حجاب کے نام!

شرکاء

امتحان کی تیاری
ماہنامہ حجابِ اسلامی کے تازہ شمارے میں مضمون امتحان اور اس کی تیاری دیکھنے اور پڑھنے کو ملا۔ مضمون میں طلبہ کو کچھ معلومات فراہم کی گئی ہیں جو امتحان لکھنے میں ان کے لیے مفید ہیں۔
آئندہ ماہ سے بچوں کے امتحان شروع ہونے والے ہیں اس لیے اس سلسلہ میں ایک بات والدین سے کہنا ضروری سمجھتا ہوں۔ اور یہ بات میں اس لیے کہنا چاہتا ہوں کیونکہ میں خود ایک ٹیچر ہوں اور بچوں کی کیفیت سے واقف ہوں جو وہ امتحانات کے دنوں میںجھیلتے ہیں۔
امتحانات میں اچھے نمبروں کا حصول اکثر بچوں کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے، یہاں تک کہ وہ بچے جو اپنی پڑھائی کے سلسلے میں سال بھر سنجیدہ نہیں ہوتے وہ بھی ان دنوں اپنی تعلیم پر توجہ دینے لگتے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ درست اور فطری ہے۔ امتحان کو لے کر بچوں کا فکر مند ہونا اور زیادہ توجہ کے ساتھ پڑھنا بھی فطری ہے۔ لیکن آج کل ایک چیز بہت زیادہ دیکھنے میں آتی ہے کہ بچوں سے زیادہ پریشان ان کے والدین ہی ہوتے ہیں اور وہ ان پر ہمیشہ پڑھنے، پڑھنے اور پڑھنے کا دباؤ ڈالتے رہتے ہیں۔ یہ بات ان کے لیے فائدہ مند سے زیادہ ان دنوں نقصان دہ ہوتی ہے۔ عام دنوں میں بچوں کو پڑھائی پر توجہ دینے کے لیے ٹوکنا مفید ہے لیکن امتحان کے دنوں میں اپنی طرف سے ان پر پڑھائی کے لیے اضافی دباؤ ڈالنا کسی طرح بھی مناسب نہیں ۔ ایک اور بات یہ بھی ہے کہ عام طور پر والدین اپنے بچوں کا کیریر اپنی خواہش کے مطابق بنانا چاہتے ہیں، خواہ بچہ اس کے لیے آمادہ ہو یا نہ ہو۔ یہ بات اکثر بچوں کے کیریر کے لیے نقصان دہ ثابت ہوجاتی ہے اور بچے اپنے والدین کی خواہشات کو اس لیے پورا نہیں کرپاتے کیونکہ ان کا رجحان ہی وہ نہیں ہوتا جو ان کے والدین چاہتے ہیں۔
کبھی کبھی والدین کی خواہشات اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ بچہ اپنی طبیعت اور صلاحیت کے لحاظ سے ان خواہشات کو پورا نہیں کرپاتا، ایسی صورت میں بچہ اور والدین دونوں مایوسی کا شکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہمارے ملک میں بورڈ کے امتحانات کا نتیجہ آتے ہی ہر سال درجنوں طلبہ و طالبات خود کشی کرنے لگتے ہیں اور یہ تناسب بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اس کا سبب صرف اور صرف بچوں سے والدین کی بے جا توقعات ہیں۔
ایسے میں والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کی صلاحیت، مزاج اور رجحان کو سمجھ کر ہی ان سے امیدیں قائم کریں۔ ڈاکٹر، انجینئر یا کچھ اور بننے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ہمارے بچے ہمارے بچے ہی رہیں اور خوش و خرم اور اطمینان کی زندگی گزاریں۔
ماہنامہ حجابِ اسلامی کے ذریعے میں قارئین والدین کو اپنا یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ والدین اپنے بچوں پر اپنی خواہشات کا اتنا بوجھ نہ ڈالیں کہ وہ برداشت نہ کرسکیں اور ٹوٹ جائیں۔ اپنی اولاد کو کامیاب دیکھنا ہماری فطری خواہش ہے مگر اس سے زیادہ اہم اور ضروری ان کا نفسیاتی اور جسمانی اعتبار سے صحت مند رہنا ہے۔ امید ہے کہ قارئین حجاب اس پر توجہ فرمائیں گے۔
قمر الدین خمارؔ، بریلی
قابلِ قدر کوشش
تازہ حجابِ اسلامی اس وقت ہمارے سامنے ہے۔ ٹائٹل کا نیا پن قابلِ قدر ہے۔ ٹائٹل پر جو مضامین دیے گئے ہیں ان کے سلسلے میں یہ عرض کرنا ہے کہ اگر دینی اور فکری مضامین کو ہی ٹائٹل پر جگہ دی جائے تو زیادہ اچھا لگے گا۔
ٹائٹل پر مضامین دینے میں اس بات کا بھی لحاظ کیا جانا چاہیے کہ مضامین معیاری، معلوماتی اور مفید ہوں۔ حالانکہ حجابِ اسلامی کے تمام ہی مضامین ان خوبیوں کے حامل ہوتے ہیں مگر بعض مضامین اہمیت کے باوجود ٹائٹل پر جگہ نہیں پاتے۔
موجودہ دور کا پرنٹ میڈیا خوبصورت تصویروں اور گرافکس سے اپنے رسالے کو سجاتا ہے اور پرکشش بناتا ہے۔ معلوم نہیں ہمارے اردو رسالے کب اس معیار کو پہنچیں گے۔ ماہنامہ حجاب اسلامی کی صورت میں آپ کی کوششیں قابلِ قدر ہیں۔ اللہ تعالیٰ اسے ترقی دے۔ آمین!
نہال الدین احمد، دربھنگہ (بہار)
صداقتوں کے پاسبان
جنوری کے رسالے میں قسط وار ناول کی آخری قسط پڑھ لی۔ اس ناول نے قارئین پر اچھا اثر چھوڑا ہے۔ اب جبکہ یہ سلسلہ وار ناول ختم ہوگیا ہے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ سلمیٰ نسرین سے ہر ماہ ملاقات کا سلسلہ بند ہوجائے گا۔
ماہنامہ حجابِ اسلامی کو چاہیے کہ وہ سلمیٰ نسرین سے اگلے ناول کی جلد از جلد اشاعت شروع کرنے کے لیے کہے۔ ہوسکتا ہے ان کے ذہن میں اور کوئی ناول ہو اور اگر کوئی اور پلاٹ نہ ہو تو اسی ناول کا اگلا حصہ لکھا جاسکتا ہے۔ ایسا میں اس وجہ سے کہہ رہی ہوں کہ ناول اگرچہ ختم ہوگیا ہے مگر یہ زندگی کے صرف ابتدائی عمر کے کوششوں کو کور کرتا ہے۔ عملی زندگی پر بھی اگر اسے پھیلا دیا جائے تو یہ ایک مکمل ناول بن سکتا ہے۔ یہ تو تجویز ہے ہوسکتا ہے ناول نگار اس سے اتفاق نہ کرے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ادارہ جلد از جلد اسے کتابی شکل میں شائع کردے تو بہت سے قارئین کی ضرورت پوری ہوجائے گی اور وہ لوگ بھی ناول کو پڑھ سکیں گے جن کی قسطیں چھوٹ گئی ہیں۔ اور کتابی شکل میں اشاعت سے اس کی افادیت کا دائرہ بھی بڑھ جائے گا۔ آئندہ کسی قسط وار کا جلد از جلد اضافہ کریں تو بہتر ہے۔
ڈاکٹر نکہت فاطمہ (بھوپال)
]سلمیٰ نسرین کا ناول ختم ہوگیا۔ مگر ابھی تک انھوں نے اور کچھ نہیں لکھا ہے۔ دراصل ان کے ہاتھ میں تکلیف ہے جس کے سبب ڈاکٹروں نے انھیں لکھنے پڑھنے سے منع کردیا ہے۔ ان کے ذہن میں لکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ قارئین دعا فرمائیں کہ اللہ ان کو صحت دے اور وہ لکھنا جاری رکھ سکیں۔
ادارہ جلد ہی اس ناول کو کتابی شکل میں شائع کرے گا۔ یہ قارئین حجاب کے لیے خوش خبری ہے۔ ایڈیٹر[
انعامی مقابلہ شروع کریں
ہم حجاب کے قارئین ہیں، حجاب ہمارے گھر میں ہر ایک کی پہلی پسند ہے۔ بانی دور اول جناب مائل خیرآبادی صاحب مرحوم کے دور میں یہ ہماری نانی جان کے پاس آیا کرتا تھا۔ اس کے چند خاص نمبر اب بھی ہماری لائبریری میں موجود ہیں۔ اس نئی اشاعت کے ساتھ ہی یہ دوبارہ ہمارے پاس آرہا ہے۔
کئی مرتبہ خط لکھنے کا ارادہ ہوا لیکن پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا، لیکن ’صداقتوں کے پاسبان‘ نے قلم اٹھانے پر مجبور کردیا۔ ماشاء اللہ، سبحان اللہ اس کی تعریف میں جو کچھ کہا جائے کم ہے۔ آخری قسط بھی موصول ہوئی اور اسی کے ساتھ یہ خواہش ہے کہ اسے جلد از جلد کتاب کی شکل میں آنا چاہیے۔
بلا شبہ حجاب نے بہت جلد ترقی کی ہے اور اردو رسالوں میں ایک نمایاں مقام بنالیا ہے ایک گزارش ہے کہ اس میں کوئی انعامی مقابلہ شروع کیا جائے۔
زلفیٰ رفعت اور بہنیں، اودگیر

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں