آج کل میں ایگری کلچر یونیورسٹی میں بحیثیت ایسوسی ایٹ پروفیسر اپنے فرائض انجام دے رہا ہوں ۔ جب میں لیکچرار تھا تو جولائی ۱۹۸۵ء میں مجھے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن میں تین ماہ کے ایک اقامتی کورس میں شرکت کے لئے نامزد کیاگیا۔ ہمیں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے اعلیٰ سہولتوں سے آراستہ ایک ہاسٹل میں رہائش فراہم کی گئی ۔ کورس کے شرکاء کی تعداد ۳۳ تھی۔ ان میں ملک کی مختلف یونیورسٹیوں کے لیکچرار شامل تھے۔ جلد ہی شرکاء آپس میں گھل مل گئے ۔
میرے کمرے کا ایک ساتھی رفیق، احمد خان ایک یونیورسٹی سے نامزدہوکر آیا تھا۔ وہ میرا گہرا دوست بن گیا ۔ باریش تھا، پٹھانوں کے روایتی لباس شلوار قمیص میں ملبوس رہتا۔ مذہبی انداز فکر کا انسان اور پانچ وقت کا نمازی تھا۔ ساتھ ساتھ نصابی اور غیر نصابی، ہر قسم کی سرگرمیوں میں پیش پیش رہتا، حتیٰ کہ شرارتیں کرنے میں بھی اس کاکوئی ثانی نہ تھا۔ کبھی کبھی ہم شام کو چہل قدمی کے لئے نکل جاتے تواس کی طبیعت لہرانے لگتی اور وہ کچھ گنگنانے لگتا۔ کبھی کبھی قمیص کے بٹن کھول کر ولن کے انداز میں بڑھک بھی ماردیتا۔ میں کھلکھلاکر ہنس پڑتااور کہتا’’احمد خان ! تمہارے اندر جو شخصیت چھپی ہوئی ہے وہ باہر کے مولوی سے بہت مختلف ہے‘‘۔ وہ یہ بات سن کر مسکرا دیتا اور کوئی جواب نہ دیتا۔
کورس ختم ہونے میں دوچار دن باقی تھے کہ ایک دن احمد خان نے مجھے چائے پر مدعو کیا۔ ہم کیفے کے ایک کونے میں بیٹھے چائے سے لطف اندوز ہورہے تھے کہ اچانک احمد خان نے کہا’’آئو میں تمہیں اپنے اندر موجود شخصیت سے متعارف کروائوں ۔ میری گزشتہ زندگی کا ایک طویل دور ایسے انداز میں بسر ہواہے جو میری موجودہ مولویت کے بالکل متضاد ہے۔ حالانکہ میں اپنی پرانی شخصیت کو ہمیشہ کے لئے خیرباد کہہ چکا ہوں ، لیکن پھر بھی غیر ارادی طور پرمجھ سے ایسی حرکت ضرور سرزد ہوجاتی ہے جو میری گزشتہ زندگی کی چغلی کھاتی اور عادات کو ظاہر کرتی ہے۔ آج میں تمہیں اپنی گزشتہ زندگی کی روداد سناتا ہوں۔
میں ایک چھوٹے سے گائوں کا رہنے والا ہوں۔ میرے والد ایک زمین دار کے یہاں ملازم تھے۔ ان کی تنخواہ قلیل تھی اسی لئے گھر میں بے پناہ غربت تھی۔ دال روٹی بمشکل چلتی۔ ادھر والد صاحب کا رویہ تمام گھر والوں کے ساتھ بہت سخت تھا۔ میں اپنے دوسرے بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر بکریاں چراتااور گھریلو استعمال کے لئے کھیتوں میں جاکر لکڑیاں اکٹھی کرتا۔ اسکول جانے کاکوئی تصور نہیں تھا۔
’’میرے ایک چاچا جو ایک مل میں مزدور تھے اور ووہیں کالونی میں رہتے، ایک دن ہم سے ملنے آئے۔ وہ بے اولاد تھے۔ انھوںنے مجھے میرے والدین سے مانگ لیا اور اپنے ساتھ لے گئے۔ یوں میرے حالات میں کچھ تبدیلی آئی۔ چچا نے مجھے اسکول میں داخل کرادیا۔ اس طرح مجھے گھر سے دور ایک مختلف ماحول میں زندگی گزارنے کا موقع ملا‘‘۔
’’میں نے میٹرک آرٹس کاامتحان سیکنڈڈویژن میں پاس کرلیا۔ اب چچانے مزید پڑھانے سے معذوری ظاہر کردی لہٰذا میں بالکل فارغ پھرنے لگا۔ سارا دن گلی کوچوں میں آوارہ پھرتا۔ اس دوران چند برے دوستوں کی صحبت کے باعث سگریٹ نوشی کی عادت پڑگئی۔میں نے پھر دوستوں کا ایک جتھا بنالیا اور چھوٹی چھوٹی وارداتیں کرنے لگا۔ بات بے بات لوگوںسے الجھنا اور مار پیٹ کرناایک معمول بن گیا۔ انہی حرکتوں کی وجہ سے ایک دو دفعہ جیل بھی گیا‘‘۔
اس اثناء میں میرے چچا نے کہہ سن کر مجھے کارخانے میں ملازمت دلادی۔ وہاں مجھ پر یونین والوں کی نظرِ کرم پڑی۔ انھوں نے مجھے ایک کارآمد مہرہ سمجھ کر اپنے حلقے میں شامل کرلیا اور میرے وارے نیارے ہوگئے۔ پیسے کی فراوانی تھی لہٰذا شراب نوشی اور جوئے کی لت بھی لگ گئی۔ رفتہ رفتہ میں یونین کا صدر بن گیا۔ چچا نے میری حرکتیں دیکھیں تو گھر والوں سے میری شکایت کردی لیکن اب میں گھروالوں کے خوف سے آزاد تھا۔ مجھ پر کسی کی نصیحت کاکوئی اثر نہ ہوا اور میں نے اپنے روزمرہ کے معمولات جاری رکھے۔ میرے گھر والوں نے میری ہٹ دھرمی دیکھی تو مجھے شادی کے بندھن میں باندھنے کا ارادہ کرلیا اور پھوپھی زاد بہن سے میری شادی کردی۔ اس کے بدلے میری بہن کو پھوپھی کے بیٹے سے بیاہ دیاگیا۔ میری بیوی اَن پڑھ تھی لیکن قرآن پاک ناظرہ پڑھی ہوئی اور سلائی کڑھائی جانتی تھی۔ ‘‘
’’میری بیوی نے جلد ہی اپنے آپ کو نئے ماحول میں ڈھال لیا۔ وہ پانچ وقت کی نمازی تھی۔ قرآن کی تلاوت باقاعدگی سے کرتی۔ اس نے ہمسایوں کے بچوں کو بھی قرآن پڑھانا شروع کردیا۔ اسے میرا طرز زندگی پسند نہ آیا۔ وہ مجھے رزق حلال کمانے کی ترغیب اور بری عادات چھوڑنے پر زور دیتی۔ اس پر میں اپنی بیوی کو بات بے باپ جھڑکتا پھر اس کو مارتا پیٹنا شروع کردیا۔ لیکن اس نے اپنا طرز عمل نہیں بدلا اور مجھے استقامت کے ساتھ رزق حلال کمانے پر زور دیتی رہی‘‘۔
’’مزید برآں اس نے ایک نئی رٹ شروع کردی، کہنے لگی کہ تم پڑھائی دوبارہ شروع کرو، برے دوستوں کی صحبت چھوڑ دو اور کہیں اور رہائش اختیارکرلولیکن میں نے اس کی کوئی بات نہیں مانی اور اپے مشاغل برابر جاری رکھے ۔ اسی اثناء میں ہمارے ہاں یکے بعد دیگرے ایک بیٹے اور ایک بیٹی کی ولادت ہوئی۔ ان کی پیدائش کے بعد میرے اندر تبدیلی آگئی اور میں گھر کی طرف راغب ہونے لگا۔ بیوی کے مسلسل اصرار پر نماز بھی شروع کردی اور قرآن کریم بھی پڑھنے لگا۔ جب پہلی دفعہ میں نے قرآن پاک ختم کیاتو مجھے بڑی روحانی مسرت ہوئی۔ روزمرہ کے پاک اور نیک معمول کے باعث میرے رویئے میں بھی تبدیلی آنے لگی‘‘۔
