گھر میں داخل ہوتے ہی ادیبہ نے کولر آن کیا۔ بیگ کو ایک طرف ڈالا اور فرج سے بوتل نکال کر ایک ساتھ تین گلاس پانی پی کر بیڈ پر نیم دراز ہوگئی۔ اف کتنی گرمی ہے اب تو میں پورے جون کہیں باہر نہیں نکلوں گی۔ کتنی تیز دھوپ ہے، بارش کا کہیں دور دور تک کوئی پتہ نہیں ہے۔ درد سے ادیبہ کا سر پھٹا جارہا تھا۔ اس کی آنکھوںمیں ہلکی سی نیند آئی ہی تھی کہ موبائل بجنے لگا۔ اُف اتنی دوپہر میں کس کا فون آگیا۔ اس نے بڑبڑاتے ہوئے موبائل اٹھایا۔ اور تھکی ہوئی آواز میں ’ہلو‘ کہا۔
’’کیا سورہی تھیں یا بیمار ہو، آواز کیسی مری ہوئی سی ہے۔ یا کسی سے لڑ کر بیٹھی ہو۔‘‘
ہائے زیبی تم کب آئیں دہلی، نہ کوئی خیر نہ خبر کیسی ہو۔‘‘ دوسری طرف سے اپنی سہیلی زیبی کی آواز سن کر اس کی ساری تکان دور ہوگئی تھی۔
’’اب آواز میں جان آئی، ورنہ تو بالکل مری ہوئی آواز لگ رہی تھی۔ میں تو ڈر ہی گئی تھی۔‘‘
’’ارے یہ تو تمہاری آواز کا کمال ہے۔‘‘
’’ادیبہ تم کل مجھ سے ملنے کے لیے آجاؤ، میں صرف تین دنوں کے لیے ہی آئی ہوں۔ اور یونیورسٹی سے سرٹیفکٹ بھی نکلوانا ہے۔‘‘
’’ہاں بولو، کہاں ملنا ہے۔‘‘ وہ زیبی کی آواز سن کر سب کچھ بھول چکی تھی۔
’’وہیں اپنی پرانی جگہ جہاں ہم لوگ ملا کرتے تھے۔‘‘
’’ٹھیک ہے، لیکن کتنے بجے تک آؤگی محترمہ!‘‘
’’۱۱؍بجے تک پہنچ جاؤں گی۔‘‘
’’ٹھیک ہے تم گیارہ بجے پہنچ جانا۔‘‘
اور اگلے دن ادیبہ ۱۱؍بجے سے پہلے ہی، اس بس اسٹاپ پر پہنچ گئی تھی، جہاں وہ اور زیبی کالج کے لیے بہت دیر تک بس کا انتظار کیا کرتی تھیں۔ ادیبہ چاروں طرف غور سے دیکھ رہی تھی کتنی تبدیلی آگئی ہے چندبرسوں میں، جب انھوںنے کالج میں داخلہ لیا تھا، اس وقت یہاں ایک دو دکانوں کے علاوہ کچھ نہیں تھا، دور دور تک چائے کی دکان بھی نہ تھی۔ بس اسٹینڈ کے دائیں طرف ایک گھنا درخت تھا اور جھاڑیاں ہی جھاڑیاں تھیں۔ کچھ دنوں کے بعد لیلا نے جھاڑیاں صاف کرکے ایک چائے کی دکان کھول لی تھی۔ کئی دن لگے تھے لیلا اور اس کے آدمی کو جھاڑیاں صاف کرنے میں۔ اں کی ایک چھوٹی سی بچی بھی تھی، جتنی دیر لیلا چائے بناتی اپنی بچی کو نیچے چادر بچھاکر لٹا دیتی۔ شام ہوتے ہی لیلا کا آدمی مزدوری کرکے آجاتا اور وہ تینوں سامنے والی جھگی میں چلے جاتے۔ ادیبہ اور زیبی اکثر اس کی دکان پر جاکر چائے پیا کرتیں۔ ایک دن ادیبہ نے لیلا سے کہا بھی: ’’ لیلا! تم لوگ کہیں اور جاکر دکان کیوں نہیں کھول لیتے۔ جہاں زیادہ لوگوں کا آنا جانا ہو۔ یہاں تمہیں کیا فائدہ۔‘‘
’’دیکھو بی بی جی! یہ ایک تو ہماری جھگی کے پاس ہے۔ دھیرے دھیرے دیکھنا سب آباد ہوجائے گا۔‘‘ لیلا نے پرامید لہجے میں کہا۔
اور وہی ہوا، ایک ہی سال کے اندر بس اسٹینڈ کے آس پاس کافی دکانیں کھل گئی تھیں۔ چہل پہل بھی خوب ہوگئی تھی۔ بسیں بھی بڑھ گئی تھیں اورپھر لیلا کی چائے بھی خوب بکنے لگی تھی۔ ادیبہ کی نظر لیلا پر پڑی، لیلا نیلے رنگ کی ساڑی پہنے ہوئے تھی اور اسی طرح سب کو چائے دے رہی تھی، اس کی ٹھیلی پر اسٹوو رکھا تھا، اس کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں تھیں جنھیں وہ ساڑی کے پلو سے صاف کررہی تھی۔ اس کی دکان گھنے پیڑ کے سائے میں تھی۔ اس کی لڑکی اب بڑی ہوگئی تھی، اور لیلا کو وہ کپ دھو دھو کر دے رہی تھی۔ ادیبہ یہ سب غور سے دیکھ رہی تھی، اس نے گھڑی پر نظر ڈالی گیارہ بج چکے تھے، لیکن زیبی ابھی تک نہیں آئی تھی۔ بھاگو بھاگو، جلدی بھاگو گاڑی آگئی۔ ایک آواز گونجی اور پٹری پر سے لوگ جلدی جلدی سامان سمیٹنے لگے۔ انکروچمنٹ والوں کی گاڑی پہنچ گئی تھی، دو پویس والے ہاتھ میں ڈنڈا لیے ہوئے ساتھ میں تھے۔ دو پولیس والوں کے پاس بندوق تھیں وہ ریہڑی والوں کو کھدیڑ رہے تھے۔ ایک پولیس والے نے پھلوں سے بھرا ہوا ٹھیلا الٹ دیا۔ ٹھیلے والا ہاتھ ملتا رہا اور پولیس والے گالیاں دیتے ہوئے پھلوں کو پیروں سے کچلتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ ایک ٹھیلی پر شیشے کنگھے بک رہے تھے ایک طرف کو ڈائریاں اور پین لگے تھے، ایک پولیس والا ڈنڈا لیے ہوئے اس ٹھیلے پر امرود کھاتا ہوا آیا، ٹھیلے والا ہاتھ جوڑنے لگا ساب جی! معاف کردو، اب کبھی نہیں آؤ ںگا ادھر۔ پولیس والے نے ہاتھ سے اسے اشارہ کیا۔اس نے ایک کاغذ کا نوٹ چپکے سے اس کے ہاتھ میں دیا اور تیزی سے پیچھے دیکھا اور بھاگ گیا۔ ایک پولیس والا لیلا کے ٹھیلے کے پاس آیا۔ لیلا کا اسٹوو اٹھا کر دور پھینکا۔ لیلا گڑگڑاتی رہی لیکن اس کی ایک نہیں سنی۔ پورا بازار چند منٹوں میں صاف ہوگیا تھا۔ سب پٹری والے چلے گئے تھے۔ اسٹینڈ پر بیٹھے ہوئے لوگ بس تماشائی بنے ہوئے تھے۔ ادیبہ نے تو یہ سب دیکھ کر بہت افسوس کیا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ کتنی محنت کرتے ہیں یہ بیچارے غریب لوگ۔ کیا ان کو اپنی زندگی گزارنے کا حق بھی نہیں ہے۔ کیا انہیں عزت سے روٹی کھانے کا حق بھی نہیں ہے۔ کیسی تھی یہ جگہ، کتنی محنت سے ان لوگوں نے یہاں کی صفائی کی ہے اور پھر لیلا نے تو کتنی محنت سے پیڑ کے آس پاس کی جھاڑیوں کوہٹایا تھا، کیسا سناٹا تھا یہاں پر۔ ’’او! ادیبہ کیا سوچ رہی ہو؟‘‘ زیبی نے اس کے کاندھے پر پیچھے سے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اور ادیبہ اس کو سارا واقعہ سنانے لگی۔ ’’خیر چھوڑو یہ باتیں، اتنی دیر تمھیں کہاں لگی، کتنی دیر لگادی تم نے؟‘‘
’’بس کوئی کام آگیا تھا۔‘‘
’’ارے میں تو سمجھ گئی تھی یہ تو تمہاری ہمیشہ کی عادت ہے۔ تم ذرا بھی نہیں بدلیں۔‘‘ تھوڑی ہی دیر میں ساری دکانیں دوبارہ لگ گئی تھیں۔ کہیں سے بھی نہیں لگ رہا تھا کہ کچھ دیر پہلے کچھ ہوا ہے۔ لیلا نے بھی اپنی چائے کی دکان پھر سے سجالی تھی۔
’’ارے ادیبہ لیلا کی دکان تو اب بھی وہیں ہے۔ ارے یہ تو بالکل نہیں بدلی۔‘‘ زیبی نے لیلا کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’چلو چائے پی کر آتے ہیں۔‘‘ ادیبہ نے اٹھتے ہوئے کہا۔
لیلا ادیبہ اور زیبی کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ اس نے کپڑے سے بینچ کو صاف کیا۔ ادیبہ اور زیبی بینچ پر بیٹھ گئیں۔
’’بڑے دنوں کے بعد آئیں بی بی جی، ادھر۔‘‘ لیلا کہہ رہی تھی۔
’’ہاں میں تو کئی سال کے بعد آئی ہوں۔ اچھا جلدی سے چائے پلادے۔‘‘
’’زیبی کتنی تیز دھوپ ہے۔‘‘
’’لیکن یہاں پر پیڑ کے نیچے کچھ سکون ہے۔‘‘
