راشد کی تیز آواز اور ثمینہ کی سسکیاں گھر کے باہر بھی سنائی دے رہی تھیں۔ ’’آخر رقم آجانے کے بعد بھی تم بہانے کررہے ہو۔ اگر تمہارا ارادہ نہیں ہے، تو صاف کہو نا کہ زیور نہیں بنیں گے۔ مجھے جھوٹی تسلیاں کیوں دیتے ہوں؟‘‘ راشد نے تھوڑی نرمی اختیار کرلی تھی : ’’میرے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرو ثمینہ … وقت آنے پر…‘‘
’’تمہارے مسائل ؟ … تمہارے مسائل تو زندگی بھر حل نہ ہوں گے… اور وہ وقت تو میرے مرنے کے بعد ہی آئے گا … دوسری لانا … تو اسے پہنانا زیور ‘‘ ثمینہ کا غصہ بڑھ رہا تھا۔
’’اچھا بابا … تم اب صرف چند روز مزید برداشت کرلو … انشاء اللہ جلد ہی …‘‘
’’بس بس! دلاسے دینے کی ضرورت نہیں۔ پانچ سال سے یہی انداز ہے تمہارا۔‘‘
’’اچھا دیکھو باہر ندیم بیٹھا ہے… چائے بناسکوگی یا میں خود بنالوں … ‘‘ راشد کے لہجے سے نرمی اور التجا ٹپک رہی تھی۔
راشد ہاتھ میں چند میگزین لیے میرے پاس آگیا۔ ’’یار معاف کرنا … تم ذرا میگزین کی ورق گردانی کرو … میں ابھی چائے لے کر آتا ہوں…‘‘
میں دل میں سوچ رہا تھا کہ مجھے ویٹنگ روم میں بٹھا کر یہ دونوں ایسی تکرار کیوں کررہے ہیں۔ کیا راشد گھریلو تنازعہ میرے سامنے لاکر مجھ سے کچھ اور… تبھی راشد چائے لے کر حاضر ہوا۔ اس کے چہرے پر اداسی تھی۔ چائے کی گرم چسکیوں کے ساتھ میں سوچ رہا تھا اگر راشد کا مقصد یہ ہے کہ میں اس کی بیوی کے مطالبہ کو پورا کرنے میں اس کی مدد کروں تو میرے لیے فی الحال یہ بھی ممکن ہے۔ میری جیب میں کچھ فاضل رقم ہے جو میں اسے دے سکتا ہوں۔ راشد کو بھی اس کا احساس ہوگا کہ میں ان کی گفتگو سن رہا ہوں… کیا میں خود ہی راشد کے معاملات میں دخل دوں… یہ مسلسل خاموشی … راشد اور میرے لیے بڑی معنیٰ خیز تھی۔ راشد نے ہی خاموشی کو توڑا… ’’تم کیا سوچ رہے ہوں ندیم؟‘‘
میرے لیے یہ سخت آزمائش کا لمحہ تھا۔ حالات نازک تھے ایسے میں ممکن نہ تھا کہ کوئی بات کی جائے۔ فوراً میں نے بات بنائی: ’’سوچ رہا تھا کہ ہم لوگ کہیں پکنک کا پروگرام بنائیں۔ اسی ارادے سے مشو رہ لینے آیا تھا… لیکن تم لوگوں کا موڈ اچھا نظر نہیں آتا۔‘‘ راشد کچھ کہنا چاہتا تھا کہ … اندر سے ثمینہ کی آواز آئی… ’’ہمارا موڈ ٹھیک ہے… ضرور پروگرام بنائیے… ہم لوگ چلیں گے۔‘‘
راشد مسکرایا … ’’بھئی ہوم منسٹری سے آرڈر ہیں تو پھر بھلا ہم کیوں راضی نہ ہوں۔‘‘