’’بیوی کے اصرار پر انٹرکی تیاری کی اور پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے امتحان دیا ۔ نتیجہ آیا تو بہت خوشی ہوئی کیونکہ میں سیکنڈ ڈویژن میں پاس ہوگیا تھا۔ میری بیوی کی بھی خوشی کی حد نہیں رہی۔ اس نے شکرانے کے نفل پڑھے اور محلے میں مٹھائی تقسیم کی۔ انٹر پاس کرنے سے میری بھی بہت حوصلہ افزآئی ہوئی۔ میں نے اپنی مکروہ حرکات سے توبہ کی اور برے دوستوں کو چھوڑ دیا۔ یونین کی ذمہ داریوں سے بھی استعفیٰ دیا اور مکمل طور پر اپنا دھیان اپنے خاندان کی طرف لگایا۔ کچھ عرصے بعد کارخانے کی ملازمت چھوڑ دی اور رہائش بھی بدل لی تاکہ اپنے ماضی سے پیچھا چھڑا سکوں۔ تاہم ملازمت ہی آمدنی کا واحد ذریعہ تھی۔ اس عالم میں بیوی نے حوصلہ دیا۔ اس کا تھوڑا سا زیور تھا، وہ اس نے میرے حوالے کیا اور کہا، جائو اسے بیچ آئو اور دوبارہ پڑھائی شروع کرو‘‘۔
’’میں نے بی اے کی تیاری شروع کردی۔ اسی دوران اللہ نے ایک اور بیٹی دی۔ رفتہ رفتہ زیور کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم ختم ہوگئی۔ تب بیگم نے سلائی کڑھائی کے اپنے کام کو وسعت دی اور لوگو ںکے کپڑے سینے لگی ۔ اس وسیلے سے اسے جو مزدوری ملتی ، وہ گھر کے اخراجات اور کھانے پینے میں صرف ہوتی۔ ہمارا گھر بغیر چار دیواری کے صرف ایک کمرے پر مشتمل تھا۔ اس میں بجلی تھی نہ پانی کا کوئی انتظام۔ بیگم کافی فاصلہ طے کرکے جاتی اور پانی بھر کر لاتی۔ میں اس کا ہاتھ بٹانے کی کوشش کرتا تو وہ مجھے روک دیتی اور کہتی کہ تم صرف اپنی پڑھائی پر توجہ دو۔ ان مشکل حالات میں ، میں نے بی اے بھی کرلیا اور اپنے بورڈ میں اول آیا۔ اس کامیابی سے ہمارے حوصلے اور ولولے اور زیادہ بلند ہوگئے۔ میں نے یونیورسٹی میں ایم اے میںداخلہ لے لیا اور گھر سے دور ہاسٹل میں رہنے لگا۔
یونیورسٹی کے تمام اخراجات میری بیوی ہی پورے کرتی۔ اس نے قدم قدم پر نہ صرف میری ہمت بندھائی بلکہ مجھ پر کبھی مالی بوجھ بھی نہ ڈالا۔ بچوں کی پرورش ان کی دیکھ بھال اور گھر کے تمام اخراجات اسی کی محنت کی بدولت پورے ہوتے رہے ۔ اس نے راتو ں کو جاگ جاگ کر لوگوں کے کپڑے تیار کئے ، کڑھائی کی، ساتھ ساتھ ہمسایوں کی بچیوں کو سینا پرونا سکھایا پھر انھیں معاوضہ دے کر سلائی کا کام کرایا۔ بچے بچیوں کو قرآن بھی پڑھایا۔ میری محنت اور بیوی کا جذبۂ صادق رنگ لایا اور میں ایم اے کے امتحان میں بھی کامیاب ہوا۔ پھر میں نے چنددوستوں کے مشورے سے بی ایڈ کیا اور پھر ایم ایڈ میں داخلہ لے لیا اور ایم ایڈ کے امتحان میں اول آیا‘‘۔
