مزید خشک ہوتا اور سانس گلے میں رکتا محسوس کیا۔ بے اختیار خود کو بستر میں سے گھسیٹا اور کھڑکی کا پردہ اٹھا کر باہر جھانکا۔
میرا شک درست تھا۔ وہ بلاشبہ میگی ہی تھی جو ایک ہم عمر لڑکے کے ساتھ شانہ جوڑے زمین پر بیٹھی تھی۔ اس کے سنہری لانبے بال اسٹریٹ لائٹ کی روشنی میںسونے کے تاروں کی طرح چمک رہے تھے۔
’’بے چاری بچی! کس قدر ظلم ہوا ہے اس کے ساتھ! مظلوم لڑکی نہ جانے دل میں کیا کیا طوفان چھپائے بیٹھی حالات کا تنہا مقابلہ کررہی ہے۔‘‘ میرا دل اس کے لیے ہمدردی اور اپنائیت کے جذبے سے چور چور ہوگیا۔ کلیجہ پھٹ کے رہ گیا۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کس طرح سے اس لڑکی کی مدد کروں، اس کے دل کا دکھ بٹاؤں۔
اگلی صبح انہی خیالات میں غلطاں و پیچاں گھر کا کام کاج کررہی تھی کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔ میگی آئی تھی۔
’’کیا آپ کے پاس ٹوٹے ہوئے پچاس سینٹ ہوں گے، امی کو ضرورت ہے۔‘‘ اس نے آکر وہی سوال دہرایا جو وہ اس سے پہلے بھی کئی بار مجھ سے کر چکی تھی۔ میں نے اسے کئی بار پچاس سینٹ دیے تھے۔ یہ سوچ کر کہ ہمسائے ہیں، انہیں ضرورت ہوگی۔ آج ویسے ہی میرا دل اس کے لیے بہت نرم ہورہا تھا۔ میں نے سوچا جس طرح ممکن ہو اس بچی کی دلجوئی کروں گی۔
’’سننا میگی! میں کچھ کہنا چاہتی ہوں۔‘‘ میں نے بے احتیاطی سے بات چھیڑ دی۔ ’’میں کہنا تو نہیں چاہتی تھی اور شاید یہ خلافِ آداب بھی ہے، لیکن رات میں نے تمہاری مارک سے باتیں سن لی تھیں۔ معاف کرنا، بلا ارادہ ایسا ہوا۔ میری کھڑکی سے رات کو خاموشی میں ہر بات سنائی دے رہی تھی۔ میں تو بس اتنا ہی کہنا چاہتی ہوں کہ مجھے سن کر بہت افسوس ہوا۔ اگر کسی صورت تمہیں میری ضرورت ہو یا میں تمہارے کسی کام آسکوں تو مجھے اپنا دوست سمجھنا۔‘‘
میگی اپنے منہ سے ببل گم کا بڑا سا بلبلہ بناکر پھوڑتے ہوئے کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ ’’ارے آپ کیوں فکر کرتی ہیں؟ میں تو بالکل ٹھیک ہوں۔ دیکھیں نا، مارک اتنا خوبصورت ہے اور کم بخت میری تو اسے چھوڑتی ہی نہیں۔ وہ تو میں نے اپنی سہیلیوں سے شرط لگا رکھی تھی کہ کسی نہ کسی طرح مارک اور میری کی جوڑی توڑ کر رہوں گی۔ میں نے ایک من گھڑت کہانی سنائی تھی۔‘‘ وہ پھر ہنسنے لگی اور پچاس سینٹ لے کربائی بائی کرکے چل دی۔
