ایک خط
میں گذشتہ ایک سال اور کچھ زیادہ مدت سے آپ کے رسالہ کی قاری ہوں۔ آپ کا کہنا ہے کہ یہ خواتین اور طالبات کا پاکیزہ رسالہ ہے۔بات درست ہوسکتی ہے کہ اردو رسالوں میں اب کوئی رسالہ نظر نہیں آتا جو خواتین کے لیے ہو اور پاکیزہ بھی ہو کیونکہ پاکیزگی کے دعوے کے باوجود وہ اس کا ثبوت عملاً فراہم نہیں کرتے۔آپ کا رسالہ اگرچہ صاف ستھرا ہے اور دینی بھی ہے لیکن کئی پہلوؤں سے بڑا غیر معیاری معلوم ہوتا ہے۔
اس وقت سائنس اور ٹکنالوجی کا فی ترقی کرگئی ہے اور انتہائی سستی بھی ہوگئی ہے۔ مارکیٹ میں ہر طرف خوبصورت رنگین اور معیاری کاغذ و پرنٹنگ کے ساتھ رسالے موجود ہیں۔ عورتوں کے رسالے تو خاص طور پر بڑے خوبصورت اور ظاہری معیار کے اعتبار سے بڑے شاندار نظر آتے ہیں۔ اس پہلو سے جب حجاب اسلامی کو دیکھتی ہوں ۔
دوسری بات یہ کہ آپ کے موضوعات بڑے پرانے اور گھسے پٹے معلوم ہوتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ آپ ایک خول میں بند ہیں جس سے نکلنا نہیں چاہتے۔ حالانکہ خواتین کے خصوصاً مسلم خواتین کے بے شمار مسائل ایسے ہیں جنھیں مسلم سماج کا کوئی بھی رسالہ، کوئی بھی عالم اور کوئی ادارہ اٹھانے کی جرأت نہیں کرتا۔ کیا آپ کے اندر یہ جرأت ہے کہ آپ مسلم خواتین کے ان حساس مسائل کو اٹھائیں۔
تیسری بات یہ کہ خواتین و طالبات کے لیے صحت سے متعلق اور دیگر اہم اور نازک معاملات میں ضروری رہنمائی کو بھی اخلاق کے خلاف اور غیر مناسب تصور کیا جاتا ہے۔ حالانکہ مسلم خواتین اور لڑکیوں کو اس کی شدید ضرورت ہے۔ آپ کیونکہ دینی رسالہ نکالتے ہیں اور آپ کا رسالہ واقعی دینی اور پاکیزہ ہے اس لیے میں آپ ہی سے یہ امید کرتی ہوں کہ اس میدان میں بھی آپ رہنمائی فرمائیں۔
تلخ نوائی کے لیے معافی کی خواستگار ہوں۔
ڈاکٹر سمیہ فرید سارنگ، ممبئی
]آپ کی باتیں واقعی قابل فہم اور ضروری ہیں۔ ہمارا مسلم سماج جہاں دیگر چیزوں میں پسماندہ ہے وہیں اپنی ضروریات کو سمجھنے سے بھی قاصر ہے۔ اور دین کے معاملہ میں تو ہم شریعت سے زیادہ بعض اوقات خود ساختہ معیاروں اور اصولوں کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔ یہ بڑی دشواری ہے۔ بہ ہر حال دیکھتے جائیے۔ (مدیر)[
مسلمانوں کی صورتحال
ماہ مارچ و اپریل کے حجاب اسلامی ہمارے سامنے ہیں۔ سبھی مضامین قابل غور اور قابل تعریف لگے۔ ماہ مارچ میں دیر سے حرم پڑھا۔ واقعی یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ نسلی مسلمان اسلام کے بارے میں نہیں جانتے۔ یہ بات ہر کسی کے ذہن میں سرایت کرچکی ہے کہ ہم تو کلمہ گو اور مسلمان پیدا ہوئے ہیں، اس لیے ہمارا تو بیڑا پار ہو ہی جائے گا۔ لیکن شاید ہم لوگ بھول جاتے ہیں کہ اسلام اللہ تعالیٰ کے احکامات اور محمدؐ کی تعلیمات کے سامنے مکمل حوالگی کا نام ہے اور اگر کوئی اس کامل اطاعت خدا و رسول کے بغیر جنت کی امید لگائے ہے تو وہ نادان ہے۔
اللہ کے رسولؐ نے اس امت کی بقاء و ترقی کا راز امر بالمعروف و نہی المنکر کو بتایا تھا لیکن آج ہم لوگ سماج میں پھیلی بے راہ روی ، فیشن پرستی اور عریانیت کو دیکھ کر محض اس پر تبصرہ کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں اور اپنی ذمہ داری کا احساس تک نہیں کرتے۔ آج ہم امت محمدی ہونے پر فخر کرتے ہیں لیکن رسول کی تعلیمات کا جان بوجھ کر اور کھلم کھلا عملاً انکار کرتے ہیں۔ فاطمہؓ جیسی پاکیزہ، عائشہ صدیقہ ؓ جیسی ذہین اور صفیہؓ جیسی بہادر عورتوں سے ہماری خواتین کم ہی واقف ہیں جب کہ ہمارے نوعمر بچے بچیاں فلمی ستاروں اور ماڈلوں کے نہ صرف ناموں سے واقف ہیں بلکہ ان کی پسند و ناپسند کو بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔
حجاب کے صفحات اس بات کے لیے وقف کیے جائیں کہ ہماری خواتین اور ہماری بیٹیاں عائشہ ؓو فاطمہؓ کی زندگیوں کو اپنا آئیڈیل بنانے لگیں اور اسلام کے لیے قربانی دینے والے نسل تیار ہوسکے۔
دوسری بات یہ کہنی تھی کہ ماہ اپریل میں جو یہ مشورہ دیا گیا کہ GIOکے کام کی رپورٹیں حجاب میں شائع کی جائیں تو واقعی یہ ایک مفید مشورہ ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور بات یہ کہ مجلسِ مشاورت کے ممبرس و دیگر لوگوں کا تفصیلی تعارف اگر حجابِ اسلامی میں شائع ہوتا تو یہ ایک بڑی اچھی بات ہوتی ہے۔
صبا پروین، جمشید پور
گوشۂ نوبہار
مجھے ماہنامہ حجاب کا کالم گوشۂ نو بہار بہت اچھا لگتا ہے، یہ میں بہت دلچسپی سے پڑھتی ہوں۔ آنٹی اس میں اور بچوں کے لیے معلوماتی کالم بھی شروع کریں، حضورؐ کا بچپن، صحابہ کرامؓ کا بچپن، امہات المومنین کا پچپن کا پچپن جو بھی مقامی خاتون گزریں ان کے بچپن کے بارے میں لکھیں اس طرح کے کالم اگر آپ شائع کریں گی تو ہماری معلومات میں اضافہ ہوگا اور پھر ہمارے اندر ان جیسا مثالی مسلمان بننے کا شوق پیدا ہوگا۔
اسماء بنت آصف، جوگابائی، نئی دہلی
افسوس کی بات نہیں!
ماہنامہ حجاب کے لیے اپنی ایک کہانی ’’یا اللہ شکر ہے‘‘ روانہ کررہی ہوں۔ یہ میں نے مائل خیرآبادیؒ کی حیات میں بھی کچھ لکھا تھا۔ وہ ہوتے تو مجھے نیک مشوروں سے نوازتے۔ اللہ سے دعا ہے کہ مائل خیرآبادیؒ اور ابن فریدؒ اور اہلیہ ابن فریدؒ کو اللہ جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین! آپ نے پھر سے حجاب شائع کیا بہت خوشی ہوئی۔ ایک دو شمارے دیکھنے کو ملے۔ لیکن افسوس یہ ہوا کہ حجاب کو آپ نے حجاب اسلامی لکھا پہلے غیر اسلامی تھا کیا۔ حجاب تو خود ہی ایک جامع لفظ ہے۔
ساجدہ خاتون، جمشید پور
]آپ کو معلوم ہے کہ اب حجاب رامپور کے بجائے دہلی سے نکل رہا ہے اسٹیٹ بدل جانے کے سبب نیا رجسٹریشن کرانا پڑتا ہے۔ اس لیے نام بھی بدلنا ہوتا ہے۔ یہ قانونی مسئلہ تھا اس لیے حجاب کو حجاب اسلامی کرنا پڑا۔ اس پر افسوس کی کوئی ضرورت نہیں۔ آپ مطمئن رہیں، یہ حجاب وہی حجاب ہے جو مائل خیرآبادیؒ اور ابن فریدؒ مرحومین کا حجاب تھا۔[
اب ایسا امیر کہاں سے آئے گا؟
مئی کا حجاب اسلامی ملا۔ دیکھ کر خوشی ہوئی۔ ٹائٹل اپنی سادگی کے باوجود دلکش تھا۔ میری کوتاہی کہ مجھے عبدالرشید عثمانی صاحب کے انتقال کی خبر حجاب اسلامی ہی کے ذریعہ ملی۔ ’’مرد درویش تھا نہ رہا‘‘ دیکھتے ہی ایک جھٹکا سا لگا اور پھر ذہن میں وہ تمام نقوش تازہ ہوگئے جو ان سے وابستہ تھے۔
مجھے اگرچہ عبدا لرشید عثمانی مرحوم کے ساتھ کبھی رہنے کا تو موقع نہیںملا لیکن دہلی میں ان سے ہوئی ملاقاتوں نے ذہن و دماغ پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ ان کی سادگی، خدا ترسی، ملنساری اور محبت نے ہر آدمی کو متاثر کیا ہے۔ نہ جانے کیوں میرا دل ان کی طرف کھنچا جاتا تھا اور دل چاہتا تھا کہ ان کی صحبت کا راز ہو۔
میرے بیٹے کی شادی تھی۔ میں نے انہیں دعوت نامہ ارسال کیا اور ساتھ ہی ایک خط بھی لکھا جس میں میں نے یہ لکھا تھا کہ شادی نہایت سادگی سے ہوگی اور جہیز کا لین دین ہرگز نہ ہوگا۔ مرحوم نے کارڈ ملتے ہی فوراً مجھے خط لکھا جو مجھے عین شادی کے روز ملا۔ اس میں مبارک باد اور سادہ شادی کے لیے ستائش کے علاوہ عدم شرکت پر معذرت کی تھی۔میں جانتا ہوں کہ جماعت سے وابستہ احباب ضرور مرکزی شخصیات کو شرکت کی دعوت دیتے ہوں گے اور ان کے لیے ان تمام میں شرکت ممکن نہیں۔ مگر خط لکھ کر مبارک باد دینا میرے لیے ان کا سب سے قیمتی تحفہ ہوگیا۔
میں سب کچھ بھول چکا تھا کہ ایک روز جماعت کے ایک رفیق میرے گھر آئے اور ایک پیکٹ مجھے تھمایا جس پر میری بہو کا نام درج تھا اور میری وساطت لکھی تھی۔ میں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس میں چند کتابیں تھیں جو انھوں نے میری بہو کے لیے ارسال کی تھیں۔
آج اس واقعہ کو یاد کرکے میری آنکھیں نم ہیں اور میں سوچتا ہوں کہ ’’اب ایسا امیر کہاں سے آئے گا‘‘ علامہ اقبال نے کہا تھا:
کوئی کارواں سے ٹوٹا کوئی بدگماں حرم سے
کہ امیر کارواں میں نہیں، خوئے دل نوازی
اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کا نعم البدل تحریک کو عنایت کرے۔ آمین
عمران سعید، ہلدوانی، اترانچل