اچانک دونوں کے موڈ میں تبدیلی سے مجھے راحت ملی۔ میں نے سوچا ضرور تفریح کا پروگرام بنائیں گے اور وہاں اطمینان سے اس تنازعہ کا حل بھی نکالیں گے۔ اس تفریحی پروگرام سے نہایت خوش گوار تبدیلی مجھے محسوس ہوئی۔ راشد سے بات کرنے کا یہ زریں موقع تھا۔ ثمینہ تک ہم دونوں کی گفتگو بآسانی پہنچ سکتی تھی۔ میں چاہتا تھا کہ کسی دوسری جگہ گفتگو ہو جبکہ راشد کا منشا تھا کہ ہماری گفتگو ثمینہ بھی سن لے۔ میں نے دو ٹوک انداز میں کہا : ’’راشد میرا خیال ہے کہ تمہیں ثمینہ کی خواہش پوری کردینی چاہیے… مجھے پتا ہے کہ تم نے ضرورتاً اس کا زیور توڑا تھا۔ لیکن اب تم اس پوزیشن میں ہو کہ اسے زیور نئے دلاسکتے ہو۔‘‘ راشد نے بات کاٹ کر کہا … ’’ندیم تمہیں غلط فہمی ہورہی ہے۔ ثمینہ کو تو میں وہ زیور دلا چکاہوں… اس کے علاوہ اسے ہار اورچوڑیاں دلانے کا بھی میں نے وعدہ کیا تھا۔ ثمینہ اسی کا مطالبہ کررہی ہے۔‘‘
’’اچھا تو … اب تم اس کا یہ بھی مطالبہ پورا کردو نا۔ کیا پریشانی ہے۔ ہاں اگر کچھ روپیوں کی کمی ہو تو کہو … اس وقت میرے پاس کچھ رقم ہے۔‘‘
راشد نے نہایت سنجیدگی سے کہا: ’’ندیم بات یہ نہیں … رقم تو میرے پاس ہے، لیکن …‘‘
’’لیکن کیا؟‘‘ میں گھبرا گیا۔
’’دوست یہ زیورات اور اچھے کپڑے … میری سمجھ سے باہر ہیں۔ آخر عورتیں ان چیزوں کو صرف اسی وقت نکالتی ہیں، جب کوئی تقریب ہو، یہ زیب و زینت – صرف نمائش کے لیے۔ کیا ان پرشوہر کا کوئی حق نہیں؟‘‘
میں اس کی بات کا پورا مفہوم سمجھ گیا تھا۔ ’’بھائی تم بالکل سچ کہتے ہو۔ہر گھر میں یہی ہورہا ہے۔ حالانکہ اللہ کے رسول ﷺ نے عورتوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے شوہروں کے لیے زیب و زینتکریں؟… مگر میرے دوست اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم … اپنی بیوی کے اس رویہ پر اس کی جائز خواہشات کو بھی پورا نہ کرو … ممکن ہے انھیں سلیقہ سے یہ بات نہ سمجھائی گئی ہو۔‘‘
راشد سنجیدہ ہوچکا تھا۔ ’’انشاء اللہ! یقین رکھو… ثمینہ کی خواہش ضرور پوری ہوگی۔‘‘
ایک دن وہ مسرت میں ڈوبا ہوا میرے پاس آیا۔ ’’ندیم خلوص میں ڈوبے ہوئے تمہارے چند جملے … اپنا کام کرگئے
ثمینہ نے خود کو تبدیل کرلیاہے۔ وہ کہہ رہی تھی ندیم کے اس سلجھے ہوئے انداز اور سرکار دو عالم ﷺ کی یہ بات کہ عورتیں اپنے مردوں کے لیے زینت اختیار کریں سن کر بھلا کوئی مسلمان عورت اس سے روگردانی کیسے کرسکتی ہے۔ ندیم ! وہ بھی تمہاری مشکور ہے اور میں بھی۔
راشد خوش تھا … بہت خوش … وہ بار بار میرا شکریہ ادا کررہا تھا۔ میں خود بھی دل کی گہرائیوں سے اس کا ممنون ہوں کیوں کہ یہ تبدیلی صرف ثمینہ میں ہی نہیں …میری بیوی میں بھی اس روز کی گفتگو کے بعد آ چکی ہے۔