’’وہ میری زندگی کااہم ترین دن تھا جس دن مجھے یونیورسٹی لیکچرار کی حیثیت سے کام کرنے کی پیشکش ہوئی۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا، گھر آیا اور بیوی کو یہ خبر سنائی ۔ خوشی سے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس نے شکرانے کے نفل ادا کئے۔ یونیورسٹی میں پڑھاتے ہوئے میرے حالات بدلنے لگے۔ میں نے اچھے علاقے میں گھر لیا۔ بچوں کو معیاری اسکول میں داخل کرایا اور یوں برائیوں کی غلاظت میں لتھڑی ہوئی میری زندگی ایک صاف ستھری ڈگر پر آگئی۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم اور میری بیوی کی محنت شاقہ کا نتیجہ ہے‘‘۔
میں احمد خان کی داستان سن کر بہت متاثر ہوا ۔ میں نے اس کی بیوی کو خراج تحسین پیش کیا، جو خود اَن پڑھ تھی لیکن علم کی اہمیت اور فضیلت کا پورا احساس و ادراک رکھتی تھی۔ اس عظیم خاتون نے راہ سے بھٹکے ہوئے اپنے خاوند کو پڑھایا لکھایا اور اسے معاشرے کا معزز اور کارآمد فرد بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ کورس کے اختتام پر میں واپس آگیا اور پھر احمدخان سے رابطہ نہ ہوسکا۔
۱۹۹۰ء کے آخر میں جب مجھے ایک پروگرام کے تحت برٹش کونسل کے زیر اہتمام پی ایچ ڈی کاوظیفہ ملا تو میں یونیورسٹی آف ویلز پہنچ گیا۔ چند دن اپنے دوستوں،ڈاکٹرخالد اور ڈاکٹر ایوب کا مہمان رہا۔ وہ مجھ سے پہلے ہی سے وہاں پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔ میں برطانوی ماحول سے واقف ہوا تو اپنا کھاناخود پکانے لگا۔اوورسیز ہاسٹلوں میں تمام طالبانِ علم اپنا کھانا خود پکاتے تھے جس کے لئے مطلوبہ باورچی خانے اور جملہ سہولتیں موجود تھیں۔ حلال گوشت مسالحہ جات اور دیگر اشیاء خریدنے کے لئے قریبی شہر مانچسٹر یا لیور پول جانا پڑتا تھا۔
یہ ۱۹۹۴ء کے آغاز کی بات ہے، میں لیور پول ایسٹرن فوڈ اسٹور پر خریداری کے لئے کھڑا تھاکہ دکان میں احمد خان داخل ہوا۔ وہ مجھے دیکھ کر حیرت زدہ ہوگیا اور پھر بڑی گرم جوشی سے گلے ملا۔ پھر مجھے قریب ہی ایک ریستوران میں لے گیا اور میری خوب خاطر تواضع کی۔ اس نے بتایا کہ وہ حال ہی میں ایک سوئس این جی او سے ملنے والے وظیفے پر لیورپول یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کرنے آیا ہے۔ سوئس اسپانسر اس کی ٹیوشن فیس دے رہے ہیں۔ لیکن کھانے پینے اور دیگر اخراجات پورے کرنے کے لئے وہ ہفتے میں تین دن تک ایک ریستوران میں کام کرتا ہے۔
میں نے پوچھا ’’تمہاری رہائش کہاں ہے؟‘‘
وہ بولا ’’میں ایک مکان میں چند دوسرے طلبہ کے ساتھ کرائے پر رہتا ہوں‘‘۔ پھر وہ مجھے اپنے گھر لے گیا۔ وہاں مجھے ایک اور خوشگوار حیرت سے دوچار ہوناپڑا کیونکہ اس گھر میں میرا ایک دوست ڈاکٹر آصف علی بھی رہائش پذیر تھا۔ وہ پی ایچ ڈی کے لئے حکومت کے وظیفہ پر اسی سال یہاں آیا تھا۔ دونوں نے رات مجھے اپنے یہاں رکھا اور اگلے دن لیور پول شہر کی سیر کرائی۔ پھر میں اشیائے ضرورت کی خریداری کے بعد واپس آگیا۔ ہفتہ میں ایک بار دونوں سے ٹیلیفون پر بات ہوجاتی۔
ایک دن آصف نے اطلاع دی کہ احمد خان کو گھر سے خط آیا تھا اور وہ نہایت پریشانی کے عالم میں گھر چلا گیا ہے۔ میں نے کہا ’’اللہ خیر فرمائے۔ وہ جب بھی واپس آئے مجھے ضرور اطلاع کرنا‘۔ ایک ماہ کے بعد آصف نے فون پر احمد خان کی واپسی کی اطلاع دی۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ وہ سخت پریشان ہے۔ کچھ کھاپی بھی نہیں رہا۔
میں اسی دن لیور پول شہر پہنچا۔ احمد خان کمرے میں بے سدھ پڑا تھا۔ راکھ ددان سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھرا ہوا تھا۔ جبکہ سگریٹ چھوڑے اسے مدت ہوگئی تھی۔ اسے اس حالت زار میں دیکھ کر مجھے سخت افسوس ہوا ۔ میں نے اسے زبردستی کھانا کھلایا اور اچانک وطن روانگی کا سبب پوچھا۔
شروع میںتو وہ ہچکچاتا رہا مگرمیرے اصرار پر اس نے اپنی داستان سنائی’’والد صاحب کا خط ملاتھا۔ انھوں نے مجھے فوری طور پر طلب کیا تھا۔ میں پہنچا تو پتہ چا کہ میرے بہنوئی نے میری بہن کو مار پیٹ کر گھر سے نکال دیا ہے اور بعد میں طلاق بھیج دی ہے۔ گھر والوں نے مجھے حکم دیا کہ انتقام کے طور پر تم بھی اپنی بیوی کوطلاق دو۔
’’میں نے اپنے والدین کو سمجھانے کی کوشش کی اور کہا کہ میں اپنی بہن اوراس کے بچوں کو اپنے گھر لے جاتاہوں ۔ میں ان کی کفالت کروں گا لیکن اپنی بیوی کو طلاق نہیں دو ںگا کیونکہ وہ اس معاملے میں بے قصور ہے۔ بدقسمتی سے میں اپنے والدین کو قائل نہ کرسکا۔بہرحال ان سے کچھ دیر کی مہلت لے کر شہر واپس آیا۔ میری بیوی بہت خوفزدہ تھی اور تھر تھر کانپ رہی تھی۔ میں نے اسے تسلی دی کہ تم فکر مت کرو، تم میری محسن ہو۔ میں مرنا قبول کرلوں گا لیکن تمہیں طلاق نہیں دوں گا۔
انہی جھگڑوں میں ایک مہینہ گزر گیا۔ میری پڑھائی کا حرج ہورہا تھا، اس لئے چچا کو درمیان میں ڈالا، والدین سے مزیدمہلت لی۔ اب اسی پریشانی کے عالم میں واپس لیور پول آگیا ہوں۔ اب میں ایک عجیب دوراہے پر کھڑا ہوں۔ ایک طرف والدین ہیں جو میری کوئی گزارش ماننے کو تیار نہیں۔ دوسری طرف بے گناہ بیوی بچے ہیں۔ میرے خدا میں کیا کروں‘‘۔ یہ کہہ کر احمد خان پھوٹ پھوٹکر رونے لگا۔
میں نے احمدخان کو تسلی دی اور کہا ’’تم اس قدر کیوں گھبرا گئے ہو؟ تم برسرِ روزگار اور خود مختار ہو۔ اپنے والدین کا فیصلہ نہ مانو‘‘۔
احمد خان بولا ’’پرویز بھائی! سماج میں رہتے ہوئے قدیم رسم ورواج اور روایات سے بغاوت ممکن نہیں۔ یہ اب صرف میرا یا میرے گھر کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پورے خاندان کی ناک کا مسئلہ بن گیا ہے۔ وہ بدلہ لئے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ اگر میں نے طلاق نہ دی تو وہ جاہل روایت پرست لوگ میرے بیوی بچوں کو جان سے مار ڈالیں گے…‘‘۔
یہ سن کر مجھے سخت تشویش لاحق ہوگئی۔ میں کچھ دیر بیٹھا سوچتا رہا پھر میں نے احمدخان کو ایک نئی راہ دکھلائی اور کہا ’’ اپنے بیوی بچوں کو فوراً برطانیہ بلوا لو ۔ ابھی تمہاری پی ایچ ڈی مکمل ہونے میں کم سے کم تین سال باقی ہیں لہٰذا یہ عرصہ تو یہاں سکون سے گزارو۔ آئندہ حالات کیا ہوں گے؟ یہ بعد میں دیکھا جائے گا۔ ‘‘
احمد خان کہنے لگا ’’مگرمیں اپنے بیوی بچوں کو کس بل بوتے پر برطانیہ بلوائوں جبکہ میرے پاس کوئی باقاعدہ اسکالر شپ بھی نہیں؟ میں ان حالات میں بال بچوں کا بوجھ کس طرح اٹھائوں گا؟‘‘۔
میں نے اسے تسلی دی اور کہا ’’گھبرانے یا ہمت ہارنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ دلیری سے حالات کا مقابلہ کرو ۔ جس اللہ رب العزت نے پہلے نامساعد حالات میں تمہاری مدد کی ہے وہ ا ب بھی تمہاری مدد فرمائے گا۔ لہٰذا اسی پر بھروسہ رکھو اور بال بچوں کو بلا لو‘‘۔
میری بات سے اسے حوصلہ ملا ۔اس نے فوری طور پر بیوی بچوں کو بلوانے کے لئے ضروری کاغذات تیار کرائے اس کے برطانوی پروفیسر کو بھی جب اس کے تشویشناک حالات کا پتہ چلا تو اس نے بھی اپنے شاگرد کی بھرپور مدد کی اوراحمد خان کے بیوی بچے خاموشی سے برطانیہ آگئے۔ آصف اور دوسرے دوستوں نے اپنا گھر احمد خان کے حوالے کیا اور خود دوسری جگہ منتقل ہوگئے۔ احمدخان اپنے پروفیسر کی مدد سے یونیورسٹی سے نامساعد حالات کے مقابلے کی خصوصی گرانٹ لینے میں کامیاب ہوگیا۔ ادھر بھابھی بھی کپڑے سینے لگیں ۔ یوں ان کا بحران خاصی حد تک ٹل گیا۔
۱۹۹۸ء میں معلوم ہوا کہ احمد خان نے پی ایچ ڈی مکمل کرلی تھی اور اب کنیڈا منتقل ہوگیا ہے۔احمد خان ایک روشن ستارہ ہے جو میری یادوں میں اکثر چمک اٹھتاہے … لیکن اس سے کہیں زیادہ روشن اور خیر کا منبع اس کی بیوی ہے جس نے ان پڑھ ہونے کے باوجود علم کی اہمیت کو جانا اور ایک گمراہ شوہر کوکامیابی کا راستہ دکھایا۔ کامیابی یہاں بھی اور وہاں بھی۔