عَنْ ابن عباس ان النبی ﷺ نھی ان یتنفس فی الاناء او ینفخ فیہ۔ (ترمذی)
ترجمہ:’’حضرت ابنِ عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے برتن میں سانس لینے یا اس میں پھونکنے سے منع فرمایا۔‘‘
تشریح: اس حدیث میں پینے کے برتن میں سانس لینے سے روکا گیا ہے۔ ایک ہی سانس میں غٹا غٹ پانی پینے سے جسم کو نقصان پہنچنے کا خطرہ رہتا ہے۔ اس لیے کئی سانسوں میں آرام سے پانی پینا چاہیے۔ برتن میں سانس لینے کی ممانعت اس لیے ہے تاکہ آدمی کے منہ سے خارج ہونے والے جراثیم پانی کے ذریعہ دوبارہ جسم میں داخل نہ ہوسکیں۔ برتن سے منہ ہٹا کر سانس لینا اور بنا پھونک مارے پینا حسنِ ادب ہے اور اس کے برخلاف سوئے ادب ہے۔ کھانے کی چیزوں میں پھونکنے کا معاملہ یہ ہے کہ چیز بہت گرم ہو تو آدمی پھونک مار کر اس کو ٹھنڈا کرتا ہے۔ پھونکنے سے اس لیے منع کیا گیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آدمی بہت گرم چیز کھاپی لے جو اس کی زبان، حلق اور معدے کو نقصان پہنچا دے۔
یہ صورتِ حال عام طور سے پینے کی چیزوں میں پیش آتی ہے۔ پانی، چائے، شربت یا نئی مشروبات اسی ضمن میں آتی ہیں۔ ان میں کچھ چیزیں بہت گرم ہوتی ہیں جن کو نارمل کرکے ہی پیا جاسکتا ہے۔ قابلِ استعمال بنانے کے لیے لوگ عموماً پھونکنے لگتے ہیں۔ اس کی صاف ممانعت ہے۔ جو مشروبات بہت ٹھنڈے ہوتے ہیں ان کو اسی حالت میں استعمال کرنا بھی صحت کے لیے مضر ہے۔ ایسی حالت میں ضروری ہے کہ آدمی تھوڑی دیر کے لیے توقف کرے اور پھر استعمال کرے۔
پانی پینے کی بہترین صورت یہ ہے کہ آدمی کم سے کم تین سانس میں پیے۔ یہ طریقہ پانی کی افادیت کے لیے بہت بہتر ہے۔ اس صورت میں آدمی پوری طرح سیراب ہوجاتا ہے۔ نیز اس کو خوش گواری کا احساس بھی ہوتا ہے۔ انسان کی غذا کا مقصد اس کی جسمانی نشوونما میں اضافہ ہے۔ غذا کا استعمال صحیح طریقے سے ہو تو اس کا کما حقہ فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ جس طرح اچھی غذا جسم کے لیے مفید ہوتی ہے اسی طرح اس کا صحیح طریقۂ استعمال بھی ہو تو زیادہ فائدہ پہنچتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں!