وہ تین دن سے وہاں پڑا ہوا۔۔۔ نہیں نہیں۔ بیٹھا ہوا تھا۔ چاروں ہاتھ پائوں کے بل۔ اس طرح کہ نہ اسے بیٹھا ہوا کہا جاسکتا ہے نہ لیٹا ہوا۔ دن اب چڑھ چکا تھا۔ جنوری کے سورج کی نرم و گرم کرنیں اس کے تقریباً برہنہ جسم پر پڑرہی تھیں۔ اس کی عمر… مگر اس کی عمر بتانا ممکن کہاں تھا؟ ۔۔۔۔چہرے پر صدیوں کا کرب! آنکھوں میں زخمی ڈرے ہوئے جانور کا سا خون اور ہر جھرّی میں مصائب کی لامتناہی داستان۔۔۔ جانے اس جسم پر سے زمانے کے سرد و گرم کے کتنے روز و شب گزر چکے تھے۔
مگر وہ ہنس کیوں رہا تھا؟ کس پر ہنس رہا تھا۔ خود اپنی حالت پر؟ اس دنیا پر؟ یا پاس سے گزرنے والوں پر جن میں سے بیشتر اس پر ہنتے ہوئے چلے جاتے تھے۔
من آنم کہ از سنگ آئینہ سا زم
من آنم کہ از زہر نوشینہ سا زم
واقعی کیا منظر تھا یہ۔۔۔ جسے فرشتوں کے مسجود دیکھتے رہے اور گزرتے رہے اور وہ وہاں پڑا ہوا۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ بیٹھا ہوا۔۔۔۔ جانے کیا کہا جائے۔ تو وہ ہنستا رہا۔۔۔
گہرے سبز رنگ کی ایکلمبی سی کار اس کے برابر سے نرم روی سے گزر گئی۔ پچھلی سیٹ پر بیٹھے، گرم سوٹ میں ملبوس حضرت کو عدالت میں پہنچ کر انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر بڑے اہم فیصلے کرنے تھے۔۔۔۔ وہ سر جھکائے اپنی فائل میں گم رہے۔۔۔۔ وردی پوش ڈرائیور نے اسے دیکھا اور شاید عادتاً۔۔۔۔ کھڑکی میں سے پان کی پیک زور سے تھوکی۔ اس سرخ پچکاری کے چھینٹے اس کے مفلوج پیروں کو لالہ فام بنا گئے۔
کئی سائیکل سوار دفتر جاتے ہوئے پاس سے گزر گئے۔ دیر ہوئی تو ان کی نوکری خطرے میں پڑسکتی ہے۔ انہیں اِدھر اُدھر دیکھنے کی فرصت کہاں تھی! اور تھی کون سی دیکھنے کے قابل شے!!
آگے پیچھے دو موٹر سائیکلیں تیزی سے آتی نظر آئیں۔ اگلی موٹر سائیکل پر ایک بال بچوں والا مع بیوی اور بچوں کے سوار تھا۔۔۔ اور پچھلی پر ایک چھیل چھبیلا نوجوان بیٹھا تھا جس کی گردن میں پیچھے بیٹھی شوخ اور ناکافی کپڑوں میں ملبوس ایک چھمک چھلّو لڑکی کا ایک بازو حمائل تھا اور دوسرا نوجوان کی کمر کے۔۔۔۔ دونوں کے بال ہوا میں اڑ رہے تھے اور چہرے سرخ تھے۔۔۔۔ سڑک کے کنارے پڑی اس چیز کو دیکھنے کا دماغ کسے تھا۔۔۔۔۔
ایک سرخ رنگ کی کار دھول اڑاتی اس انداز سے گزری کہ اگر ایک لڑکے نے اسے گھسیٹ نہ لیا ہوتا تو۔۔۔۔ تو۔۔۔ یہ کہانی یہیں ختم ہوجاتی! کار میں بیٹھے علم معاشیات کے ماہر کو اس طرف دیکھنے کا خیال ہی نہیں آیا۔ وہ اپنی ذات میں گم تھے۔ آج انہیں ایک بڑی ہستی کے ہاتھوں ایوارڈ ملنا تھا۔۔۔ کہ انہوں نے ملک کی معاشی حالت سدھارنے کے لئے بہت کام کیا تھا۔ دوسرے ممالک کے دورے کئے تھے۔ مضامین لکھے تھے، کتاب تصنیف کی تھی۔ منصوبے بنائے تھے۔
کئی نوجوان لڑکے لڑکیاں کالج جاتے ہوئے، کئی ادھیڑ عمر کے مرد دفتر یا بازار یا دکان جاتے ہوئے، آپس میں زور شور سے بات چیت کرتے چلے آرہے تھے۔ ملک کا ماضی-حال-اور مستقبل زیر بحث تھا۔ معاشی حالت، سیاسی حالت، انٹرنیشنل مسائل اور کیا اور کیا۔۔۔۔۔ کوئی جوش میں چلا رہا تھا، کوئی دھیمی آواز میں سمجھا رہا تھا، کسی کی مٹھیاں بھنچی ہوئی تھیں، کسی کے منہ سے کف اڑ رہا تھا۔۔۔ سڑک کے کنارے اس زندہ مسئلے۔۔۔ اور اس کے پیچھے چھپے ہزاروں ’’زندہ مسئلوں‘‘ کی طرف دھیان دینا ان کا کام نہ تھا۔ آپ ہی سوچئے بھلا ان بڑے بڑے معاملوں، بڑی بڑی باتوں کے سامنے ذرا ذرا سی حقیر چیزوں کی اہمیت ہی کیا ہے بھلا؟
ایک چھوٹی سی بد رنگ کار جس کا انجن زور شور سے اپنی پنشن کا مطالبہ کررہا تھا، کھڑر کھڑر کرتی چلی آرہی تھی۔ زندہ و پائندہ زبان کا ایک فن کار (جس کا حق کتنا ہی بلند ہو، وہ خود پستی کی حالت میں تھا) اس میں بیٹھا اپنی کتاب کو دیکھ رہا تھا اور کڑھ رہا تھا۔۔۔ کہ کڑھنا اس کا مقدر بن چکا تھا۔۔۔۔ آج تک کسی نے اسے پہچانا نہیں تھا۔ اسے مانا نہیں تھا۔ کم سے کم میں نے نہیں مانا تھا۔ ایوارڈ اداروں کو ملتے، انعام اور خطاب دوسروں کے حصّے میں آتے، کتابوں کا اجرا دھوم دھام سے ان فن کاروں کا ہوتا جو اس فن سے بھی واقف ہوں کہ کس طرح اپنے کو اچھالا جاتا ہے۔ جشن دوسروں کے منائے جاتے، تھیلیاں غیر مستحقوں کو پیش کی جاتیں۔ اور اس کے حصے میں۔۔۔ ہاں اس کے حصّے میں بہت سے انوی ٹیشن کارڈ آتے تھے۔ اس کا دل روز ٹوٹتا اور پھر جڑ جاتا۔ یہ بے حِس قوم، یہ بے درد ناقدر شناس نقاد، یہ خود پرست دوست کبھی اس کے بارے میں نہ سوچتے۔۔۔۔ اس کی بیوی بچوں کے بارے میں نہ سوچتے۔۔۔ آج بھی اس کے جس ’’رقیب‘‘ کو انعام اور خطاب مل رہا تھا۔ جس میں شرکت کے لئے وہ پڑوسی کی کار مانگ کر لایا تھا۔۔۔ جو اسے اپنے سے بہت کم درجے کا سمجھتا تھا، مگر اس کے سمجھنے سے کیا ہوتا ہے۔ خیر وہاں بہت سے بڑے لوگ ہوں گے، ملاقات ہوجائے گی۔ کون جانے۔ کب۔۔۔۔
اس کی نظر باہر سڑک پر پڑے اس کرب ناک افسانے پر پڑی، پل کے پل رکی۔ تہ تہ۔۔۔ یہ بچارا اپاہج غریب آدمی یہاں پڑا ہے۔ شاید اس کا اپنا کوئی نہیں۔۔۔ آہ۔۔۔۔ یہ دنیا۔۔۔ یہ دنیا غریبوں کے لئے جہنم ہے۔۔۔ کون ان کا درد سمجھے۔ یہ تو اس کا، فن کار کا دل ہے جو تڑپ جاتا ہے۔ مصیبت زدوں کو دیکھ کر۔۔۔ وہ ضرور اس پر ایک کہانی لکھے گا۔۔۔ اور اس کا انٹولکچل ذہن غریب آدمی کے مسئلوں کو سوچنے میں کھو گیا۔ پھٹ پھٹیا بہت آگے نکل چکی تھی۔
ایک کالی چمکتی کار بار بار ہارن بجاکر اپاہج کے گرد جمع ہوجانے والے بچوں اور بے فکروں کو راستہ چھوڑنے کے لئے کہہ رہی تھی۔ پارلیمنٹ کے ان ممبر کو آج غریب بے سہارا لوگوں کے مسئلے پر دھواں دھار تقریر کرنی تھی۔ ایسی تقریر جس کو سن کر بس دنگ رہ جائیں اور صاحبانِ اقتدار دم نہ مار سکیں۔ شہر میں اب تک یہ مسئلہ کیوں حل نہیں ہوا۔۔۔ جب تک حکومت خصوصی توجہ نہ دے۔۔۔ آخر ملک سے مصیبت، بے روزگاری اور غریبی کیسے دور ہوسکتی ہے؟ اس کا ترقی پسند ذہن صاحبان اقتدار کی خامیاں سوچ رہا تھا اور تقریر کے لئے مسالہ فراہم ہورہا تھا۔۔۔ مگر سڑک پر پڑے اس جیتے جاگتے ثبوت کی طرف ان کی نظرہی نہیں اٹھی۔
صبح سے دوپہر ہوچکی تھی!
وائس چانسلر صاحب کو آج دیر ہوگئی تھی۔ یونیورسٹی کئی میل کے فاصلے پر تھی مگر صبح ہی سے لوگ آکر پریشان کرنا شروع کردیتے ہیں! اُف یہ کام بھی کس قدر درد سری اور مصیبت کا ہے۔۔۔ آج سمینار کا افتتاح کرنا تھا۔۔۔ کل کے جلسے کی صدارت کے لئے کم سے کم نوٹ تیار کر ہی لیں۔ ان کی قابلیت کا دور دور شہرہ ہے۔ اور پھر انہیں اس زینے کے سہارے بہت اوپر جانا ہے۔۔۔۔ مگر پاس بیٹھے پرنسپل صاحب جو اپنے کسی مسئلے کو لے کر صبح ہی نازل ہوگئے تھے۔ نئی سلیکشن کمیٹی کے ان ممبران کے تقرر پر زور دے رہے تھے جو ان کو من مانی کرنے دیں۔ وہ دونوں باتوں میں محو تھے مگر پرنسپل صاحب کی نظر اچانک اٹھی۔۔۔ یہ کیسا ہجوم ہے، سڑک کے کنارے شاید کوئی جانور مرا ہوا پڑا ہے۔ ہنہ۔۔۔ کس قدر ہم لوگ بے حس ہیں۔ جب تک کار کافی آگے نکل گئی وہ عوام کی بے حسی پر غور کرتے رہے!
کاریں، موٹریں، موٹر سائیکلیں، ٹوسیڑ، پیدل بھی گزرتے رہے۔ کالج اور اسکول جاتے لڑکے لڑکیاں، دوکانوں اور آفسوں میں کام کرنے والے کلرک اور دفتری ادھیڑ عورتیں بازار سودا سلف لانے کے لئے جاتی ہوئی۔۔۔۔ سبھی تو گزر رہے تھے اس مصروف سڑک پر۔ اور وہ۔۔۔ ویسے ہی تین دن سے اس سڑک پر پڑا تھا۔ اور گھسٹ رہا تھا۔ کبھی کبھی کوئی راہ گیر، کوئی بوڑھی عورت، کوئی بچہ، کوئی بے فکر ہپی نما نوجوان، کوئی فیشن میں چور حسینہ پاس سے گزرتے ہوئے اس کے ہاتھ پر پانچ، دس یا پچیس پیسے کا سکّہ رکھ کر اپنے ضمیر کو تھپکی دے کر مطمئن کرتا ہوا آگے بڑھ جاتا۔ وہ ان سکّوں کو دیکھتا تو زور سے ہنس پڑتا۔۔۔ بھیانک۔۔۔ کھوکھلی ہنسی۔۔۔ اور چاروں طرف پیسے اچھال دیتا جس کو ننگے دھڑنگے بچے اٹھا لیتے بچے جن کی دلچسپی کا وہ تین دن سے مرکز بنا ہوا تھا۔ جو اسے چھیڑتے بھی تھے۔ رحم بھی کھاتے تھے۔ کھانے کو بھی دے دیتے تھے اور ہنس بھی رہے تھے، ستاتے بھی تھے۔ زندہ قوم کے ہونہار بچے۔ قوم کا مستقبل ماضی پر ہنس رہا تھا۔
جانے تین دن پہلے وہ کہاں سے اس سڑک پر نمودار ہوا تھا۔۔۔ جیسے آسمان سے ٹپک پڑا ہو۔۔۔ اور اس تین دن و رات میں اس نے تین چار فرلانگ سے زیادہ فاصلہ طے نہ کیا تھا۔ وہ آگے۔۔۔ آگے بس آگے ہی بڑھ رہا تھا۔ محلے کے لوگ روز ڈرتے ڈرتے دروازہ کھولتے کہ کہیں اس کی لاش ان ہی کے دروازے کے سامنے نہ پڑی ہو۔ مگر وہ چند گز اور آگے بڑھ چکا ہوتا تھا۔ اور لوگ اطمینان کا لمبا سانس لے کر اس کے خیال کو جھٹک اپنے اپنے کاموں میں لگ جاتے۔
تین دن سے خوب خوب چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں!
کسی کا خیال تھا۔۔۔۔ ’’بڑا پہنچا ہوا آدمی ہے۔۔۔۔‘‘۔
’’اجی بہت بڑا مجذوب۔۔۔ کسی کو بددعا دے دے تو جل کر خاک ہوجائے‘‘۔
’’ارے صاحب بس یہ کسی سے خوش ہوجائیں۔۔۔ سمجھو بیڑا پار ہے‘‘۔
بہت سے لوگ کہتے ’’اجی یہ کچھ نہیں پاگل ہے۔ پاگل۔ اپاہج بھی بچارا!
مگر ’’دانش مندوں‘‘ کی دریافت یہ تھی کہ یہ کوئی خفیہ پولس کا آدمی بھیس بدل کر پاس کے علاقے کا جائزہ لے رہا ہے۔ یہ سوچتے ان کی بلا کہ اس کا کوئی ’’بھیس‘‘ ہی نہ تھا۔۔۔۔۔ جسم پر کچھ تھا ہی نہیں!
ایک صاحب جو عنقریب چنائو لڑنے والے تھے ان کو یقین تھا کہ ان کے حریف نے اس شخص کو بھیجا ہے جو بہروپ بنائے یہاں پڑا ہے!
پاس سے گزرتے بعض لوگ ہمدردی بھی دکھاتے ’’تہ۔۔۔۔ہا۔۔۔۔ بچارا اپاہج بڈھا‘‘۔
’’سردی میں مرجائے گا غریب‘‘۔
’’یہ سب گورنمنٹ کا قصور ہے‘‘۔
’’آخر اپاہج خانے کیوں نہیں بنتے ہیں‘‘۔
’’کوئی اسے کہیں بھیجتا کیوں نہیں؟‘‘
اور لوگ آگے بڑھ جاتے ۔۔۔۔ لفظ ہوا میں تحلیل ہوجاتے۔۔۔ لفظ۔ صدا۔ جو کبھی گم نہیں ہوتے۔۔۔ ہمیشہ باقی رہتے ہیں۔ بس سننے والے کان نہیں!
ایک عورت اس کے لئے کچھ کھانے کے لئے لائی۔ وہ عجیب نظروں سے اسے دیکھتا رہا، جن میں حیرت تھی، دکھ تھا، بے بسی تھی۔۔۔۔ اس نے اصرار کیا ’’بابا کچھ کھالو‘‘۔ تو اس نے تھالی پلٹ دی اور ہاتھ سے کھانا چاروں طرف بکھیر دیا۔ ’’چڑیاں کیا کھائیں گی‘‘۔ چیونٹیاں کیا کھائیں گی۔۔۔۔‘‘ رات پڑوس کے ایک بوڑھے نے روئی کی صدری اسے لاکر زبردستی پہنا دی تھی۔ صبح ہوئی تو وہ صدری اس کے جسم پر نہ تھی۔۔۔ کوئی ’’ضرورت مند‘‘ اتارکر لے جاچکا تھا۔
کبھی کبھی وہ عجیب عجیب الفاظ بولنے لگتا۔ اور ’’صاحبان فراست‘‘ سوچتے وہ کوئی باہر کا جاسوس ہے کوئی نئی نرالی زبان بول رہا ہے۔
سورج نصف النہار پر پہونچ کر ڈھلنا شروع ہوگیا تھا۔ نانی بی ظہر کی نماز پڑھ کر اٹھی ہی تھیں کہ کھڑکی میں سے انہوں نے اس کو دیکھا۔ وہ عین ان کے دروازے کے سامنے ہاتھوں اور کولہوں کے بل کھسک کر پہنچ چکا تھا۔
نانی بی دو سال سے اپنی بیٹی کے ساتھ رہ رہی تھیں۔ شانیؔ ان کی چہیتی نواسی تھی جس کے رشتے سے وہ بستی بھر کی نانی بی تھیں۔ گیارہ بارہ سال کی الہڑ و شوخ لڑکی جو بچپن اور جوانی کے بیچ جھولا جھول رہی تھی۔ نانی بی کی خدمت کے ساتھ ساتھ محلے، پڑوس، اسکول، ہر جگہ کی خبریں سنانا اور مسلسل باتیں کرنا اور ہر سانس میں ’’ہیں نا، نانی بی‘‘ کہنا اس کی عادت تھی۔
’’شانی۔ اے شانی بیٹی۔ ارے میری یہ چھٹکیا کہاں ہے‘‘۔ نانی بی کی آواز بڑی میٹھی تھی۔
’’اے شانی۔ اری سنتی نہیں اماں بی پکار رہی ہیں‘‘۔ باورچی خانے سے شانی کی ماں چلائیں۔
’’آئی نانی بی۔۔۔ آئی ئی۔۔۔۔‘‘ دور سے شانی کی آواز سنائی دی۔۔۔ پہنچی تو سانس پھولا ہوا تھا۔ ’’باہر کیوں گئی تھی‘‘؟ نانی بی سرزنش کرنا بھی جانتی تھیں۔
’’اے نانی بی۔ وہ بچارا ننگا فقیر ہے نا۔ وہ جو باہر پڑا تھا۔ ارے نہیں توبہ وہ درویش وہ میرا مطلب ہے نانی بی۔ وہ مجذوب۔ مجذوب کسے کہیں ہیں نانی بی؟‘‘ اس نے ایک ہی سانس میں کہہ ڈالا۔
’’کیا کہہ رہی ہے بیٹی؟‘‘
’’ارے نانی بی وہ مجذوب۔ نہیں۔ سی آئی ڈی۔ جانے کون ہے۔ وہ آج ہمارے گھر کے سامنے پہنچ گیا ہے نا۔‘‘ اور پھر اس نے فراٹے کے ساتھ تین دن کی ساری کہانی نانی بی کو سنا ڈالی‘‘ تو نانی بی۔ کیا اس کا کوئی گھر نہیں ہے۔ کوئی بیٹی نہیں ہے۔ اور نانی بی کیا اس کی کوئی میری جیسی شانی بھی نہیں ہے؟‘‘ وہ بولے جارہی تھی اور ان کے بوڑھے چہرے کی ہر جھرّی میں درد لہریں مار رہا تھا۔ پھر کھانسی کا شدید دورہ پڑا۔ سنبھلیں تو جوتا پہن کر کھڑی ہوگئیں۔ ’’چل شانی اسے دیکھ آئیں۔ بچارا۔‘‘ انہوں نے اپنی دُہری اونی شال۔ جو ان کے مرحوم شوہر کی واحد نشانی ان کے پاس رہ گئی تھی۔ یہی لے کر تو وہ بیٹے کے گھر سے نکلی تھیں۔ اپنے چاروں طرف لپیٹ لی۔ ’’چل بچی چلیں‘‘۔
’’اے اماں۔ خدا کے لئے۔ اس سردی میں کہاں جارہی ہو؟‘‘ بیٹی نے کچن میں سے جھانکا!
’’کہیں نہیں۔ یہیں بس ذرا۔۔۔۔‘‘ اور وہ جلدی سے باہر نکل گئیں۔ شانی کی زبان برابر چل رہی تھیں۔ ’’پیروں سے تھوڑی چلتا ہے وہ نانی بی۔ ہاتھوں سے اور۔۔۔۔ اور پھر آپ کہیں گی گالی ہے۔ کولہوں سے چلتا ہے وہ تو۔۔۔ کچھ کھاتا بھی نہیں نانی بی۔ چڑیوں کو کھلا دیتا ہے۔ نانی بی وہ سردی میں مرتا کیوں نہیں؟ مرنے کے بعد لوگ کہاں جاتے ہیں نانی بی۔ صفیہ کہتی ہے قبر کے اندر۔ اور گڑیا کہتی ہے آسمان پر اور میں کہتی ہوں کہ نانی بی۔ اللہ میاں کے پاس۔ ہیں نا، نانی بی؟؟‘‘۔
اب وہ دونوں اس کے بالکل قریب پہنچ چکی تھیں۔ سورج پر بادل ٓاگیا تھا اور سرد ہوا کلیجے میں گھسی جارہی تھی۔ نانی بی اسے دیکھ کر ساری جان سے کانپ گئیں۔ آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔۔۔۔۔ ’’ارے نانی بی آپ رو رہی ہیں۔ اور نانی بی دیکھئے یہ بچارا کانپ بھی تو رہا ہے۔ ہے نا، نانی بی؟‘‘۔ شانی بھی روہانسی ہوگئی تھی۔
نانی بی نے اسے دیکھا، شانی کو دیکھا، آسمان کو دیکھا اور پھر خود کو دیکھا۔ ایک لمبی سی سر و آہ۔ یا سانس ان کا سینہ چیرکر نکلا۔ اور پھر انہوں نے اپنی شال اتارکر اس انسان کے گرد لپیٹ دی جو انسانیت کے احساس کے ماتھے پر ایک زخم تھا!
شانی کی آنکھیں پھیل گئیں۔ ’’ارے۔ نانا ابا کی شال۔‘‘ اسے یاد آیا وہ ذرا چھو بھی لیتی تو نانی بی چیخ پڑتی تھیں۔ نانا۔ اسے نہ چھونا۔ خراب ہوجائے گی امی نے دو شالیں لاکر دیں کہ اماں یہ اوڑھو۔ مگر نانی بی خفا ہوگئیں۔ نہیں مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ اور اب۔ اور اب۔!!
آس پاس کھڑے لوگوں نے کچھ حیرت سے کچھ تمسخر سے ان بڑی بی کی طرف دیکھا۔ اور آگے بڑھ گئے۔ برہنہ ایسے تو سینکڑوں ننگے بھوکے پھرتے رہتے ہیں تو کیا آدمی خود بھی ننگا ہوجائے!
’’نانی بی اس کا ہوگا کیا۔۔۔ یہ کب تک یہاں پڑا رہے گا۔۔۔۔‘‘ شانی پوچھ رہی تھی!
’’ہاں اس کا کیا ہوگا۔ یہ کب تک یہاں پڑا رہے گا۔ اے اللہ۔ اے رحیم۔ اے کریم۔ رحم کر۔ رحم کر۔‘‘ یہ ان کا تکیہ کلام تھا مگر اس وقت ایسا لگا جیسے ان کی پکار کا جواب انہیں فوراً مل گیا۔
سامنے سے بوڑھے ڈاکٹر کرشن کی گاڑی آرہی تھی۔ ڈاکٹر کرشن ان کے مرحوم شوہر کے دوست تھے۔ اور خود ان کے معالج بھی۔ اب رٹائرڈ زندگی گزار رہے تھے۔ مگر ہمدردی، انسان دوستی اور دوسروں سے سلوک اب بھی کرتے تھے۔ بیٹے ’’سعادت مند‘‘ تھے نا۔ باپ کو کسی طرح کی تکلیف نہ ہونے دیتے تھے۔ اگرچہ باپ کی محبت ان کو مہنگی پڑتی تھی مگر کیا کیا جائے۔۔۔۔ یہاں تک کہ دور جانا ہوتا تو وہ گاڑی تک لے جاتے تھے۔ بہویں ذرا سا منہ بناتیں یا بڑبڑاکر رہ جاتیں مگر بڑے میاں کا رعب۔ توبہ!
ایک لمحے میں یہ سب باتیں نانی بی کے ذہن میں گھوم گئیں۔ موٹر ان کے پاس آکر رک گئی۔
’’ارے بھابی جی۔ یہ سردی میں کیوں کھڑی کھانس رہی ہو‘‘۔ اندر سے ڈاکٹر صاحب کی بھاری مگر مہربان آواز سنائی دی۔
’’بھیا۔۔۔‘‘ ایک چیخ نانی بی کے منہ سے نکلی۔ اسے دیکھو۔ غریب کو۔۔۔۔‘‘ بھیڑ کائی کی طرح پھٹ گئی۔ ڈاکٹر صاحب کار سے نکل آئے‘‘۔ بھیا یہ تین دن سے اس سڑک پر پڑا ہے۔ جانے کہاں سے آگیا ہے بچارا۔ کوئی اس کا پرسان حال نہیں۔ اپاہج ہے۔ ہوش حواس میں نہیں ہے۔ بڑا مصیبت مارا لگے ہے بھیا۔ اس کا کچھ کرو۔ اس کا کوئی بھی نہیں‘‘۔
ڈاکٹر صاحب نے اسے جھک کر دیکھا۔ ان کا ڈرائیور جو اب تک پٹ کھولے کھڑا تھا اب قریب آچکا تھا۔ اس نے بھی اس عجیب ’’شے‘‘ کو دیکھا ’’ارے۔چاچا۔‘‘۔
نانی بی نے اس کی طرف دیکھا۔
’’ہاں ماں جی۔ یہ تو ہمارے محلے کے ہیں۔ بہت دن ہوئے فالج مار گیا تھا۔ بہو بیٹے کسی نے زیادہ دن خدمت نہ کی اور پھر۔ شاید۔ شاید انہیں گھر سے۔۔۔‘‘۔
’’نکال دیا؟‘‘ نانی بی کے سینے سے ایک چیخ نکلی اور وہ دل پکڑکر دہری ہوگئیں!
’’آپ گھر میں جائیے بھابی۔۔۔۔ میں اس کا کچھ انتظام کرتا ہوں۔ کسی اسپتال میں داخل کرا دوں گا‘‘۔ انہوں نے ٹھہرتے ہوئے لہجے میں کہا اور ان کے اشارے پر ڈرائیور نے مچلتے چلاتے اپنے اس ’’پڑوسی‘‘ کو گود میں اٹھاکر پچھلی سیٹ پر ڈال دیا۔
’’اچھا بھابی۔‘‘ اور کار آگے بڑھ گئی۔
نانی بی اڑتی ہوئی دھول کو دیکھتی رہیں۔
’’اگر آج۔ آج۔ بیٹی نے سہارا نہ دیا ہوتا۔ داماد نے پناہ نہ دی ہوتی۔ تو۔تو۔ اگر ڈاکٹر صاحب کے بہو بیٹے بھی ایسے ہوتے تو۔ تو کیا وہ بھی، کیا میں بھی۔ بے کار کوڑے کرکٹ کی طرح۔۔۔۔۔‘‘۔
اس سے آگے سوچنے کی ان میں ہمت نہ تھی!
——