مجھ پر تو جیسے گھڑوں پانی پڑگیا۔ اس نے مجھے ایک بھر پور طمانچہ دے مارا تھا۔ میں ایک شاک کی حالت میں وہیں کھڑی کی کھڑی رہ گئی اور زمین میں گڑ گئی۔ نہ جانے غم ہورہا تھا یا غصہ آرہا تھا یا شرمندگی ہورہی تھی۔ ملے جلے جذبات تھے۔ اپنے آپ کو لعنت ملامت کی۔ اس نوجوان لڑکی کو کھڑکی سے باہر مزے سے چلتے پھرتے دیکھ کر یہ فیصلہ کرلیا کہ آئندہ اپنی ہمدردیاں اپنے پاس ہی رکھا کروں گی اور خواہ مخواہ بیوقوف بننے کو تیار نہیں ہوں گی۔
اگلے دن روتھ نظر آئی تو میں نے پہلی بار اس کی بیٹی میگی کا مجھ سے پچاس سینٹ ادھار مانگنے کا تذکرہ کردیا۔ میرا شک درست نکلا، اس کی ماں کو کچھ خبر نہیں تھی۔
’’ارے، اس آوارہ لڑکی کو ہرگز کوئی پیسہ مت دیا کرو۔‘‘ روتھ نے اس انداز میں کہا کہ میں حیران ہوگئی۔ ’’میں تمہیں سختی سے تنبیہ کرتی ہوں۔ اس لڑکی نے تو میرا ناک میں دم کررکھا ہے۔ کیا بتاؤں وہ تو میرے ساتھی پربھی ڈورے ڈال رہی ہے۔‘‘
روتھ کے اپنے ہی خون کے بارے میں ایسے ریمارک سن کر میں چپ ہوگئی۔ اپنی بیٹی کے بارے میں اس کے ایسے خیالات جان کر بہت افسوس ہوا۔
وقت گزرتا گیا۔ میں اپنے چیک اپ کے لیے اسپتال باقاعدگی سے جاتی رہی۔ ایک نئی زندگی میرے وجود میں پھلتی پھولتی رہی۔ روتھ بھی اسپتال باقاعدگی سے جایا کرتی تھی ایک دم توڑتی زندگی کے لیے کچھ مزید سانسیں ادھار مانگنے۔ عجب سا تضاد ہم دونوں محسوس کررہی تھیں۔ جہاں بفضلِ خدا میرے بچے کی نشوونما نارمل اور میں جسمانی طور پر بالکل صحتمند تھی، وہیں روتھ کا جسم بیماری کی وجہ سے بھدا اور فربہ ہوتا جارہا تھا۔ اس کا چہرہ کسی کملائے ہوئے پھول کی طرح زرد ہوتا جارہا تھا۔ اس کے بال ریڈی ایشن تھراپی کی وجہ سے گرتے جارہے تھے۔
ہم دونوں کے چیک اپ اب کم کم وقفے سے ہونے لگے تھے۔ ابھی جنوری کا آخر ہی تھا۔ میرے ہاں ولادت ہونے میں تقریبا ً دو ماہ تھے۔ ایک شدید سرد صبح میں نے اوور کوٹ پہن کر گھر کے آگے بنی چلنے کی ٹریک پر چہل قدمی شروع کردی۔ واکنگ ٹریک پر برف جمی ہوئی تھی۔ اس لیے پھسلنے کے ڈر سے میں آہستہ آہستہ قدم جما جما کر چل رہی تھی۔ یکدم میں نے روتھ کو کھڑکی میں کھڑے دیکھا۔ وہ اپنے ڈرائنگ روم کی کھڑکی میں ایک سایہ سا دکھائی دے رہی تھی۔ اس نے کچھ دن پہلے مجھ سے کوئی کھلا سا کرتہ پہننے کو مانگا تھا کیونکہ اسے ہمارے دیسی اسٹائل کے کھلے کرتے بہت پسند تھے۔ اس کا جسم پھیل چکا تھا، اس لیے میں نے اسے اپنے شوہر کا کرتہ پہننے کو دے دیا تھا۔
روتھ کے چہرے کے تاثرات میں اپنے ذہن سے کبھی مٹا نہ سکوں گی۔ وہ کوئی گمشدہ بھٹکی روح کی سی ویرانی کا سماں پیش کررہے تھے۔ اس کی آنکھوں میں دکھ کا دوزخ پار نہ کرسکنے کی ناکامی کا عکس تھا۔ میں نے اس کے پاس جاکر خوشدلی سے اسے ہیلو کہا اور اس کا حال پوچھا۔
’’اچھی ہوں۔‘‘ وہ مسکرا دی۔ پھر اس نے موضوع بدلنے کے لیے مجھے دلچسپی سے اچھی طرح دیکھ کر پوچھا: ’’تم سناؤ، تمہارے مہمان صاحب کب متوقع ہیں؟‘‘
’’مارچ میں۔‘‘ میں نے بددلی سے جواب دیا۔ اس کے سامنے اپنی خوشیوں کا تذکرہ بہت بے جا لگتا تھا۔ شرمندگی سی ہوتی تھی۔
’’بھئی، کتنا اچھا ہو اگر بے بی کچھ لیٹ ہوجائے۔ اس وقت تک بہار بھی آجائے گی۔ یو نو ، بہار میرا پسندیدہ موسم ہے۔ اس وقت تک شاید میں بھی کچھ بہتر ہوجاؤں۔ وعدہ کرو کہ ہم دونوں بے بی کو اسٹرولر (بچہ گاڑی) میں ڈال کر لمبی واک پر جایا کریں گے۔ مجھے ننھے بے بی بہت پسند ہیں۔ اتنے ہی جتنا موسم بہار۔‘‘
’’ہاں، کیوں نہیں؟‘‘ میں نے بادلِ نخواستہ اس کی ہاں میں ہاں ملادی، پھر کہا: ’’روتھ! میں تمہیں آج بہت دنوں بعد دیکھ رہی ہوں۔‘‘
’’میں دو ہفتے سے اسپتال میں تھی۔ دراصل کینسر بہت پھیلتا جارہا ہے جسم میں۔ ویسے ڈاکٹر کہتے ہیں ایک سال تو اور جی ہی لوں گی۔ میں تنگ آگئی تھی اسپتال میں رہ کر۔ میرا ساتھی بھی کام پر گیا ہوا ہے۔ بچے اسکول میں ہیں۔ کیسی عجیب دکھی سی صبح ہے۔ میرا دل بہت اداس ہے۔ آج سوچ رہی تھی کھڑکی سے باہر کی دنیا دیکھوں گی۔ مگر باہر بھی دیکھنے کو کچھ نہیں۔ آسمان کی طرف کیسے دیکھوں کہ سرمئی بادل راستہ روکے کھڑے ہیں۔ سبز گھاس پر ننگے پاؤں چلنے کو دل مچل رہا ہے مگر چلوں کیسے؟ سبزہ تو برف کا سفید کمبل اوڑھے سوگیا ہے۔ چڑیوں کانغمہ کیسے سنوں؟ وہ تو نہ جانے کن اجنبی دیسوں کو پرواز کرکے تلاشِ بہاراں میں جاچکی ہیں۔‘‘ روتھ ہذیانی انداز میں بڑبڑاتی چلی جارہی تھی اور میں بت بنی اسے دیکھ رہی تھی۔ ایک زندگی میرے سامنے بجھنے کو تھی اور ایک چراغ روشن ہونے کو تیار، ایک پھول کھلنے کا منتظر۔ قدرت کے عجیب و غریب قانون پر میں حیرت زدہ تھی۔
’’اچھا دیکھو، کل مجھے پھر اسپتال جانا ہے مگر جلد بھاگ آؤں گی۔ تم دیکھ لینا وہاں رہوں گی نہیں۔ تمہارا بے بی مارچ میں ہوگا۔ تب تک پھول چٹکنا شروع ہوچکے ہوں گے۔ میں پہلے سے بہتر ہوجاؤں گی۔ سردی بھی کم ہوجائے گی۔ دوپہر کے وقت بے بی کو واک پر لے جائیں گے تاکہ اسے زیادہ سردی نہ لگے۔‘‘
وہ منصوبے بنا رہی تھی۔ میں چپ چاپ سر ہلانے لگی۔ وہ خوش ہورہی تھی اور میں خوش ہونے کے باوجود خوشی کا اظہار کرنے کی ہمت خود میںنہیں پارہی تھی۔
اس دن کے بعد میں نے روتھ کو کبھی نہیں دیکھا۔ وہ پروگرام کے مطابق اسپتال چلی تو گئی، مگر وہاں سے بھاگ کر نہ آسکی۔ ایک ماہ مستقل وہیں رہنے کے بعد ختم ہوگئی۔
ابھی فروری کا آدھا مہینہ بھی نہ گزرا تھا کہ قدرت نے وقت سے پہلے مجھے تحفے سے نواز دیا۔ میری بچی سارہ ماشاء اللہ صحتمند تھی اور اسے پاکر میں پھولی نہ سماتی تھی۔ بچی کی پیدائش نے مجھے حد سے زیادہ مصروف کردیا اور میں کچھ دنوں کے لیے روتھ کو بھلا بیٹھی۔
مارچ کا مہینہ آگیا۔ برف پگھلنا شروع ہوگئی۔ بہار آنے کی نوید ہواؤں نے سنانی شروع کردی۔ ایک چمکیلی دوپہرکو، جب موسم زیادہ خنک نہ تھا، میں نے بے بی سارہ کو اسٹرولر میں ڈالا اور باہر واک پر چل دی۔ روتھ کے اپارٹمنٹ کے پاس پہنچی تو کسی نے جیسے میرے قدم پکڑ لیے۔ جس جگہ میں نے آخری بار روتھ کو دیکھا تھا، کھڑکی میں اسی جگہ ایک سایہ کھڑا تھا مگر یہ سایہ چھوٹے سائز کا تھا۔
ننھی باربرا باہر کو دیکھ رہی تھی۔ اس کی اجڑی اجڑی آنکھیں، الجھے الجھے بال اور میلے کپڑے دیکھ کر میرا کلیجہ کٹ کر رہ گیا۔ سامنے کے باغ میں لگے سدا بہار سرو کے درخت اور آڑوؤں کے شگوفے ایک لمبے تھکا دینے والے موسم سرما کی نیند سے جاگ کر کچھ اکتائے اکتائے سے لگ رہے تھے۔
باربرا نے مجھے اور ننھی بے بی کو دیکھا تومسکرانے لگی۔ ’’ہیلو باربرا! کیسی ہو؟‘‘ میں نے پیار سے پوچھا۔
’’آئی ایم فائن!‘‘ اس نے مختصر سا جواب دیا اور بے بی کو گھورنے لگی۔
’’کیا تم لوگ اسی اپارٹمنٹ میں ٹھہرے رہو گے یا کہیں اور چلے جاؤ گے؟ تم کہاں رہو گی؟‘‘ میں نے اپنی تشویش کو چھپاتے ہوئے کہا۔
’’معلوم نہیں۔‘‘ اس نے کندھے اچکائے اور پردہ برابر کرکے اندر چلی گئی جیسے اسے اس ذکر سے کوئی دلچسپی نہ ہو۔
اس دن کے بعد میں آج اسی پانچ چھ سال کی باربرا کو ایک نوجوان لڑکی کے روپ میں دیکھ رہی تھی۔ وہ پچاس سینٹ کا چینج مانگنے کے بہانے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب ہورہی تھی۔
باربرا، روتھ کی چہیتی معصوم بے بی تھی۔ نہ جانے اسے کیا ہوا، اس پر کیا بیتی، کہاں سے گزر کر وہ اس مقام تک پہنچی، میں یہی سوچ سوچ کر چکرا رہی تھی۔ اب باربرا ایک اور مرد سے ہنس ہنس کی باتیں کرنے لگی۔ شاید کوئی سودا طے پاگیا تھا۔ یہ سوچتے ہی مجھے ایسا محسوس ہوا گویا فورٹی سیکنڈ اسٹریٹ آنا فاناً تاریکی میں ڈوب گئی ہو۔ جیسے اس پر کسی نحوست نے سایہ ڈال دیا ہو۔ ہر طرف خاموشی کا راج ہوگیا ہو۔ لوگ کھڑے کھڑے پتھر کے ہوگئے ہوں۔ میرا دم گھٹنے لگا۔
میری بچی اب ماشاء اللہ جوان ہوگئی ہے۔ اسے دیکھ کر کبھی کبھار دل میں ہوک سی اٹھتی ہے۔ روتھ کو اسے دیکھنے کا کس قدر شوق تھا۔ روتھ کو بہار کے آنے کا بھی اتنا ہی انتظار تھا مگر وہ بے صبر نکلی۔ اس نے بے بی کا انتظار نہ کیا نہ بہار آنے کا۔ اور موسم بدلتے چلے گئے۔
——