بچوں کی شرارت کو مثبت انداز سے دیکھئے!

صغیر احمد

ہادی کی شرارتوں سے اس کی ماں بڑی تنگ تھی۔ جب بھی ضبط کا بندھن ٹوٹ جاتا،تو وہ چار سالہ بیٹے کو خوب جھڑکیاں دیتی اور کبھی ایک دو ہاتھ بھی جڑ دیتی۔
ایک دن دادا جان ان کے گھر آئے ہوئے تھے کہ ہادی کی ماں نے اس کی پٹائی کرڈالی۔ دادا کے پوچھنے پر دوسروں نے بتایا کہ آج کل بیچارے ہادی کی شامت آئی رہتی ہے۔ انھوں نے پھر بہو کو سمجھایا کہ وہ بیٹے سے نرمی کا سلوک کرے کیونکہ زیادہ سختی عموماً بچوں کو بگاڑنے کا سبب بنتی ہے۔
کئی والدین کو یہ مسئلہ درپیش رہتا ہے کہ ان کا بچہ بڑا شرارتی ہے اور سنبھالا نہیں جاتا۔ اس ضمن میں درج ذیل مشورے انھیں بچے کی نفسیات سمجھنے میں مدد دے سکتے ہیں۔
آپ کا بچہ ذہین ہے
سب سے پہلے تو یہ بات ذہن نشین کرلیجیے کہ شریر بچے ہمیشہ ذہین ہوتے ہیں۔عموماً شریر بچوں کے والدین اس فکر میں مبتلا رہتے ہیںکہ ان کا بچہ ایسا کیوں ہے؟ وہ اپنے بچے کو نالائق، نکما اور نافرمان سمجھتے ہیں۔ لیکن اچھی طرح جان لیجیے کہ آپ کا بچہ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ ذہین ہونے کی وجہ سے شریر ہے۔یہ اس لیے کہ ان کا دماغ ہر وقت کسی نہ کسی سوچ میں مصروف رہتا ہے اور وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ متحرک دماغ ان کے جسم کو بھی متحرک رکھتا ہے، وہ طرح طرح کی شرارتیں کرکے سرگرم رہنے کے اپنے جذبے کو تسکین دیتے ہیں۔
درست سمت دکھائیے
شریر بچے کو درست راہ دکھانے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کی شرارتوں کو مفید مشغلوں میں تبدیل کردیا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے بچے کا رجحان معلوم کیجیے اور جانئے کہ اس کی دلچسپی کن چیزوں میں زیادہ ہے۔
مثلاً اگر آپ کا بچہ دیواروں پر لپ اسٹک سے لکھتا یا منہ پر مختلف رنگ لگا کر گھومتا ہے، تو بچے میں ایک ننھا سا مصور چھپا ہوا ہے۔ اسے رنگ اور ایسی کتابیں نیز ڈرائنگ کے کاغذ لاکر دیجیے جس میں وہ دلچسپی سے رنگ بھر سکے۔ اس کے بعد اسے مختلف طریقوں سے تصویریں بنانا اور ان میں رنگ بھرنا سکھائیے۔ وہ شرارتیں بھول کر اپنے من پسند مشغلے میں لگ جائے گا۔ اسی طرح اگر وہ جانوروں میں دلچسپی لیتا ہے، تو اسے وقتاً فوقتاً جانوروں کی کہانیاں سنائیے اور ایسی فلمیں دکھائیے جن میںجانوروں کے ساتھ جذبہ ہمدردی اجاگر کیا گیا ہو۔ اسے جانوروں کے کھلونے بھی لاکر دیجیے۔ یوں وہ تنگ کرنے کے بجائے گھر کے پالتو جانوروں کو دوستوں کی طرح عزیز رکھے گا۔
جھڑکیے مت
کئی والدین کی عادت ہوتی ہے کہ وہ بہت زیادہ سوالات کرنے والے بچوں کو جھاڑ پلادیتے ہیں۔ کبھی کبھی تو ہاتھ اٹھانے سے بھی نہیں چوکتے۔ یہ عمل ذہین بچوں کی ذہانت ختم کردینے کے مترادف ہے۔ بچوں کے سوالات غور سے سنیے اور ان کے جوابات دیجیے ورنہ ذہین بچے اپنے والدین سے مایوس ہوکر یا غصے میں نقصان دہ شرارتیں کرنے لگتے ہیں۔
بچوں کے سوالات غور سے سن کر یہ نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کیجیے کہ کیا ان سے بچے کے ذہنی جھکاؤ کا اندازہ ہوتا ہے۔ یقیناً چند دن میں آپ یہ معلوم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے کہ آپ کے بچے کا دل کس مشغلے میں لگتا ہے۔ مثلاً اگر وہ اندرونی کھیلوں سے متعلق زیادہ سوالات پوچھتا ہے، تو اس کا دھیان ایسے مشغلوں میں لگے گا جو کھیل جیسے ہوں مثلاً بلاکس سے گھر بنانا یا کیرم بورڈ وغیرہ کھیلنا۔ اگر وہ بیرونی کھیلوں میں دلچسپی لیتا ہے، تو اسے کرکٹ کا بلا اور ہاکی وغیرہ لاکر دیجیے لیکن پہلے اس کی ذہنی تربیت کرنا ضروری ہے، مثلاً اسے بتائیے کہ کھیل کا مطلب ہنگامہ یا بدتمیزی کرنا نہیں۔ جو والدین اپنے بچوں کو کھیل سے پہلے کھیلنے کے آداب سکھا دیں، ان کے بچے کھیل بخوبی کھیلتے ہیں اور شرارتیں بھی نہیں کرتے۔
اگر آپ کے بچے برقی (الیکٹرونک) اشیا کے بارے میں بار بار پوچھتے ہیں تو انہیں مشغلے کے طور پر برقی کھلونے وغیرہ لادیں۔ وہ اس میں محو ہوکر شرارتیں کرنا بھول جائیں گے۔
زبردستی نہ کیجیے
اکثر والدین سے ایک اور بڑی غلطی سرزد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کے ساتھ زبردستی کرتے ہیں کہ انہی کے من پسند کھیل کھیلیں اور ان ہی کے مطابق ہر کام کریں۔ یہ رویہ بچوں کو ضدی، ہٹ دھرم اور بدتمیز بنادیتا ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ وہ ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ بچوں کی گفتگو سنیں اور ان سے باتیں کرکے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ وہ کس وقت کیا چاہتا ہے۔
اگر والدین نے ہر وقت بچوں پر اپنی مرضی تھوپنا معمول بنالیا، تو آخر کار وہ باغی ہوجائیں گے۔ اس لیے ان کی پسند کے مطابق کھیل کا انتخاب کریں تاکہ وہ اپنے من پسند مشغلوں میں مصروف رہیں اور شرارتوں کی طرف دھیان نہ لگاسکیں۔
تعمیری مشاغل
جب یہ معلوم ہوجائے کہ آپ کا بچہ کس مشغلے میں دلچسپی لیتا ہے، اسے دیگر تعمیری مشغلوں کی طرف بھی متوجہ کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً اگر وہ چیزیں جمع کرنے میں خوشی محسوس کرتا ہے، تو اسے ٹکٹ اور سکّے جمع کرنے سکھائیے، ساتھ ہی ہر ملک کے ڈاک ٹکٹ اور سکوں کے بارے میں معلومات بھی بتائیے۔ اگر وہ کہانیاں سننے میں دلچسپی رکھتا ہے، تو اسے ایسی کہانیاں سنائیے جو اس میں انسانوں سے محبت کا جذبہ ابھاریں اور اچھی اچھی کتابیں لاکر دیجیے جن میں تہذیب یافتہ زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھایا گیا ہو۔
ہر وقت ٹی وی یا کمپیوٹر نہیں
آج کل یہ نیا رجحان پرورش پارہا ہے کہ شرارتوں سے باز رکھنے کے لیے بچوں کو ٹی وی یا کمپیوٹر کے سامنے بٹھا دیا جاتا ہے یا ہاتھ میں موبائل تھما دیا جاتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ہر وقت اسکرین کے سامنے بیٹھنے سے بچوں کے گردے، آنکھیں بلکہ مجموعی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ کمپیوٹر اچھی چیز ہے لیکن اسے بطور مشغلہ نہیں اپنانا چاہیے۔ ڈاکٹر کہتے ہیںکہ روزانہ ایک گھنٹے سے زیادہ اسکرین دیکھنا نقصان دہ ہے۔ اسی لیے ان کا رخ تعمیری سرگرمیوں کی طرف موڑئیے۔
تفریحی مشاغل
اگر آپ کا بچہ مستقل شرارتوں میں مصروف رہتا ہے اور باز آنے کو تیار نہیں، تو اسے انوکھے مشاغل کی طرف لگائیے مثلاً آبی اور ریتیلے کھیل وغیرہ۔
ریتیلے کھیلوں(Sand Games) میں بچوں کو مٹی یا ریت سے چھوٹی چھوٹی چیزیں سانچوں کے ذریعے بنانا سکھائی جاتی ہیں۔
آبی کھیلوں میں پانی سے بھری گیندوں، مچھلیوں وغیرہ سے تالاب یا بڑے ٹب میں کھیل کھیلے جاتے ہیں۔ نیز صابن کے پانی سے بلبلے بنانا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔
مزید برآں آپ بچوں کو کاغذ اور گتوں کے رنگ برنگے ٹکڑے کاٹ کر ان میں رنگ بھر کر دلچسپ اشیا بنانا بھی سکھا سکتے ہیں۔
تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ جو بچے کسی مشغلے میں دل نہیںلگاتے، وہ آبی اور ریتیلے کھیلوں اور مصوری وغیرہ میں بہت دلچسپی لیتے ہیں۔ یوں والدین کو ہمہ وقت کی شرارتوں سے نجات مل جاتی ہے۔
بچوں کو سراہیے
بچے اپنے والدین کی توجہ اور تعریف چاہتے ہیں۔ شاید آپ اسے معمولی بات سمجھتے ہوں حالانکہ بچوں کے لیے والدین کی تعریف کسی خزانے سے کم نہیں۔ آپ کو چاہیے کہ جب بھی بچہ کوئی قابلِ تعریف کام کرے مثلاً کاغذ سیدھا کاٹ لینا، تصویر میں رنگ بھرنا یا درست لفظ لکھنا وغیرہ تو اس کی خوب تعریف کیجیے۔ اس طرح وہ اپنے مشاغل پر زیادہ توجہ دے گا۔ اسے مشغلے میں مصروف رکھنے کے لیے بھرپور تعریف کیجیےاور رفتہ رفتہ یہ احساس دلائیے کہ وہ جو کچھ کررہا ہے، تعمیری اور قابلِ تعریف ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں