جیب خرچ بچوں کو پُر اعتماد بناتا ہے!

کوثر تسنیم

’’امی امی مجھے جیب خرچ کے لیے پچاس روپئے دیجیے نا۔‘‘

’’جیب خرچ اور اس عمر میں؟‘‘

’’ہم بھی تو کبھی بچے تھے لیکن ہمارے والدین نے تو کبھی ایک پیسہ بھی نہیں دیا اور تو ہے کہ پچاس روپیہ کا مطالبہ کررہا ہے؟ تجھے پیسے دیکر میں تیری عادت خراب کرنا نہیں چاہتی۔ تجھے جو بھی ضرورت ہے مجھ سے کہ۔ میں خرید کر دوں گی لیکن جیب خرچ کے نام پر میں ایک پیسہ نہیں دینے والی۔ سمجھ گئے نا؟‘‘ ماں کی ڈانٹ سن کر خالد الٹے پیر لوٹ گیا۔

یہ صرف خالد کی بات نہیں بلکہ نہ جانے کتنے ایسے بچے ہیں جو جیب خرچ سے محروم رہتے ہیں۔ ان کے والدین کا خیال ہے کہ جیب خرچ سے بچے خراب اور فضول خرچ ہوجاتے ہیں۔ جبکہ واقعہ اس کے برعکس ہے۔ انھیں سمجھنا چاہیے کہ جیب خرچ دینا ہمیشہ خرابی کا باعث نہیں بنتا۔ اگر جیب خرچ متعین ہو اور بچوں پر اعتماد کیا جائے تو بچے بچپن ہی سے پیسے کی اہمیت کو جان جاتے ہیں۔ فرض کرلیجیے کہ جب آپ بچے تھے تو آپ کو جیب خرچ نہیں ملا لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ اپنے بچے کی واجب ضرورت کو نظر انداز کردیں۔

غلط سوچ

اکثر والدین کی یہی سوچ ہے کہ جیب خرچ دینے سے بچے خراب ہوجاتے ہیں، انھیں فضول خرچی کی عادت ہوجاتی ہے یا وہ فضول خرچی کے عادی ہوجاتے ہیں۔ لیکن ان کا یہ خیال غلط ہے۔ ہاں کئی مرتبہ یہ ضرور دیکھنے میں آیا ہے کہ جیب خرچ نہ ملنے کے سبب بچے بگڑ جاتے ہیں، اور ان اس کی شروعات یہاں سے ہی ہوتی ہے کہ وہ اپنی پسند کی چیز کو حاصل کرنے کے لیے گھر سے ہی پیسے چرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر وہ گھر سے پیسہ حاصل کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیںتو پڑوس میں یا رشتہ دار کے یہاں یہ نازیبا حرکت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو کبھی کبھی شرم کا بھی باعث بنتی ہے۔ اگر اس طرح کے لوگ اپنے بچوں کو کچھ روپیہ جیب خرچ کے طور پر دے دیں تو بچوں کو چوری کی عادت سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بچے بھی اپنے دوسرے دوستوں کی طرح پاکٹ منی یا جیب خرچ کی تمنا رکھتے ہیں۔ وہ اس سے من چاہی چیزیں خریدتے ہیں اور کئی مرتبہ بچت بھی کرتے ہیں لیکن والدین بچوں کے اس احساس کو سمجھ نہیں پاتے۔

