حجاب کے نام!

شرکاء

پردہ کا مسئلہ

نومبر کا شمارہ وقت پر موصول ہوا۔ دیکھ کر طبیعت خوش ہوگئی۔ ٹائٹل اس مرتبہ بالکل نئے انداز کا مگر خوبصورت لگا۔ مضمون ’’اصلاح معاشرہ پر نبوی رہنمائی‘‘ بہت پسند آیا۔ ڈاکٹر سمیر یونس کی تحریر جس کا ترجمہ تنویر آفاقی صاحب نے کیا ہے بڑی کار آمد اور گھریلو زندگی کے لیے نہایت مفید نظر آئی۔ کاش کے ہمارے گھروں میں اس تحریر کا عملی تجربہ شروع ہوجائے۔

برطانیہ میں پردہ کی مخالفت پر اداریہ وقت کے اہم موضوع پر مناسب معلومات بھی فراہم کرتا ہے اور مغرب کے دوہرے معیاروں کو کھول کر رکھ دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مغربی نسل پرستوں اور شدت پسندوں کی آنکھوں میں نقاب پوش خواتین کاٹنے کی طرح چبھتی ہیں۔ وجہ ظاہر ہے کہ وہ عریاں کلچر کے عادی نیم لباس خواتین کے جسموں کو دیکھ کر آنکھیں سینکنے کے اسی طرح عادی ہوگئے ہیں جیسے شراب کے۔

اور معاف کیجیے اس مہم میں صرف برطانیہ ہی نہیں بلکہ یوروپ کے تقریباً سبھی ممالک اور بعض تو مسلم ممالک بھی کھلے یا چھپے شامل ہیں۔ عرب ملک تیونیشیا میں پردہ کے معاملہ کو لے کر سخت تنازعہ جاری ہے۔ کئی سال پہلے ترکی میں ایک ممبر پارلیمنٹ خاتون کو صرف اس وجہ سے کہ وہ اسکارف پہن کر ہاؤس میں آئی تھیں،تو پارلیمنٹ کی ممبر شپ یہاں تک کہ شہریت سے بھی ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ یہ ایک مسلم ملک کا حال ہے کہ ایک عوامی نمائندے کو جو لوگوں کے ذریعہ منتخب ہوکر آیا تھا اس قدر ظلم کا نشانہ بنایا گیا اور جمہوریت کے محافظ ایک لفظ نہ بولے۔

عجیب و غریب صورت حال ہے۔ اکثر مسلم ممالک میں تہذیبی اور ثقافتی اعتبار سے پردہ پسماندگی کی علامت دکھائی دینے لگا ہے۔ ایسے میں باپردہ خواتین کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ اپنے پردہ کے باوجود ترقی کی ہر اونچی چوٹی پر پہنچ سکتی ہیں۔ جیسا کہ گذشتہ سال ایران کی باپردہ خواتین نے ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کیا۔

ڈاکٹر نکہت افروز، لکھنؤ

تبدیلی کا سلسلہ جاری رہے

حجاب اسلامی نومبر ۲۰۰۶ء ملا۔ سرورق کا ڈیزائن اور اس کے مناسبت سے مضمون ’’مسلم سماج کی شادیاں‘‘ معلوماتی اور دعوتِ فکر دیتا ہے۔ اداریہ، دینیات، تحریک و دعوت، تربیت کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ جبکہ صحت، بیوٹی ٹپس ، آرائش، اخبارِ نسواں پڑھنے اور سمجھنے لائق ہیں۔ مہندی کے ڈیزائن، مائدہ، گوشۂ نو بہار، کافی دلچسپ ہے۔ مجھے تو خطوط کا کالم بھی معلوماتی لگتا ہے کہ اس سے قارئین کی رائیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔اللہ کا شکر ہے رسالہ معیاری ہوتا جارہا ہے۔ الگ الگ لوگوں کی اپنی اپنی پسند ہے اور اسی مناسبت سے مشورے آتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ برابر تبدیلی کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ تاکہ ہر شمارہ میں نیا پن محسوس ہو اور بہتر سے بہتر عنوانات پر مضامین قارئین کو ملیں۔

سماج اور دنیا ہمیشہ مختلف مسائل کے شکار ہوتے رہتے ہیں اور مسائل کا حل ہمیشہ پرچہ میں رہنے سے معیار بلند ہوتا ہے۔ ادارہ پرچہ کا اشتہار دوسرے پر چوں اور اخبار میں بھی دیا کرے تو حلقہ تعارف وسیع ہوگا۔

مستحق الزماں خاں، محی الدین نگر، بہار

جہیز اور اسوہ نبوی

نومبر ۲۰۰۶ء کا شمارہ ہم دست ہوا۔ شیحا کے انٹرویو کا ترجمہ شائع کیا۔جزاک اللہ یہ مسلم خواتین کو دعوتِ فکر وعمل دیتا ہے۔ محترم مولانا اسعد گیلانیؒ کی خواتین سے متعلق تحریر کی اشاعت مفید ہے۔ مسلم سماج کی شادیاں مضمون سلیقے سے مرتب کیا گیا ہے۔ جہیز کا لینا دینا نہ تو سنت اور نہ لازمۂ نکاح ہے۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ جہیز کا کوئی تصور اسلام میں ہے ہی نہیں۔ یہ خالصتاً ہندوانہ پس منظر ہے۔ نیز امت میں ایک مغالطہ ’’جہیز فاطمہ‘‘ کو لے کر ہے، حقیقتِ حال یہ ہے کہ حضورﷺ نے حضرتِ فاطمہ کو جہیز کے نام پر ایک پیسے کی بھی کوئی شئے نہیں دی ہے۔ آپ نے حضرت علیؓ کو بلایا اور پوچھا کہ مہر کے لیے کچھ ہے؟ انھوں نے کہا نہیں۔ اس لیے کہ حضرت علی فقراء صحابہ میں سے تھے، پھر آپ نے ان کی زرہ یاد دلائی جو ان کے پاس تھی۔ اس لیے کہ مہر تو نکاح کے لیے شرط ہے، اس زرہ کو حضرت عثمانؓ نے ۳۰ درہم میں خرید لیا۔ اسی ۳۰ درہم کو لے کر نبی اکرمﷺ کے پاس آئے۔ آپؐ نے اس میں سے کچھ پیسوں سے وہ چیزیں خریدنے کا انتظام فرمایا ہے۔ (گدا، مشکیزہ، چکی، برتن وغیرہ) یہ حضرت علیؓ کی مالیت سے لی گئی تھیں، نبی اکرمؓ نے اپنی جیب سے ایک پیسے کی بھی شئے جہیز کے نام پر حضرت فاطمہؓ کو نہیں دی ہے۔

جماعت کی اسلامی خاندان مہم کی مناسبت سے حجاب کے شمارہ میں مضامین کی اشاعت ہونی چاہیے تھی۔ سارے اخبارات و رسائل میں اس کی گونج نہ سہی کم از کم ہمارے تحریکی رسائل تو مہم کے پرچار کے سلسلے میں معاون ثابت ہوں۔

ملا الفت قانتہ، اولڈ ہبلی

آسان زبان ہو

ماہنامہ حجاب اسلامی ہمارے یہاں کافی پسند کیا جارہا ہے۔ کچھ دنوں پہلے آپ کے نمائندے یہاں آئے تھے اور کافی خریدار بنے تھے۔ میں ان کے ہمراہ تھا۔ ان میں سے کئی خریداروں کو پرچہ نہیں مل رہا ہے۔ ممکن ہے ڈاک اس کا سبب ہو۔ توجہ فرمائیں۔

رسالہ اپنے مشمولات کے اعتبار سے بہت اچھا ہے۔ مضامین ہلکے پھلکے اور آسان اور سادہ زبان میں لکھوانے کی کوشش ہونی چاہیے۔ کیونکہ حجاب کے حلقہ قارئین میں ایسے لوگ، مرد وخواتین بھی شامل ہیں جو اردو زبان سے بہت زیادہ واقف نہیں۔ میں نے ایک نظم ’’اے بنتِ حرم جاگ‘‘ ارسال کی تھی ابھی تک شائع نہیں ہوئی جبکہ اس کے بعد بھیجی گئی غزل شائع ہوگئی ہے۔

عبدالماجد نثار، نرمل، آندھرا پردیش

]محترم نثار صاحب! حجاب پسند کیا جارہا ہے اللہ کا فضل ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آ پ ہمیں ان لوگوں کے پتے ارسال کردیں جنھیں پرچہ نہیں مل رہا ہے۔ ویسے آپ کے خط کے بعد ہم نے ریکارڈس میں چیک کیا تو یہ معلوم ہوا کہ پرچہ یہاں سے تو بھیجا جارہا ہے۔ آپ کی نظم اس شمارہ میں شامل ہے۔ دراصل ہم تمام شعری تخلیقات حضرت ابوالمجاہد زاہد صاحب کو دکھا کر ہی شائع کرتے ہیں۔ اس وجہ سے تاخیر ہوئی۔ اور اب بھی وہ اسے نہ دیکھ سکے کیوںکہ ان کی طبیعت خراب ہے اور وہ اپنے وطن رامپور میں ہیں۔ دعا کیجیے اللہ تعالیٰ انہیں مکمل صحت دے۔ آمین![

ایک حقیقت

نومبر کا شمارہ موصول ہوا۔ نیا سا ٹائٹل پسند آیا۔ مضامین بھی اچھے لگے مگر ان میں سب سے بہترین اور دل کو چھولینے والی تحریر محترمہ رضیہ فرید کی لگی جس کا عنوان تھا، ہم نہیں کھیلتے زندگی زندگی! یہ افسانہ ہی نہیں حقیقت بھی ہے۔

مذکورہ تحریر نے سماج کے اہم مسئلہ کو اجاگر کیا ہے۔ اور ملت کی تصویر پیش کی ہے۔ نہ جانے کتنے ہی خاندان ہیں جہاں اس قسم کے حالات ہیں۔ دراصل تعلیم سے دوری کی ایک بڑی وجہ غربت و افلاس بھی ہے۔ ایک غریب خاندان جسے دو وقت کی روٹی نصیب نہیں وہ اپنے بچے کو کام پر بھیجے یا اسکول بھیجے؟ اور اسی کیفیت میں ہزاروں لاکھوں بچے جو نہ جانے کیا کیا صلاحیت رکھتے تھے پیٹ کی بھوک کی بھینٹ چڑھ گئے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ کاش کہ ملت کے ہوش مند افراد ملک و ملت کے اس مستقبل کو سنوارنے کی فکر کرتے۔

خالدوحید، اے ایم یو، علی گڑھ

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں