’’ایکس کیوزمی‘‘ کی آواز پر میں نے تیزی سے چلتا قلم روک کر نگاہیں اٹھائیں۔ بلیو جینز اور وہائٹ ٹی شرٹ پہنے ،کتابوں کو ہاتھوں میں تھامے اس لڑکی کو میں نے بڑی ناگواری سے دیکھا تھا۔
’’ایکس کیوزمی کین آئی سٹ ہیئر‘‘
میرے چپ رہنے پر اس نے ٹیبل بجاکر پھر سے مجھے مخاطب کیا۔ میں چونک پڑی کیونکہ وہ جواب طلب نگاہوں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ اس پر میں ذرا شرمندہ سی ہوئی۔
’’کیوں نہیں، پلیز سٹ‘‘ میں نے اپنے سامنے والی بینچ کی طرف اشارہ کرکے کہا اور وہ بیٹھ گئی۔ پھر میں دوبارہ نوٹس بنانے میں مصروف ہوگئی۔ آج چونکہ حمیرہ میرے ساتھ نہیں آئی تھی، بھیا اپنے کالج جاتے ہوئے مجھے بھی ڈراپ کرگئے تھے اور میں نے اگلے پیریڈ کے اختتام کے بعد کا وقت انہیں دے رکھا تھا کہ ایک بجے مجھے لینے آئیںاس لیے کسی قدر جلدی میں تھی۔ پیریڈ شروع ہونے میں صرف ۲۰ منٹ باقی تھے اور اس قلیل وقت میں مجھے اپنے نوٹس مکمل کرنے تھے۔ میں پچھلے ایک گھنٹے سے دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنے کام میں مصروف تھی کہ اس لڑکی نے مجھے ڈسٹرب کردیا۔
وہ بیٹھ تو گئی مگر مسلسل مجھے نہیں بلکہ میرے پیرہن کو دیکھے جارہی تھی۔ کبھی منہ کھول کر میری طرف دیکھتی پھر نظریں ادھر ادھر دوڑانے لگتی۔ میں سمجھ گئی کہ وہ مجھ سے کیا کہنا چاہتی ہے۔ مگر جھجھک رہی ہے۔ پھر اس نے ہمت کرکے پوچھ ہی لیا۔ ’’آپ کا نام کیا ہے؟‘‘ میں نے دو لفظوں پر مشتمل اپنا نام بتایا تو اس نے اگلاسوال داغ دیا ’’کونسا ائیر ہے آپ کا؟‘‘
’’فرسٹ ایئر‘‘ میں نے مختصراً جواب دیا۔
’’اچھا… ‘‘ وہ بولی ’’سبجیکٹ کون سا رکھا ہے آپ نے ؟‘‘
’’انگلش لٹریچر‘‘ میں نے پھر دو لفظوں پر مشتمل جواب دیا اور اگلے سوال کا انتظار کرنے لگی۔ زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا، کیونکہ وہ فوراً بولی ’’اوہ! مگر ہم نے تو سنا ہے فرسٹ ایئر کا سلیبس چینج ہوگیا ہے؟‘‘
’’آپ نے صحیح سنا ہے، ہمارا کورس چینج ہوگیا ہے۔‘‘ میں نے منھ بناتے ہوئے کہا کیونکہ اس نئے کورس کی وجہ سے ہم لوگوں کو کافی پریشانی اٹھانی پڑ رہی تھی۔
’’اور یہ بھی کہ نیا سلیبس بہت ٹف ہے۔‘‘ اس نے کہا تو میں کندھے اچکا کر بولی ’’ہاں ٹف تو ہے مگر پڑھنا تو پڑے گا ہی۔‘‘ میرے پوچھے بغیر اس نے بتایا کہ وہ سنسکرت سے بی اے کے آخری سال میں ہے۔
’’ہیلو ویشالی‘‘ اچانک ہی دو لڑکیاں ہمارے قریب چلی آئیں۔
’’اوہ ہائے‘‘ اس لڑکی نے ان دونوں کے لیے اپنے بینچ پر جگہ بنائی۔ بیٹھنے کے بعد وہ بھی مجھے دیکھ کر ذرا چونکیں۔ ’’مس نسرین! یہ میری فرینڈز روپا اور پلّوی ہیں۔‘‘ اس نے ان لڑکیوں کا تعارف مجھ سے کروایا۔ میں نے مسکرا کر ان سے ہاتھ ملایا وہ بھی مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھنے بلکہ میراتفصیلی معائینہ کرنے لگیں۔ کالج جوائن کیے مجھے دو ماہ ہوچکے تھے اور ان دو ہی مہینوں میں میںان نظروں کی عادی ہوچکی تھی اس لیے سر جھٹک کر پھر نوٹس بنانے میں محو ہوگئی۔ ویشالی نامی اس لڑکی نے انگلی سے ڈیسک بجائی۔ میں نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا تو وہ جھجکتے ہوئے بولی: ’’مس نسرین! آپ سے ایک بات پوچھوں؟‘‘
اس وقت وہ اتنی نروس دکھائی دے رہی تھی کہ میں بے ساختہ مسکرا پڑی۔ اس نے حیرانی سے مجھے دیکھا، میں مسکراہٹ دباتے ہوئے بولی ’’پوچھئے نا، ایک نہیں دو پوچھئے۔‘‘
’’آپ… آپ یہ کیوں پہنتی ہیں؟‘‘ اس نے میرے کالے برقعے کی طرف اشارہ کیا۔
’’کیونکہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے مسلم خواتین کو پردہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ تمام مسلم لڑکیوں اور عورتوں کے لیے کمپلسری (ضروری) ہے۔‘‘ میں نے اسے جواب دیا۔
’’کمپلسری ہے؟‘‘ اس نے سوالیہ نگاہوں سے مجھے دیکھا ’’مگر میری مسلم فرینڈز تو کہتی ہیں کہ یہ خود کی مرضی پر ڈپینڈ (منحصر) ہے جسے پہننا ہے، پہن لے اور جو نہیں چاہتا ہو نہ پہنے۔‘‘
اس کی اس بات پر افسوس کی ایک لہر میرے بدن میں دوڑ گئی۔ اور میں سوچنے لگی کہ ہم مسلم لڑکیاںہی تو ان بے چارے لاعلموں کو اسلام سے متنفر کررہی ہیں، ان کے ذہنوں میں اختلافی نکات پیدا کررہی ہیں۔ اگر ان کا دل پردہ کرنے کو نہ چاہ رہا ہو تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ اپنے کسی بھی خیال کو قرآن کا حکم بتا دیں۔ مجھے ایسی لڑکیوں پر اس وقت بے تحاشہ غصہ آیا۔ مگر اس وقت مجھے ویشالی کا جواب دینا تھا سو بولی:
’’جی نہیں ایسا نہیں ہے میں آپ کو بتاچکی ہوں کہ قرآن نے واضح الفاظ میں عورتوں کو پردہ کرنے کا حکم دیا ہے اور جن لڑکیوں کی آپ بات کررہی ہیں انھوں نے قرآن کی اسٹڈی نہیں کی ہوگی۔‘‘ اللہ انہیں ہدایت دے، میرے دل سے دعا نکلی۔
’’سوری ٹو سے مس نسرین بٹ…‘‘ وہ کہتے کہتے پھر رک گئی تو میں نے ہولے سے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر نرمی سے کہا ’’کہیے نا آپ کیا کہنا چاہتی ہیں؟‘‘
’’آپ اسے پہننا چھوڑ دیجیے کیونکہ اس سے تو آپ لوگوں کو بڑی پریشانی ہوتی ہے۔ اکولہ میں تو یوں بھی شدت کی گرمی پڑتی ہے۔ اور پھر یہ تو ہمارا گرلز کالج ہے آپ آرام سے بغیر برقع کے بھی آسکتی ہیں۔‘‘
’’نہیں مس ویشالی‘‘ میں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’برقع میری ضرورت ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان کی طرح۔ میں اس کے بغیر گھر سے نہیں نکل سکتی خاص طور سے اس ماحول میں جہاں گھر سے قدم نکالتے ہی بے ہودہ فقروں اور گندے فلمی گانوں کی آوازیں سنائی دینے لگتی ہیں، نقاب میں مجھے تحفظ محسوس ہوتا ہے۔ جہاں تک گرمی کی بات ہے تو یہ گرمی اس گرمی سے بہت ٹھنڈی ہے جو لوگوں کی گندی نگاہوں کو دیکھ کر میں اپنے خون میں محسوس کرتی ہوں۔‘‘
’’کیا آپ کو ان باتوں کا تجربہ ہوا ہے؟‘‘ روپا نے گفتگو میں حصہ لیا۔
’’جی ہاں! میں نے گیارہویں جماعت کے بعد پردہ شروع کیا تھا اور جس دن میں پہلی بار پردے میں اپنے جونیئر کالج گئی تھی تب بہت سارے پچھتاوے مجھے گھیرنے لگے تھے۔‘‘ میں نے دکھ کے ساتھ کہا۔
’’آپ غالباً پردہ کرکے پچھتائی تھیں۔‘‘ ویشانی نے اشتیاق بھرے لہجے میں کہا تو میں ہنس پڑی۔
’’جی نہیں پچھتاوا مجھے اس بات پرہوا تھا کہ میں اب تک بے پردہ کیوں رہی۔ بلوغت کے بعد فوراً ہی پہن لینا چاہیے تھا۔‘‘
’’آپ کی باتیں میرے لیے ایک دم نئی ہیں۔‘‘ پلّوی بولی: ’’آپ کی مسلم ایجوکیٹیڈ خواتین تو اس سے خاص بیزاری کا اظہار کرتی ہیں۔ اور یوں بھی میں نے بسوں، ٹرینوں اور دیگر اسپاٹ (مقامات) پر مسلم خواتین کو برقع سے اپنے آپ کو آزاد کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اور یہ بھی کہ وہ دوبارہ اسے پہنتے ہوئے برا سا منہ بناتی ہیں اور یہی نہیں بلکہ وہ سڑکوں پر اپنا منہ کھولے پھرتی ہیں جسم تو کپڑوں سے چھپ ہی جاتا ہے پھر برقع پہننے کا فائدہ کیا ہے؟‘‘
اسی لمحے عائشہ میرے شانے پر ہاتھ رکھ کر چپکے سے سلام کرکے میرے قریب بیٹھ گئی۔ اس کی یہ عادت بہت اچھی ہے کہ وہ درمیان میں کبھی ڈسٹرب نہیں کرتی نہ گفتگو منقطع۔میں اسے دیکھ کر مسکرائی۔ سلام کا جواب دیا پھر پلّوی سے پوچھا ’’مس پلّوی آپ کو انڈین کلچر کیسا لگتا ہے؟‘‘
’’انڈین کلچر ؟‘‘ اس کی آنکھیں چمک اٹھیں ’’آئی لائک انڈین کلچر سو مچ‘‘
’’اگر ہندوستانی مرد شراب و جوا اور مغلظات کو اپنا لیں اور یہاں کی عورتیں اس طرح کا لباس پہنیں جیسے امریکی عورتیں پہنتی ہیں اور ہندوستانی تہذیب سے نفرت اور بیزاری کا اظہار کرکے اسے ترک کردیں تو کیا آپ یہ کہیں گی کہ ہندوستانی تہذیب قابل عمل نہیں۔ بلکہ قابلِ نفرت اور قابلِ شرم ہے جسے چھوڑدینا چاہیے۔‘‘ وہ آنکھیں پھاڑ کر مجھے دیکھنے لگی پھر میری جواب طلب نگاہوں سے ہڑبڑا کر کہنے لگی ’’جی نہیں میں ایسا نہیں کہوں گی، ایسے میں تو وہی لوگ غلط ہوں گے۔‘‘
’’بالکل‘‘ میں نے بینچ کی پشت سے ٹیک لگا کر کہا ’’اسی طرح پردے کا بھی معاملہ ہے۔ جو عورتیں پردے سے بیزاری کا اظہار کرتی ہیں وہ دراصل اس چیز کی امپورٹنس کو سمجھ نہیں پائی ہیں۔ اس میں سراسر ان کا قصور ہے۔ ورنہ تو پردہ اپنے آپ میں ایسی چیز ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔‘‘
’’فی الحال تھوڑی سے تعریف تو کردو۔‘‘ عائشہ نے مسکراتے ہوئے مجھ سے کہا۔
’’سب سے بڑا فائدہ تو یہی ہے کہ پردہ کرنے سے حسن کی حفاظت ہوتی ہے کیل مہاسوں وغیرہ سے جلد پاک رہتی ہے ، رنگ کالا نہیں پڑتا اور چہرے پر نکھار آجاتا ہے۔‘‘ میں نے شوخی سے کہا تو عائشہ ہنس پڑی جبکہ وہ تینوں متاثر نظر آنے لگیں۔
’’جی اور … کچھ اور بتائیے۔‘‘ ویشالی نے کہا۔
’’اور یہ بھی زبردست فائدہ ہے کہ راہ چلتے ہوئے لوگ پیچھے مڑ مڑ کر نہیں دیکھتے۔ نہ فقرے کستے ہیں اور نہ ہی فلمی گانے گاتے ہیں۔ نہ راہ روکتے ہیں نہ چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں بلکہ ادب سے راستہ چھوڑ دیتے ہیں۔ پھر پردہ کہیں بھی تو رکاوٹ نہیں بنتا۔ گاڑی چلائی جاسکتی ہے، اسپیچ (تقریر) کی جاسکتی ہے، میں تو گریجویشن ہی کررہی ہوں مگر سینئر لڑکیاں پردے کے ساتھ ہی اس مقام تک پہنچ گئی ہیں جہاں انہیں دیکھ کر رشک کیا جاسکتا ہے۔ میرے ساتھ کی جو لڑکیاں میڈیکل کالجز میں گئی ہیں ان کا بھی کہنا ہے کہ انہیں نقاب سے کبھی کوئی پرابلم نہیں ہوئی۔ میری سہیلی طوبیٰ جو مالیگاؤں سے میڈیکل کررہی ہے بتارہی تھی کہ کالج کے بہت سارے لڑکوں نے اس سے پرسنلی مل کر کہا تھا کہ کبھی کسی قسم کی پریشانی ہو تو بھائی سمجھ کر کہہ دینا۔ وہ یہ بھی کہہ رہی تھی کہ مجھے لگتا ہے کہ سارے لڑکوں کی میں اکلوتی بہن ہوں۔‘‘ کہتے ہوئے میں ہنسنے لگی تو وہ تینوں بھی ہنس پڑیں۔
تبھی میری کلاس فیلو ذاکرٌ مجھے تلاش کرتی ہوئی لائبریری میں آگئی۔
’’سلمیٰ جلدی چلو ELTکا پیریڈ شروع ہونے والا ہے۔ دیکھو میڈم کلاس روم کی طرف جارہی ہیں۔‘‘
اس نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے مجھ سے کہا ۔ میں نے جلدی جلدی رجسٹر سمیٹے، بیگ کندھے پر ڈالا، عائشہ کو سلام کرکے ان تینوں سے مسکراتے ہوئے ہاتھ ملایا اور تیز قدموں سے ذاکرٌ کے ساتھ لائبریری سے نکلنے لگی تبھی ویشالی نے پکارا۔
’’ایک منٹ مس نسرین!‘‘ میں چونک کر مڑی وہ بینچ سے اٹھ کر میرے قریب چلی آئی۔
’’مجھے آپ کے اس برقع سے بہت چڑ تھی بلکہ میں تو یہی سمجھتی تھی کہ اسلام نے اسے عورتوں پر لاد کر ظلم کیا ہے۔ کل تک میں اس سے نفرت کرتی تھی اور گھٹیا چیز سمجھتی تھی مگر آج …‘‘ اس نے مصافحے کے لیے میری طرف دایاں ہاتھ بڑھایا جسے میں نے تھام لیا۔ ’’مگر آج میرے دل میں اس کی عزت ہے آپ اسے کبھی مت چھوڑئیے گا، اینڈ تھینکس فار دی انفارمیشن اباؤٹ اٹ‘‘ وہ مضبوط لہجے میں کہتی ہوئی مجھ سے ہاتھ ملا کر رخصت ہوگئی۔
’’جو عزت تمہارے دل میں پردے کے لیے ہے ویشالی کاش مسلم لڑکیوں کے دلوں میں بھی پیدا ہوجائے تو شاید ہمیں مباحثے کی ضرورت ہی نہ پڑے بلکہ ہمارا عمل ہی تمہیں اسلام کی طرح کھینچ لے۔‘‘
میں دل میں اس سے مخاطب ہوئی اور ذاکرٌ کے ساتھ کلاس روم کی طرف بڑھ گئی۔