بڑی آپا

رابعہ ریاض غزنوی

سڑک کے کنارے لگے درختوں کے نیچے دنیا کے ہنگاموں سے دور، فضا میں گھورتی بڑی آپا بالکل خاموش بیٹھی تھیں، ہمیشہ کی طرح آج بھی محلہ کے شریر لڑکے انہیں ستانے میں لگے تھے کوئی پانی کے چھینٹے مار کر تو کوئی کنکر پھینک کر اور کوئی تو کیچڑ بھی اچھال دیتا۔ محلے بڑے بزرگ کے ڈانٹتے تو کچھ دیر کے لیے بھاگ جاتے۔ مگر تھوڑی دیر بعد پھر حاضر ہوجاتے، ہر عمر اور ہر طبقہ کے لیے وہ بڑی آپا تھیں۔

لوگ کہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ سے ایسی نہ تھیں۔ بلکہ ان کا اپنا گھر اور رشتہ دار سبھی تھے، مگر ایک دفعہ فساد کی آگ ایسی بھڑکی کہ بڑی آپا کاگھر تباہ اور ان کے سبھی اپنے ان سے جدا ہوگئے اور پھر اس دن سے آج تک کوئی ان کی زبان سے ایک لفظ نہ سن سکا۔ برسوں سے خاموش بڑی آپا سڑک پر جہاں بیٹھ جاتیں، گھنٹوں نہ اٹھتیں، میلے کپڑوں بکھرے بالوں والی بڑی آپا، جھلسانے والی دھوپ، موسلا دھار بارش اور خون جمادینے والی ہواؤں کی فکر سے دور تھیں۔کوئی رحم کھار کر بچا کھچا کھانا دیتا تو کبھی کھالیتیں، کبھی دن بھر پڑا رہتا۔جسے پرندے، آوارہ جانور کھا لیتے۔اور اگر کبھی سارا دن کچھ نہ ملتا تو کوڑے کرکٹ میں سے سڑی گلی چیزیں چن کر کھالیتیں۔انہیں عادتوں کی وجہ سے شریر بچے انہیں دیوانی بڑی آپا کہہ کر ستانے لگے۔

بارش سے بچنے کے لیے لوگ رین کوپہنے، چھاتا پکڑے ادھر ادھر آجارہے تھے۔ کچھ دیواروں سے ٹیک لگائے، سائبانوں میں کھڑے تھے۔ ان میں سے کسی کو کپڑے خراب ہونے کا ڈر تھا تو کوئی سواری کے انتظار میں کھڑا تھا۔ بڑی آپاان ساری فکروں سے آزاد قریبی فٹ پاتھ پر بیٹھی بدستور خلاء میں گھور رہی تھیں ، سر پر کھلا آسمان تھا۔ اور بے تحاشا پانی برساتے بادل، ایسے میں ایک نو دس سال کا بچہ کاندھے پر بستہ لگائے، ہاتھ میں ٹفن تھامے تیزی سے چلا جارہا تھا کہ اچانک ایک خونخوار کتا لڑکے پر چھپٹ پڑا۔ لڑکا خوف کے مارے چیخیں مارنے لگا، مگر پاس میں کھڑے لوگوں میں سے کوئی بھی اتنی ہمت نہ کرسکا کہ دوڑ کر اس معصوم کو وحشی کے پنجوں سے نکال لے۔ لڑکے کی کلائی خونحوار جانور کے حملے سے خون آلود ہوچکی تھی۔ اور پوری طرح جانور کے دانتوں کی گرفت میں تھی۔ اور معصوم مدد کے لیے چلا رہا تھا، پھر وہ منظر سامنے آیا، جسے دیکھ کر لوگ دنگ رہ گئے۔ ایک عورت ہاتھ میں موٹی لکڑی لیے کتے پر جھپٹ پڑی اور اس قدر زور سے مارنے لگی کہ کتا در کے مارے بھونکنے لگا۔ اسی وقت لڑکے کا ہاتھ خونخوار کے دانتوں کی قید سے آزاد ہوگیا۔ اور وہ معصوم بچہ دوڑ کر ایک کونے میں چھپ گیا۔ اس عورت پر اس قدر جنون سوار تھا کہ وہ کتے کو مارے جارہی تھی۔ مگر اگلے ہی لمحے کتے نے اپنے بچاؤ کے لیے پنجے مار مار کر نوکیلے ناخون سے عورت کا چہرہ اور بازو لہو لہان کردئیے۔ اس حملہ میں ڈنڈا اس کے ہاتھ سے گرگیا۔ اب وحشی کتا لنگڑاتا ہوا گلی میں چلا گیا۔ جب یقین ہوگیا کہ کتا جاچکا ہے، تو سارے لوگ اس عورت کے اطراف جمع ہوکر چہ می گوئیاں کرنے لگے۔ کچھ لوگ بچے کی مصومیت کا ذکر کررہے تھے تو کچھ کتے کی منحوسیت کا اور کچھ لوگ اس پاگل عورت کو بہادری کا سرٹی فیکٹ دے رہے تھے۔ ایک صاحب جو خاصے مضبوط جسم والے اور لباس سے تعلیم یافتہ محسوس ہورہے تھے، عالمانہ انداز میں فرمارہے تھے ’’دراصل پاگل آدمی کی طاقت عام آدمی سے کئی گنا زیادہ ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عام پاگل کو کئی کئی مضبوط آدمی بھی قابو میں کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ اور کتا ہی کیا پاگل سے بڑے بڑے جنگلی جانور گھبراتے اور بھاگتے ہیں۔

اور میں بیٹھی سوچ رہی ہوں کہ اس ’’دیوانی بڑی آپا‘‘ کو ان کے پاگل پن نے اس کام کے لیے آمادہ کیا جو بڑے بڑے تعلیم یافتہ اور صحت مند لوگ کرنے کی جرأ ت نہ کرسکے یا ان کے اندر سوتی محبت نے انہیں جھنجھوڑا جو اپنے سب کو گنوا کر بھی ان کے اندر چھپی بیٹھی ہے۔ میں اس سوال کا بھی جواب تلاش کرنے کی کوشش کررہی ہوں کہ وہاں پر موجود لوگ عقل والے اور انسان تھے یا بے حس اور بزدل لوگ۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146