وہ دونوں باتیں کررہی تھیں کہ ادیبہ کی نظر ایک بھکارن پر پڑی، جس کی عمر مشکل سے چودہ پندرہ سال کی ہوگی۔ ایک میلا سا لہنگا اور کرتا پہنے تھی۔ اس کے ہاتھ میں ایک کٹورا تھا، دھوپ سے اس کا گورا رنگ سرخ ہورہا تھا۔ تیز دھوپ میں تپتی ہوئی سڑک پر وہ ننگے پیر تھی۔ لیکن وہ دھوپ کی پروا کیے بغیر سڑک پر چلنے والے لوگوں سے پیسہ مانگ رہی تھی۔ ’’بابو جی! ایک دو روپیہ دے دو اوپر والا تمہیں بہت دے گا۔‘‘ ایک آدمی کے آگے اس نے کٹورا کردیا۔ آدمی نے اس کے کٹورے میں ایک روپیہ ڈال دیا۔ ’’اوپر والا تمہارا بھلا کرے۔‘‘ کہہ کر وہ آگے چلی گئی، جہاں پر ایک لڑکا لڑکی رازو نیاز کی باتوں میں مشغول تھے۔ ’’بی بی جی کچھ دے دو اوپر والا تمہارا جوڑا سلامت رکھے۔‘‘ لڑکے نے اس کے چہرے پر معنیٰ خیز نظر ڈالی اور کھڑے ہوکر پینٹ میں سے ایک روپیہ نکال کر دیا۔ وہ لڑکی برابر میں کھڑی ایک ادھیڑ عمر کی عورت کے پاس چلی گئی۔ ’’اماں جی کچھ دے دو، تمہارے بال بچے جیتے رہیں۔ تمہاری لمبی عمر ہو۔‘‘
’’تجھ سے کام دھام نہیں کیا جاتا چل یہاں سے چلی جا۔‘‘اس عورت نے بری طرح جھڑک دیا۔
وہ لڑکی برا سا منہ بناکر چلی گئی اور سڑک پار کرتے ہوئے تیزی سے ادھر آگئی جدھر ادیبہ اور زیبی بیٹھی تھیں۔ ایک آدمی سگریٹ پی رہا تھا، اس کے آگے کٹورا بڑھایا، اس آدمی نے نہ دینے کا اشارہ کیا تو وہ لیلا کے پاس آگئی، لیلا نے آتے ہی اس کے کٹورے میں ایک روپے کا سکہ ڈال دیا۔ اب وہ زیبی اور ادیبہ کے سامنے کٹورا پھیلائے ہوئے تھی۔ زیبی نے پانچ کا سکہ پرس میں سے نکالا اور لڑکی کے کٹورے میں ڈال دیا۔
’’بی بی جی بھگوان تمہاری منو کامنا پوری کرے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ جلدی سے بس اسٹینڈ کے پاس پہنچ گئی۔ جتنی گاڑیاں رکتیں وہ اپنے انداز میں ان کے آگے کٹورا کردیتی۔ کچھ گاڑی والے شیشہ چڑھا لیتے اور کچھ شیشہ کھول کر اس کے کٹورے میں ایک دو روپیہ ڈال دیتے۔ ایک پھل کا ٹھیلا گزر رہا تھا۔ اس نے اپنا کٹورا اس کے آگے بڑھا دیا۔ اس نے ایک کیلا اس میں ڈال دیا۔ وہ لڑکی بس اسٹینڈ پر بیٹھ گئی۔ اور مزے سے کیلا چھیل کر کھانے لگی کہ ایک چمچماتی ہوئی سلور گرے کلر کی لمبی گاڑی بس اسٹینڈ کے سامنے رکی لڑکی اپنا کٹورا لے کر تیزی سے گاڑی کے پاس پہنچ گئی۔ گاڑی کا شیشہ کھلا لڑکی گڑگڑاکر مانگنے لگی، بابو جی تمہارا بھلا کرے اوپر والا، ایک دو روپیہ دے دو، تمہارے بچے کوٹھیوں میں آرام کریں۔ ‘‘گاڑی میں بیٹھے آدمی نے کالے رنگ کا لیدر پرس نکالا اور پچاس کا کھرا سا نوٹ نکالا اور آگے کا گیٹ کھول کر آگے بڑھایا۔ پچاس کا نوٹ دیکھ کر لڑکی کا چہرہ کھل اٹھا۔ ’’دیکھو زیبی انسانیت آج بھی زندہ ہے، ادیبہ زیبی سے کہہ رہی تھی۔‘‘ لیکن دوسرے ہی پل ایک زور دار طمانچہ کی آواز گونج گئی اور ساتھ ہی بھکارن کے کٹورے کے گرنے کی چھناکے دار آواز فضا میں گونج اٹھی۔ بھکارن کے ہاتھ سے کٹورا چھوٹ گیا تھا۔ سارے سکے سڑک پر دور دور بکھر گئے تھے۔ پچاس کا نوٹ دور ہوا میں اڑ رہا تھا۔ کھٹاک سے گاڑی کا گیٹ بند ہوا اور ’’زن‘‘ سے گاڑی تیز رفتار سے چلی گئی تھی۔