اس سلسلہ میں غلط فہمی کے شکار لوگوں کا ماننا ہے کہ جیب خرچ بچوں کو فضول خرچ بناتا ہے جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ جب انھیں یہ معلوم ہوگا کہ ایک مہینے میں اتنے روپیے ملیں گے اور اپنے جملہ اخراجات کو اسی رقم سے پورا کرنا ہوگا تو وہ بجٹ اس طرح تیار کریں گے کہ پورے مہینے انکا خرچ چل جائے اور مزید پیسوں کی ضرورت نہ پڑے۔ اتنا ہی نہیں اس میں سے کچھ روپیہ آگے کے لیے یا اگلے مہینے کے لیے بچا بھی سکتے ہیں۔ اکثر والدین یہ دلیل دیتے ہیں کہ جب بچوں کو لنچ دے دیا جاتا ہے، اسکول سے گھر تک آنے جانے کا انتظام بھی کردیا جاتا ہے تو پھر ان کو الگ سے روپیوں کی کیا ضرورت ہے؟ ہم اس بات کو مانتے ہیں کہ آپ نے ہر طرح کی سہولت فراہم کردی ہیں لیکن کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ دوستوں کو کچھ خریدتے دیکھ کر ان کے دل میں بھی یہ خواہش ہوتی ہے یا ہوسکتی ہے۔ ایسے میں اگر اس کے پاس پیسہ نہ ہو تو اس کے دل میں احساس محرومی آسکتا ہے جو اسے احساس کمتری میں مبتلا کردے گا۔

ممکن ہے کبھی اسکول بس، آٹو یا اسکی اپنی سائیکل خراب ہوجائے، ایسے میں اگر اس کے پاس جیب خرچ ہو تو وہ بآسانی اسکول آجاسکتا ہے، بچے اپنے جیب خرچ کو بھلے ہی خرچ نہ کریں لیکن پیسے پاس ہونے سے بچے پُر اعتماد ہوتے ہیں اور بچوں میں اعتماد کا ہونا بہت ہی ضروری ہے ورنہ وہ احساس کمتری کا شکار ہوجائیں گے۔

کچھ ضروری ہدایتیں

بچوں کو جیب خرچ دینے میں کوئی قباحت کی بات نہیں ہے، ہاں انھیں کچھ ہدایتیں ضرور دی جاسکتی ہیں تاکہ وہ اس پیسے کا غلط استعمال نہ کریں۔ ایک بار آپ نے بچے کو جیب خرچ دے دیا تو پھر ان سے اس کا حساب نہیں طلب کرنا چاہیے اور نہ یہ ہیں کہ پہلے مہینے کا حساب دو تب میں اس مہینے کا خرچ دوں گی۔ آپ دوسرے ذرائع سے یہ پتا لگا سکتی ہیں کہ کہیں بچہ پیسے کا غلط استعمال تو نہیں کررہا ہے۔

بچوں کو جیب خرچ دینا کوئی غلط چیز نہیں ہے یہ تو اس دور کی ضرورت ہے اور ہر بچے کو ملنا چاہیے اس سے انھیں پیسے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اور انھیں خرچ کا کرنے کا صحیح استعمال بھی معلوم ہو جائے گا ہاں بچوں کو کس عمر سے جیب خرچ دینا چاہیے یہ ایک غور طلب بات ہے عام طور پر جب بچے درجہ تیسری یا چوتھی کلاس میں آتے ہیں تو وہ اتنے بڑے ہوجاتے ہیں کہ وہ نوٹ اور سکّوں کو پہچان سکیں۔ جیب خرچ کی حد آپ ان کی ضرورت اور اپنے حالات و معیار زندگی کے اعتبار سے متعین کرسکتے ہیں۔ جب بچہ چھ سات یا آٹھویں درجے تک پہنچتا ہے تو خرچ بڑھانے کی ضرورت پیش آتی ہے انھیں کم سے کم ایک مہینے میں سو روپیہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہیں نویں، دسویں، گیارہویں، بارہویں کلاس کے بچوں کو ڈیڑھ سو سے دو سو روپیہ دینا چاہیے۔ ہاں اگر آپ کی حیثیت اتنی نہیں ہے تو کم بھی کرسکتے ہیں لیکن اگر آپ کی حیثیت اس سے زیادہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ انھیں زیادہ جیب خرچ دیں۔ کیونکہ کسی بھی چیز کی زیادتی مضر ثابت ہوتی ہے۔ جب بھی آپ اپنے بچے کو جیب خرچ دیں تو اسے یہ بات ضرور بتادیں کہ اسے کہاں اور کیسے استعمال کریں۔ یہ واضح طور پر بتادیں بلکہ اس کی تاکید کردیں کہ نشہ خوری اور گندی عادتوں مثلاً پان، بیڑی، سگریٹ اور گٹکھا وغیرہ سے دور رہیں اور اس طرف بھی متوجہ کردیں کہ ضرورت سے زیادہ چاکلیٹ، آئس کریم، چاٹ پکوڑی یا سڑک پر بکنے والی کھانے پینے کی چیزوں کا استعمال نہ کریں یا نہ کھائیں۔ بچوں میں بچت کی عادت ڈالنے کے لیے گولک خرید کر دے دیں اور ان سے کہیں کہ اگر مہینے کے آخر میں کچھ روپے بچ جائیں تو وہ اس میں ڈال دیں اور ہر مہینہ ایسا ہی کریں۔ جب گولک بھر جائے تو وہ روپیہ نکال کر اس کی اجازت سے یا تو اپنے پاس رکھ لیںکہ اس کی ضروت اور مطالبہ پر واپس دے دیا جائے گا یا اس کے لیے کوئی اہم چیز خرید دیں۔ مثلاً سائیکل، گھڑی یا اس کی مند پسند کوئی بھی چیز۔ البتہ ذہن میں رہے کہ اس رقم کو خرچ کرنے کے لیے اسے مکمل اختیار دیا جائے اور اس کی پسند کو ہی بنیاد بنایا جائے۔ اس سے انہیں خوشی بھی ہوگی اور اپنے آپ پر اور والدین پر اعتماد میں بھی اضافہ ہوگا۔ اپنے بچوں کو یہ بات بھی ذہن نشین کرادیں کہ ہر خاندان کی معاشی حالت مختلف ہوتی ہے اور یہ کہ مالی حالات میں اتار چڑھاؤ بھی آتے رہتے ہیں۔ اس لیے امیر بچوں سے اپنا مقابلہ یا موازنہ نہ کریں۔ یہ بات بھی ان کو سمجھائیں کہ چھوٹوں کو کم اور بڑوں کو زیادہ جیب خرچ کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے وہ بڑوں سے موازنہ نہ کریں اور نہ ہی انہیں دیکھ کر ضد کریں۔ اسی طرح قرآن و حدیث کی روشنی میں فضول خرچی اور بخل کے نقصانات بتا کر خرچ میں میانہ روی کے لیے آمادہ کریں۔

بچوں کو جیب خرچ دینے سے ان کے اندر ذمہ دارانہ شعور پیدا ہوتا ہے اور پروان چڑھتا ہے۔ وہ اس بات کو محسوس کرتے ہیں کہ ان پر آپ نے اعتماد یا بھروسہ کیا ہے اس طرح وہ آپ کے اعتماد کو کبھی نہیں توڑیں گے۔ اس کے برخلاف جیب خرچ سے محروم بچوں کے اندر چوری،جھوٹ اور دھوکہ دہی کی ابتدائی عادات دیکھی گئیں۔ جبکہ اکثر اوقات یہ ابتدائی عادات جیب تراشی، ڈکیتی اور بڑے بڑے جرائم میں تبدیل ہوگئیں۔

بچوں کے دل میں بھی آرزوئیں اورتمنائیں ہوتی ہیں وہ اپنے والدین، بھائی بہن کے یوم پیدائش اور تقریبات پر انھیں تحفہ و تحائف دینا چاہتے ہیں جس کو وہ اپنے جیب خرچ سے ہی پورا کرنا چاہتے ہیں اور اس سے ان کو بہت سکون و اطمینان کا احسا س ہوتا ہے۔ اس لیے جب خرچ سے محروم کرکے آپ انہیں اس خوبصورت احساس سے محروم نہ کریں۔ اور نہ ہی ان کی خود اعتمادی اور احساس ذمہ داری جیسی بنیادی صفات کی افزائش میں رکاوٹ بنیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146